جگنوؤں کی قبر

جگنوؤں کی قبر
دور افق پر سورج غروب ہوکر رخصت ہونے کا پیغام دے چکا تھا اور لوٹنے کی تیاری کر رہا تھا۔
سورج کی ڈوبتی کرنیں ماحول کو مزید خوفناک بنا رہی تھی۔
بوسیدہ عمارتیں، قیامت کا سما پیش کرتے راستے، اڑتی گرد، دھول میں اٹے مرد و خواتین، بچوں کے چہرے، ہاتھوں میں لاشیں اٹھاۓ، سینے سے لگائے، آنکھوں میں آنسو سمیٹے، ایسے آنسوں جنہیں ابھی بہنے کی اجازت نا تھی کیونکہ آگے انہیں بہنے تو ایک عمر پڑی تھی۔ لوگ ادھر سے ادھر بھاگ دوڑ رہے تھے، جو شہید ہو چکے تھے انہیں دفنانے کی تیاریاں جارہی تھی جن میں ابھی سانسیں باقی تھی انہیں ہسپتال لے جایا جارہا تھا اور بہت سی زندگیاں ایسی تھی جو ملبے کے نیچے دبی پڑی تھی بروقت انہیں کوئی ڈھونڈ لیتا تو بچ جاتے ورنہ وہیں دم توڑ دیتے مزید مدد کا انتظار کۓ بنا۔۔۔

16 اکتوبر کی صبح
تاریک رات رخصت ہو رہی تھی اجالے کے ساتھ ہی رات بھر کے ٹمٹماتے جگنوؤں نے اپنا سفر حیات مکمل کر لیا تھا اور یہاں وہاں گرے پڑے تھے۔
بھینی سہانی صبح نے سارے ماحول کو نور سے منور کر رکھا تھا ہر گھر میں سورج کی اترتی کرنیں ایک نئی زندگی کا پیام دے رہی تھی۔
بچے اپنے اپنے اسکول جانے کی تیاریوں میں مصروف تھے اور ان کی مائیں ان کے پیچھے ڈانٹ ڈپٹ میں، کہ جلدی جلدی ہاتھ چلاؤ ورنہ دیر ہو جائے گی۔
اَدارہ اٹھو!
یہ کیا!؟ تم نے ابھی تک برش بھی نہیں کیا؟
اوہو! جلدی کرو! ابو ہسپتال جاتے ہوئے تمہیں اسکول چھوڑ جائیں گے۔
ورنہ پیدل جانا پڑے گا۔
یہ عروہ تھی جو اَدارہ کے سر پر سوار ہو کر ہر روز کی طرح چلّاۓ جا رہی تھی
“اور سوچ لو، میں تو تمہیں چھوڑنے سے رہی، اور اگر تم نے پیدل جانے کی حماقت کی تو یاد رکھو! گلی کہ آوارہ کتّے وہ تمہارے ہی استقبال کی تیاریوں میں مشغول ہونگے جیسے ہی تم نیچے اتری ختم! وہ تمہیں ایک ہی لقمے میں ہضم کر جائینگے گے”
شرارت آمیز لہجے میں، بڑی سنجیدگی کے ساتھ عروہ کہہ رہی تھی ۔
امی دیکھیں! ادارہ چلاّئی
یہ عروہ آپی کیسے پھر ڈرا رہی ہے، آپ نا ان کی جلدی شادی کر دیں یہ اس گھر سے چلے جاۓ گی اور گھر میں سکون آ جاۓ گا۔
فریبہ جو کچن میں جلدی جلدی ناشتہ بنا رہی تھی وہیں سے اَدارہ کو آنکھیں دکھائی اور وہ خاموش ہو گئی۔
حسّان اپنی گھڑی ہاتھ پر درست کرتے ہوئے، اپنا Stethoscope گلے میں ڈالے، تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر سے نکلتے ہوئے احمد کو آواز دے کر کہنے لگا
احمد! “آج تم اَدارہ کو اسکول پہنچا دینا کالج جاتے ہوئے، مجھے ہسپتال میں کچھ ایمرجنسی ہے فوری نکلنا پڑے گا”
ان دنوں غزّہ کی حالت ہی کچھ ایسی تھی کہ اسے ہر روز ہی ہسپتال میں رکنا پڑتا۔ مسلسل بمباری کی وجہہ سے آۓ دن زخمیوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور قبرستان بھرتے جا رہے تھے۔
ادارہ ٹوسٹ چباتے ہوۓ منہ بنا کر بولی
“نہیں!! میں اخی کے ساتھ نہیں جاؤں گی، ان کے پاؤ سائیکل کے پینڈل تک نہیں پہنچ پاتے اور وہ ہمیشہ مجھے سڑک پر ہی گرا دیتے ہیں اور خود بھی گر جاتے ہیں”
عروہ نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا” ہاں یہ بات تو تم نے بالکل درست کی ہے ادارہ، اور پھر سے ہنسنے لگی ۔۔
فریبہ نے آنکھیں نکالتے ہوۓ دونوں لڑکیوں کی طرف دیکھا اور کہا
“چپ کر جاؤ تم دونوں ورنہ، تم دونوں کی عمر کا لحاظ کۓ بنا جوتے ماروں گی”
غزہ کے بہت سے گھروں کی طرح یہ بھی ایک خوشحال گھر تھا جہاں ایک چھوٹا سا خاندان، خدا کی دی ہوئی تمام نعمتوں کے ساتھ ہنسی خوشی رہ رہے تھے ۔
حسّان سرکاری ہسپتال میں Orthopedic Surgeon تھا، اس کی بیوی فریبہ گھر میں ہوا کرتی تھی ان کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا تھا. جن میں عروہ سب سے بڑی ١٩ سال کی تھی اس کے بعد احمد جو ١٦ سال کا تھا اور سب سے چھوٹی ادارہ تھی جس کے چار سال ختم ہوکر پانچواں سال شروع ہو چکا تھا اور ان تینوں بہن بھائیوں میں وہ اپنی عمر کے لحاظ سے کافی شریر واقع ہوئی تھی ۔
احمد کالج بیگ کندھے سے لگائے، اپنی سائنکل گھر کے صحن سے باہر نکالی اور اَدارہ کو آوازیں دینے لگا جلدی کرو ادارہ تمہیں اسکو چھوڑ، مجھے کالج کے لئے بھی تو نکلنا ہے ۔
ادارہ منہ بسورے سیڑھیوں سے نیچے اتر آئی ۔
“اپنا یہ منہ درست کرو، پہلے ہی گول مٹول ہو ایسے منہ پھلانے پر پوری تربوز لگتی ہو” اور یہ کہہ کر احمد نے ایک زور دار قہقہہ لگایا ۔
موسم خوشگوار تھا۔ درخت لہلہارہے تھے خوشگوار اور ٹھنڈی ہوائیں چل رہی تھی۔ ایسا محسوس ہوتا تھا مانو جیسے سارے جہاں کا سکون اسی زمین پر اتر آیا ہو۔
احمد ادارہ کو اپنی سائیکل کی بیک سیٹ پر بٹھائے اس سے گپ شپ کرتے ہوئے آگے بڑھ رہا تھا۔ ادارہ سرخ و سفید یونیفارم میں باغ کی خوبصورت تر و تازہ کلی لگ رہی تھی جو کِھل کر چمن کو اپنی خوشبو سے معطّر کرنے کیلئے بے چین تھی۔
اچانک سے ادارہ نے احمد کے پیٹ پر چیمٹی کانٹی۔
احمد نے پھرتی سے بریک لگایا سائیکل کو اور چڑھتے ہوۓ ادارہ کی طرف اپنا سر گھمایا۔
کیا ہے ادارہ؟
“تمہاری اس حرکت کی وجہہ سے ابھی ہم دونوں منہ کے بل زمین پر گر پڑتے”
پھر تم منہ بناۓ گھر جاکر کہتی، میں نے تمہیں گرا دیا ہے کیونکہ میرے پیر جو نہیں پہنچتے، تمہارے حساب سے۔
ایک طرف احمد کو شدید غصہ چڑھ رہا تھا لیکن دوسری طرف، ادارہ اس کے غصے اور ڈانٹ ڈپٹ سے بے نیاز ہوکر سائیکل سے اتر چکی تھی اور اب زمین پر کچھ دیکھنے میں مصروف تھی۔
جب احمد نے نوٹس کیا کے وہ اس کی باتیں نہیں سن رہی ہے، بلکہ کسی اور ہی دنیا میں مگن ہے تو وہ اس کے قریب جا کر دوزانوں ہوکر بیٹھ گیا ۔
کیا دیکھ رہی ہو؟
اخی دیکھیں! کتنے سارے جگنو مرے پڑے ہیں اور ادھر بھی کچھ ہیں۔ ہاتھ سے ایک طرف کو اشارہ کرتے ہوئے حیرت سے کہنے لگی۔
ہاں واقعی بہت سے ہیں احمد نے جواب دیا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا
ہر روز ہی گرے ہوتے ہیں ادارہ ۔ نئی بات تھوڑی ہے ہاں! البتہ تم نے پہلی دفعہ دیکھا ہے.
اب چلو اٹھو! تمہیں دیر ہو رہی ہے
اخی! اس نے پھر پکارا
اب کیا ہے؟ احمد نے بیزاری سے کہا ۔
“کیوں نا ہم ان کو دفنا دیں قبریں بنا کر” یہ کہتے ہوئے ادارہ کی آنکھیں خوشی سے چمک اٹھی ۔
اچھا تم انہیں دفنانا چاہتی ہو، تو ٹھیک لیکن ادارہ یہ بہت سارے ہیں اور ساتھ بہت چھوٹے بھی. ایک ایک کو دفن کرنے بیٹھے گے تو شام یہیں ہو جائے گی۔ پھر تو پہنچ گئے ہم اسکول!! کیوں نا ہم ایک بڑی قبر کھود کر ان سبکو ایک ساتھ ہی اس میں ڈال دیں ؟
ادارہ : ہیییں! ایسا کیا جاسکتا ہے؟ معصومیت بھرے لہجے میں سوال کیا
احمد : ہاں ادارہ! وقت نہیں ہے نا ہمارے پاس اور دیکھو یہ بہت زیادہ جگنو ہے نا تو کر سکتے ہیں۔
چلو اب جلدی کرو، میں ایک بڑی قبر بناتا ہوں۔ تب تک تم سارے جگنوؤں کو اکٹھا کرو
ادارہ : اوکے اخی ۔سر ہلاتے ہوئے کہا۔
احمد نے ایک بڑی قبر بنائی اور ادارہ نے سارے جگنوؤں کو ایک قطار میں رکھ کر انکو الوداع کہتے ہوئے مٹی سے ڈھک دیا اور ایک Cross کا نشان بنا دیا تاکہ دوبارہ بآسانی ڈھونڈا جا سکے ۔
اَدارہ نے اپنا آنسوؤں میں بھیگا ہوا چہرہ اوپر اٹھایا اور پوچھا
“اخی جگنوے اتنے جلدی کیوں مر جاتے ہیں؟”
“کیونکہ وہ بہت معصوم ہوتے ہیں ہمشیرہ اور یہ دنیا ان کیلئے بڑی سخت” اس لئے
ٹھنڈی سانس خارج کرتے ہوئے احمد نے جواب دیا ۔
اب چلو! کافی دیر ہو چکی ہے ہمیں ۔
جی اخی! یہ کہہ کر وہ اپنا یونیفارم جھاڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی
احمد کی بات سمجھنے کیلئے ادارہ کی عقل ابھی بہت چھوٹی تھی ۔
احمد اَدارہ کو اسکول چھوڑ اپنے کالج چلا گیا۔
عروہ اور فریبہ رات کے کھانے کی تیاریوں میں مصروف تھیں اور احمد اپنی پڑھائی میں، حسان آج پھر گھر نہیں آنے والا تھا۔
ادارہ آج پھر کوئی سنے یا نا سنے ہر روز کی طرح اپنی دن بھر کی روداد سناۓ جا رہی تھی اور منہ چلنے کے ساتھ ساتھ اس کا پن بھی چل رہا تھا ، مگر کاپی کے بجائے اپنے ہاتھ پر، جہاں وہ لال اور پیلے رنگ کے جگنو بنا رہی تھی
اخی! آہستہ سے سرگوشی کی
کیا ہے ادارہ؟ احمد نے شفقت سے کہا
اپنا ہاتھ اسکی اور بڑھا کر ہنسنے لگی
ارے واہ! یہ تو بہت پیارے ہیں بالکل تمہاری طرح اور معصوم بھی! یہ کہہ کر احمد نے ننھے ہاتھوں کو اپنی آنکھوں سے لگا لیا ۔
ایک گھنٹہ قبل، رات 8 بج کر 30 منٹ
کھانے کی ٹیبل لگ چکی تھی چاروں اپنی اپنی کرسیوں پر بیٹھے کھانا کھانے میں مصروف تھے اور ساتھ ہی کل دن بھر میں کۓ جانے والے کاموں کو ڈسکس کر رہے تھے ۔ کل عروہ کی سگائی ہونی تھی اور بہت سے کام باقی رہ گئے تھے۔
عروہ 207 ویں دفع فریبہ سے پوچھ رہی تھی کہ “امی میں جو جوڑا لے کر آئی ہوں کل پہننے کیلئے، وہ مجھ پر اچھا تو لگے گا نا؟”
فریبہ نے پھر ایک بار ڈانٹتے ہوۓ کہا “آخر تم کتنی دفعہ یہ سوال پوچھو گی! صبح سے سر درد کررکھا ہے ایک ہی سوال بار بار پوچھ کر،
نا بھی اچھا لگے تو پہن لو مگر اب چپ ہو جاؤ”
ادارہ اور احمد یہ جواب سن کر اپنا منہ ڈائیننگ ٹیبل کے نیچے چھپاۓ ہنس رہے تھے۔ کیونکہ گھر میں سب سے کم ڈانٹ کھانے والی عروہ ہی تھی ۔
تب ہی اچانک دھماکے کی آواز آئی
چاروں ہی ٹیبل سے اٹھ کر کھڑکی کی اور دوڑے
پتا چلا کہ ساتھ والی کالونی میں Air Strike ہوئی ہے اور یہ اسی کی آواز ہے
عروہ اور فریبہ بیک وقت پکار اٹھیں
خدارا!!! پھر سے نہیں
ادارہ مارے خوف کے جھٹ سے عروہ کے گود میں چڑھ گئی
آپی؟
کہو، یہی ہوں بچے، ڈرو نہیں، کچھ نہیں ہوگا، اور اپنے آپ سے چمٹا لیا۔
اللہ سبحان وتعالیٰ ہے نا ہمارے محافظ ۔
احمد جلدی جلدی سیڑھیاں اترتے کہنے لگا
“امی! میں دیکھ آؤں ذرا، زخمیوں کو ہماری ضرورت ہوگی” یہ کہہ کر وہ گھر سے باہر نکل گیا
احمد گھر سے چند کوس دور چل کر ساتھ والی دوسرے گلی میں مڑ ہی رہا تھا کہ
ایک اور دھماکے کی آواز سنائی دی
وہ رکا اور اس کی ساری کائنات رک گئی، اپنی گردن گھمائی
اور دیکھا
وہ خوفناک منظر جو پیچھے اس کا منتظر کھڑا تھا
اس کے مکان سمیت ساتھ والے تین اور گھر زمین پر ڈھیر ہو چکے تھے ۔
چیخ و پکار، رونے کی آوازیں، اللّٰهُ اکبر کی صدائیں، زخمیوں کو لے کر اِدھر سے اُدھر دوڑتے لوگ
تیز قدموں اور پھلی ہوئی سانسوں کے ساتھ احمد اپنے گھر کی اور دوڑا اور اپنے گھروالوں کو آوازیں دیتے ہوئے تلاش کرنے لگا۔
بہت کم وقت میں ہی احمد کو فریبہ اور عروہ کی حجاب میں لپٹی، خون سے رنگی لاشیں ایک دوسرے سے قریب ہی پڑی ملی، یہ سب کچھ اتنی جلدی ہوا کہ احمد کیلئے یقین کر پانا بے حد مشکل تھا ۔
صرف چند منٹوں نے جتیے جاتے، ہنستے مسکراتے، کل کے منصوبے بناتے انسانوں کو بے جان، خون سے اٹی لاشوں میں تبدیل کر دیا تھا ۔
اچانک ادارہ کا خیال آنے پر احمد جھٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور اسکو چیخ چیخ کر آوازیں دینے لگا، تیز تیز پھولتی سانسوں سے دیوانہ وار ملبا ہٹاتے جاتا اور کہتا جاتا
“خدارا! وہ زندہ ہو، میری ادارہ کی زندہ ہو”
اسی کوشش میں اس کے دونوں ہاتھ زخمی ہو چکے تھے
اچانک اسکے ہاتھ کوئی نرم سی چیز لگی، جب اس نے پھرتی سے پھتر ہٹاۓ تو چاند کی سفید روشنی میں دھندلے سے چھوٹے چھوٹے لال پیلے جگنو نظر آئے،احمد نے احتیاط سے ہاتھ باہر نکالا لیکن
وہ صرف نرم و نازک ہاتھ ہی تھا جو جسم سے پوری طرح الگ ہو چکا تھا تھوڑا اور ڈھونڈنے پر معصوم سی، مرحوم ادارہ بھی مل گئی جس کے چہرے پر ہمیشہ کی طرح معصوم سی مسکراہٹ کھیل رہی تھی ۔
احمد اسے اپنے آپ سے چمٹاۓ، سسکیاں لیتے لیتے دیوانوں کی طرح بلند آواز سے رونے لگا۔۔

17 اکتوبر کی صبح
حسان کو معلوم ہو چکا تھا کہ اس کی فیملی میں احمد اور اس کے علاوہ سب شہید ہو چکے ہیں
فریبہ اور عروہ کو دفنایا جا چکا تھا
٥٠ زائد بچے جو کل رات کے ہونے والے دھماکے میں شہید ہو چکے تھے، ان سب کو ایک ہی بڑی قبر بنا کر دفن کر دیا گیا
احمد کے دونوں ہاتھوں پر پٹیاں بندھی تھی ان ہی ہاتھوں سے اس نے اَدارہ سمت باقی بچوں کی قبر پر مٹی ڈال دی مٹی گرنے کے ساتھ ہی اس کی آنکھوں میں جمع ہورہے آنسو چھلک پڑے ۔۔۔
اور کئی کہانیاں، کئی باتیں، کئی وعدے، کئی منصوبے، کئی خوشیاں ہمیشہ کیلئے ادھوری ہی رہ گئی ۔۔۔
They tried to Bury US, they didn’t know
WE were seeds

Comments From Facebook

4 Comments

  1. SS

    Masha allahhhhh ????????????????????…..
    The story is extremely beautiful ????????

    Reply
  2. اریشہ تقدیس

    پڑھتے پڑھتے آنکھوں میں کب پانی اتر آیا احساس نہیں ہوا۔
    تحریر ، انداز، اور ادرہ تین چیزیں بہت خوبصورت لگی۔
    اللہ فلسطينيوں کی مدد فرماۓ۔آمین

    Reply
  3. Name *

    Subhana’allah may Allah (swt) increase your imaan….

    Reply
  4. عظیم الدین فلاحی

    بہت عمدہ تحریر۔۔۔۔۔۔
    غزہ کے گھر گھر کی کہانی ۔۔۔۔۔۔
    اللہ راقمہ کے قلم میں خوب برکت دے۔

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے