حجاب کپڑا نہیں طرز زندگی ہے ، نمرہ احمد کے ناول جنت کے پتے پر تبصرہ

باوا آدم کو اپنا تن ڈھانپنے کے لئے جنت میں جو چیز میسر تھی وہ ‘جنت کے پتے’
ہی تھے – انسانی حیا کا بہترین مظہر –
نمرہ احمد کی حساس ناول ‘جنت کے پتے’ کا موضوع بھی ‘حیا’ ہے-

یہ ناول ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کے لیے لکھی گئی ہے جو تکلیف سہنے کے بعد بھی اللہ کے احکامات پر ڈٹے رہتے ہیں اور مشکلیں سہتے رہتے ہیں۔
نمرہ احمد کا تعلق پاکستان کی سرزمین سے ہے -انہوں نے 2007 میں ناول نگاری کا آغاز ”میرے خواب میرے جگنو“ نامی ناول سے کیا اور دس سال کے قلیل عرصے میں 17 سے زائد ناولز لکھےٗ-
نمرہ احمد کے تمام ناولز نے عوام میں بے مثال شہرت پائی ۔ قارئین کہتے ہیں کہ نمرہ کے الفاظ میں جادو ہے اور ان کے الفاظ دل کو چھو کر گزرتے ہیں۔ ان کے ناول ‘جنت کے پتے’ کو لوگوں نے نہ صرف پسند کیا بلکہ ان میں دئے گئے درس پر عمل بھی کیا-
وہ اپنی تحریروں کے ذریعے معاشرے کی اصلاح میں ایک مثالی کردار کی حیثیت سے کام کر رہی ہے۔ان کی تحریریں ادب میں انمول اثاثے کی حیثیت رکھتی ہے جو قابلِ مطالعہ اور قابلِ غور ہے۔
نمرہ کی کہانیوں کا پلاٹ اور موضوع قرآن اور حدیث کے اردگرد گھومتا ہے۔ وہ انتہائی حکیمانہ انداز میں قاری کو قرآن و حدیث کے قریب کرتی ہیں –
ناول “جنت کے پتے” کی کہانی ترکی اور پاکستان کے پس منظر میں لکھی گئی حیا سلیمان نامی ایک لڑکی کی کہانی ہے – پوری کہانی اسی مرکزی کردار کے گرد گھومتی ہے – یہ کردار ہمیں اپنے گھروں میں موجود نوجوان لڑکیوں میں بستا دکھائی دیتا ہے –
حیا اسلامک یونیورسٹی سے ایل ایل بی آنرز کر رہی ہے – اس کا یونیورسٹی میں ساتواں سمسٹر تھا – یوروپی یونین کے ذریعہ سبانجی یونیورسٹی ترکی میں اس کا تبادلہ ہوتا ہے – اس یونیورسٹی میں حیا کو پانچ ماہ کے ایک سمسٹر کے لئے پڑھنے جانا ہوتا ہے – حیا کا پاکستان سے ترکی کا سفر بہت دلچسپ اور یاد گار ہے –
اس ناول کے ذریعے نمرہ نے گھر بیٹھے اپنے قارئین کو ترکی کی سیر کروائی ہے۔ ترکی کی ثقافت، رہن سہن اوروہاں کے پکوانوں کے بارے میں کافی جانکاری فراہم کی ہے –
ناول میں ایسے کئی اقتباسات ہیں جو قاری کو غور و فکر کی وادیوں میں لے جاتے ہیں۔ ناول کے ایک ایک لفظ سے دانائی اور حکمت جھلکتی ہے۔ مادی اشیاء کی بے ثباتی کو وہ بڑے دلچسپ پیرائے میں پیش کرتی ہے۔ لکھتی ہیں:
”چیزیں وقتی ہوتی ہیں، ٹوٹ جاتی ہیں، بکھر جاتی ہیں، روئیے دائمی ہوتے ہیں، سالوں تک اپنا اثر چھوڑتے ہیں۔“ (جنت
کے پتے،صفحہ نمبر۷۳۱)
جہان سکندر اس کہانی کا دوسرا مرکزی کردار ہے – جو پردیس میں رہنے والا حیا کا شریک حیات ہے – جس سے اس کا نکاح بچپن میں ہی ہو گیا تھا –
اس کے علاوہ عائشے گل، اور اس کی چھوٹی بہن بہار ے گل دو لڑکیاں ہیں – جو ہمیں بتاتی ہیں کہ اچھی لڑکیاں کیسی ہوتی ہیں ؟ قاری ان کے کردار سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا – بلکہ ناول کے اختتام تک پہنچتے پہنچتے وہ ان کے مکالمے بھی دہرانے لگتا ہے –
عائشے گل کی ایک عادت بہت پیاری ہے کہ وہ کبھی جھوٹ نہیں بولتی اس لئے اس کے ہر سیپ میں سے موتی نکلتا ہے – اور وہ اللہ پر توکل رکھتی ہے – اور آہستہ آہستہ حیا کی زندگی کو بدلنے لگتی ہے – جس کی وجہ سے حیا میں بھی کافی تبدیلی آنا شروع ہو جاتی ہے – اور حیا جو ناول کے آغاز میں کھلے بال، بغیر آستین والے کپڑے اور بغیر اسکارف کے گھوما کرتی تھی – عائشے گل کی وجہ سے پردے کی طرف مائل ہونے لگتی ہے – اور باقاعدہ طور پر حجاب لینا اور نقاب پہننا شروع کر دیتی ہے – جس کی وجہ سے اسے کافی مسائل کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے – جب بھی وہ میٹنگز میں جاتی ہے تو کوئی اس کی عزت نہیں کرتا- وجہ ایک تو اس کا لڑکی ہونا دوسرا برقع پہننا – مگر حیا نے ان سارے مسائل کو بہت اچھے سے ہینڈل کیا اور اپنے موقوف پر ڈٹی رہی –
بہر کیف ناول کے تمام کرداروں کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ جو ہمیں ہمت، صبراور جدو جہد کا درس دیتے ہوئے
ہمارے ذہن پر گہرا اثر چھوڑتے ہیں ۔
نمرہ کے اس ناول میں ایک اور چیز دیکھنے کو ملتی ہے، وہ ہیں پہیلیاں۔ نمرہ قرآن کی آیات کو پہیلیاں بنا کر پیش کرتی ہے، ساتھ میں اس کی وضاحت اور تشریح بھی کرتی ہے۔ اس سے قاری مطالعہ کے وقت ذہنی آزمائش سے بھی دوچار ہوتا ہے۔
یوں تو یہ ناول سب کے لیے ہے- لیکن یہ لڑکیوں کے لئے بطور خاص ایک بہترین تحفہ ہے – کیونکہ یہ ناول لڑکیوں کو حیا سلیمان کی طرح دین کی طرف راغب کرکے انہیں دین دار اور بہادر بناتا ہے کسی کی زور زبردستی کے بجائے خود سے اور اللہ کی رضا کے لیے حجاب لینا سکھاتا ہے – عائشہ گل کی طرح باحیا ، باپردہ اور باوقار سچ بولنے والی لڑکی بناتا ہے!
خدیجہ کی طرح زندگی کو جینا سکھاتا ہے- عورت کو ہمیشہ مضبوط دکھاتا ہے – روتی بسورتی یا بیچاری نہیں دکھاتا –
ناول کے اختتام پر ہر ایک قاری یہ سمجھ جاتا ہے کہ ”حجاب محض ایک کپڑا نہیں بلکہ ایک طرزِ زندگی ہے۔حجاب کو کانفڈنس سے پہننے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ کوئی معیوب چیز نہیں کہ اِس سے اعراض کیا جائے، بلکہ حجاب کو اختیار کرنے کا عمل اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایک محبوب عمل ہے۔“

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے