ریحانہ رانا کی کتاب “مکافاتِ عمل ” پر تبصرہ

ریحانہ رانا کی کتاب “مکافاتِ عمل ” پر تبصرہ
عبدالحفیظ شاہد۔ واہ کینٹ
کل الفاظ 1185
تعارف مصنفہ
محترمہ ریحانہ رانا صاحبہ کی تین کتابیں اب تک شائع ہو چکی ہیں ، ان کتابوں میں مکافات عمل ، میرے چارہ گر کو خبر کرو اور بہتان شامل ہیں” انکی تین کتابیں ابھی زیر قلم ہیں ،حال ہی میں ان کی ناول نگاری پر لیہ یونیورسٹی میں تھیسز بھی لکھا جا چکا ہے۔ سادہ الفاظ، جامع مشاہدات اور تخلیقی اظہار خیال کا ہمیشہ سے خاصا رہا ہے۔ محترمہ ریحانہ رانا صاحبہ نے زندگی کے ان پہلووں کو اپنا موضوع سخن بنایا جنہیں یہ خود بہت قریب سے محسوس کرچکی ہیں اور انکا ناول ‘مکافات عمل’ اسی حوالے سے انکا ایک معتبر حوالہ ہے۔
“میرے چارہ گر کو خبر کرو” محترمہ ریحانہ رانا صاحبہ شعری مجموعہ اہل ذوق کے لیے کتاب گھروں کی زینت ہے۔ریحانہ رانا صاحبہ ہمہ جہت خصوسیات کی حامل ہیں۔ آپ ڈریس ڈیزائنر ، شاعرہ ،ناول نگار، کالم نگار اور افسانہ نگار ہیں ۔

دورِحاضرنفع سوچنےاور نفع کمانے کا دور ہے۔ ایک سے سواور سو سے کئی سو اور پھرلاکھوں اورکروڑوں کا یہ کھیل کبھی ختم نہیں ہوتا۔لوگوں کی زندگیاں اس بے مقصد کھیل میں گزر جاتی ہیں۔ پتا اس وقت چلتا ہے جب انسان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا اور وہ تہی دامن رہ جاتا ہے۔لیکن اس دنیا میں سب لوگ ایک جیسے بھی نہیں ہوتے ۔سب لوگ لالچ کی ڈور سے بندھے نہیں ہوتے کیونکہ کچھ لوگوں نے مشکلات کے باوجود اپنی زندگی پھولوں کی طرح گزاری ہوتی ہے۔جن کی زندگی کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے ، اپنے کردار ،افعال اور خوبصورت لفظوں سے اس دنیا کے لوگوں کو نفع نقصان کا شعور دینا۔اور یہ مقصد اس ناول کو لکھ کر ریحانہ صاحبہ نے بہترین انداز میں نبھایا ہے۔

دنیا میں کیے جانے والے ہر عمل کا بدلہ ضرور ملتا ہے، اس کو ہم مکافات عمل کہتے ہیں۔ آپ نیکی اور اچھائی کریں گے تو بدلے میں اللہ کی طرف سے بھلائی یا اجر پا لیں گے، کسی کے ساتھ ظلم یا زیادتی کریں گے تو سزا بھی یقینی ہے۔ گناہ کی سزا اور نیکی کا بدلہ اس دنیا میں تو ملتے ہی ہیں، آخرت کے لئے بھی محفوظ رہتے ہیں۔

ریحانہ رانا کو آج کون نہیں جانتا۔ان کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہے جنہوں نے ہمیشہ اپنی تحریروں کو ذریعے معاشرے کو اچھائی اور برائی کا فرق سمجھایا۔ سوشل میڈیا پر ان کو ایک باہمت اور باشعور خاتون کے طور پر جانا جاتا ہے۔اور یہی شعور ی سچ ان کی تحریروں میں بھی جا بجا نظر آتا ہے۔ ریحانہ رانا صاحبہ نے شائد زندگی کو بہت قریب سے دیکھا ہے ۔ اسی لیے ان کی تحریروں میں تلخی بھی محسوس ہوتی ہیں۔ لیکن ان کی تلخ باتیں بھی بلاشبہ حقیقت کے قریب ترین ہوتی ہیں۔مکافات عمل ایک مکمل ناول ہے۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہو رہا ہے برے اعمال کے سزا کی داستان ہے، مصنفہ نے فیس بک پر پروان چڑھتی دوستی کو موضوع بنایا ہے۔ کہانی بہت سادہ اسلوب میں لکھی گئی ہے۔اس قسم کے بے شمار واقعات ہمارے معاشرے میں تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ ناول میں سبق دیا گیا ہے کہ والدین کو اپنی اولاد سے باخبر رہنا چاہیے تاکہ والدین کے کیے گئے بھروسے کا غلط فائدہ اٹھا کر نوجوانوں کی زندگیاں تباہی اور بربادی کا شکار نہ ہوں۔ فیس بک اور انٹرنیٹ کے غلط استعمال سے ہمارے جوانوں کی اخلاقی قدروں کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی صلاحیتوں پر کاری ضرب لگتی ہے۔ چنانچہ اس سلسلے میں والدین کو ہمیشہ بیدار رہنا چاہیے کہ ان کے بیٹے یا بیٹیاں انٹرنیٹ پر کیاکیا دیکھ رہے ہیں ۔ایک عجیب بات ہے کہ کمپیوٹر گھروں میں عموما ایک کونے اور آڑ میں رکھا ہوتا ہے ۔رات رات بھر کمپیوٹرچلتا رہتا ہے اور والدین سمجھتے ہیں کہ پڑھائی ہو رہی ہے جب کہ عموما پڑھائی کے علاوہ سب کچھ ہوتا رہتا ہے ۔اس ناول میں مکافاتِ عمل کا سبق دیا گیا ہے ۔

“مکافاتِ عمل ” اردو سخن ، چوک اعظم لیہ ” نے چھاپا ہے۔کتاب انتہائی نفیس کاغذ ، عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ ، خوبصورت ٹائیٹل اور 180 صفحات پر مشتمل ہے۔ بہترین اور عمدہ و دیدہ زیب پرنٹنگ کے باوجود اتنی شاندار کتاب کی قیمت مہنگائی کے اس پر فتن دور میں بھی صرف سات سو روپے رکھی گئی ہے۔مکافاتِ عمل کی شکل میں ایک بہترین ناول پڑھنے کو ملا۔گو منظر نگاری کی کمی محسوس ہوئی لیکن ناول کی کہانی میں کہیں بھی تشنگی محسوس نہیں ہوئی۔
یہ کہانی ہے سعدیہ اور سیف کی، دونوں بہن بھائی فیس بک پر اپنے لئے بہترین امیر کبیر رشتہ تلاش کرتے پھر رہے ہیں۔ ان کی ماں ان کا ساتھ دیتی دکھائی ہے ۔ سعدیہ چارلس کے ساتھ سیٹ ہو گئی اور سیف کو سائرہ مل گئی ۔ جھوٹ کے پلندے باندھے گئے ایک دوسرے کو جھوٹ خواب دکھائے گئے۔ یہ ناول نوجوان لڑکے لڑکیوں خصوصاً لڑکیوں کو ضرور پڑھنا چاہیے۔ اولاد کو شہہ دینے والی ماؤں کے لئے اس میں بہت بڑا سبق ہے ۔

ناول آغاز سے ہی بہت زبردست انداز میں لکھا گیا ہے ۔زندگی کے تلخ حقائق ،فظرت کی نگہبانی،اصل سے جڑے رہنے کی تلقین، خوبصورت جملے،جمالیاتی خوبصورتی کی عکاسی، حقیقت سے قریب ترین سچائیوں کا شاندار اظہار مصنفہ کے مشاہدات کی وسعت کو بیان کرنے کے لیے کافی ہیں۔اس کتاب کا مقصد جہان تک میں سمجھ پایا ہوں ہوں وہ یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان جیسا بیج بوئے گا ویسا ہی پھل پائے گا.مکافات عمل میں ایسا ہوتا ہے کہ جو شخص جیسا کرتا ہے ویسا ہی لوٹ کر اس کی طرف ضرور آتا ہے.اس ناول کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ اس ناول میں زندگی کے مسائل کو صرف بیان نہیں کیا گیا بلکہ ان سب کا حل بھی پیش کیا گیا ہے۔درست سمت میں گامزن کرنے کے لیے معاشرے میں ایسی کہانیوں کی تشہیر ضروری ہے۔
مکافات عمل عملی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بحث کرتا ہے ۔اولاد کی اچھی تربیت والدین کی زمہ داری ہے اس میں لاپرواہی خود اپنے آپ کو تباہ کر لینے کے مترادف ہے ۔سوشل میڈیا آج کی ضرورت ہے لیکن اس کا صحیح اور غلط استعمال صارف کے اپنے ہاتھ میں ہے۔ سعدیہ ایک نوجوان لڑکی ماں باپ کی دی گئی بے جا آزادی اور سوشل میڈیا دونوں کا ہی غلط استعمال کر بیٹھی اور نتیجہ نکلا چارلس کی محبت میں گرفتار ی۔ اس ناول میں عام سی زندگی کے عام مسائل کو بیان کیاگیا ہے اور ان کا حل بہت خوب صورتی کے ساتھ پیش کیاگیا ہے ۔

ناول میں مشکل الفاظ کے بجائے روزمرہ بولی جانے والی سادہ اور آسان زبان استعمال کی گئی ہے ۔ جس سے ناول کو پڑھنا آسان اوع عام فہم ہے جو اس ناول کی روانی اور خوبصورت اندازِ تحریر کی عکاسی ہے۔اس ناول میں واقعات کو بہت عمدگی سے بیان کیا گیا ہے ۔ انداز تحریر اس قدر دل چسپ ہے کہ ایک ہی نشست میں ختم ہو جائے اور وقت گزرنے کا پتہ بھی نہ چلے۔

بلاشبہ ایسی کتب معاشرے میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ بن کر اس معاشرے کے سدھارنے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ خوبصورت ناول مکافاتِ عمل لکھنے پر محترمہ ریحانہ رانا صاحبہ بے شمار داد کی مستحق ہیں۔ سلامت رہیں۔ اللہ آپ کی زندگی میں آسانیاں عطاء فرمائے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے