شہر ذات ناول از عمیرہ احمد

شہر ذات
سب کہتے تھے ناول وقت کا ضیاع ہے اور بالخصوص کم عمر لڑکیوں کے لیے تو بالکل صحیح نہیں۔ابتدا میں چند ناولیں پڑھی تو اس بات پر یقین بھی آگیا پھر میرے مطالعے میں ایک ایسی ناول آئی جس نے اس سوچ کو یکسر بدل دیا وہ بہترین ناول ” شہر ذات ” تھی جس کے مطالعے سے علم ہوا سب ناولیں وقت ضائع نہیں کرتی بلکہ ہدایت کا ذریعہ بن جاتی ہے۔ بندے کو اپنے رب سے جوڑنے والی اس شاہکار ناول “شہر ذات ” کو دور حاضر کی مقبول ترین ناول و ڈرامہ نگار عمیرہ احمد نے تصنیف کیا ہے۔عمیرہ احمد 10 دسمبر1976 کو صوبہ پنجاب پاکستان کے مشہور شہر سیالکوٹ میں پیدا ہوئیں اور مرے کالج سیالکوٹ سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا۔ انہوں نے بطور مصنفہ اپنے کیریئر کا آغاز 1998 میں کیا۔ ان کی ابتدائی کہانیاں اردو ڈائجسٹوں کی زینت بنیں اور پھر کتابی صورت میں بھی شائع ہوئیں۔ابتدا میں وہ درس و تدریس کرتی رہی بعد میں تحریری کاموں پر پوری توجہ دینے کے لئے انہوں نے ملازمت چھوڑ دی۔
عمیرہ احمد تقریباً ۲۰ کتابوں کی مصنفہ ہیں ۔اُن کی لکھی کئی ناولوں کوڈرامے کی صورت میں مختلف ٹیلے وژن چینلوں پر پیش کیا گیاہےجنہیں ناظرین کی جانب سے بے حد سراہا گیا۔شہر ذات ناول پر ۲۰۱۲ میں ہم ٹی وی پرڈرامہ نشر کیا گیا جس نے لوگوں کے دل و دماغ پر ایک خاص اثر کیا۔زیر تبصرہ ناول ” شہر ذات ” خواتین ڈائجسٹ میں شائع ہوئی بعد میں کتاب کی شکل میں “میں نے خوابوں کا شجر دیکھا ہے” کے عنوان سے مجموعہ میں شائع ہوئی ۔
شہر ذات ناول کی مرکزی کردار فلک نامی ایک امیر و کبیر لڑکی ہے جو بے تحاشہ حسین ہے جس کو اس کے والدین نے انتہائی ناز و نعم سے پالا اور دنیا کی ہر آسائش فراہم کی مگر دین کے حوالے سے اس کی تربیت کا اہتمام نہیں کیا گیا ۔خوبصورتی اور دولت فلک کو غرور میں مبتلا کردیتی ہے ۔فلک کی ملاقات سلمان انصر سے ہوتی ہے۔مردانہ وجاہت کا شاہکار سلمان انصر فلک کے حسن و دولت سے متاثر نہیں ہوتا اور سلمان کی یہی بے نیازی فلک کو اس کی جانب متوجہ کرتی ہے اور وہ سلمان کو ٹوٹ کر چاہنے لگتی ہے اور سلمان کی محبت میں خود کو سرتاپا بدل دیتی ہے ۔والدین کی مخالفت کے باوجود دونوں کی شادی ہوجاتی ہے ڈھائی سال دونوں ہنسی خوشی زندگی گزارتے ہیں پر یکایک سلمان کا رویہ فلک کے ساتھ تبدیل ہوجاتا ہے ۔سلمان کی زندگی میں تابندہ نامی عورت شامل ہوتی ہے جو کافی بدصورت ہے لیکن سلمان اس کی محبت میں پور پور ڈوب جاتا ہے فلک شدید غصہ کے عالم میں تابندہ کو نقصان پہچانے کی نیت سے جاتی ہے پر تابندہ کو دیکھ کر حیران رہ جاتی ہے۔تابندہ کی بدصورتی اور سلمان کا اس کے لئے دیوانہ پن فلک کو آسمان سے زمین پر لا پٹختا ہے ۔
یہی سے ناول کا اہم موڑ شروع ہوتا ہے ۔اللہ سے دوری کا اسے شدت سے احساس ہوتا ہے ۔وہ رب سے رجوع کرتی ہے اور رب کی رضا کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتی ہے۔آخر میں سلمان انصر تابندہ کو طلاق دے کر فلک کے پاس لوٹ آتا ہے فلک بھی سلمان کو معاف کردیتی ہے لیکن اب اس کی زندگی میں اللہ ہی سب کچھ ہوتا ہے۔
” شہر ذات “بنیادی طور پہ اللہ اور بندے کے درمیان تعلق پہ لکھا گیا ناول ہے۔بقول شخصے
“انسان کبھی دنیاوی زندگی کی چکا چوند میں کچھ اس طرح کھو جاتا ہے کے دنیا میں اسکی آمد کا حقیقی مقصد اسکے ذہن سے محو ہو جاتا ہے – اسکے نزدیک پہلی ترجیح اپنی اور خود سے وابستہ لوگوں کی خوشی ہوتی ہے – الله بندے سے کس بات کا تقاضا کرتا ہے اسے یاد نہیں رہتا, یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب الله اپنے طریقے سے بھٹکے ہوے انسانوں کو راہ ہدایت پر لے آتا ہے- شہر ذات کی کہانی ایسے ہی ایک انسان کے گرد گھومتی ہے”
فلک جس کے لئے رب کی رضا سے بڑھ کر سلمان انصر کی رضا تھی۔وہ سرتاپا تک خود کو سلمان انصر کی پسند میں ڈھال دیتی ہے پرفلک کی آنکھیں تب کھلتی ہے جب سلمان معمولی سی شکل و صورت والی تابندہ کو فلک پر ترجیح دیتا ہے۔اس کا سارا غرور خاک میں مل جاتا ہے ۔
اور دل میں ندامت پیدا ہوتی ہے اور اللہ کی محبت کا شدت سے احساس ہوتا ہے ۔عمیرہ احمد نے فلک کی کیفیات کو کیا خوب بیان کیا ہے ملاحظہ فرمائے
“ممی! میں نے اس سے کہا میں بھی تم سے محبت کرتی ہوں۔ ہر چیز سے زیادہ محبت ۔ اس نے کہا مجھے اس کی پرواہ نہیں۔ اگر میں اللہ سے یہ کہتی تو کیا وہ بھی یہی جواب دیتا۔ میں نے اس سے کہا میں نے کون سی غلطی کی ہے؟“ اس نے کہا میں نہیں جانتا۔ میں اللہ سے یہ پوچھتی تو کیا وہ میرے سوال کا جواب نہ دیتا؟ میں نے اس سے کہا میں نے تمہارے لیے پچھلے تین سال میں کیا نہیں کیا اس نے کہا۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں، اگر میں اللہ کے لیے کچھ کرتی تو کیا اللہ کو بھی پرواہ نہ ہوتی ؟ میں نے اس سے کہا۔ میں نے پچھلے تین سال ویسے زندگی گزاری ہے جیسی تم چاہتے تھے۔ اس نے کہا میں کیا کروں۔ میں تین سال اللہ کی مرضی کے مطابق زندگی گزارتی تو کیا اللہ یہ کہتا؟ میں نے اس سے کہا تم مجھے بتاؤ میں کیا کروں کہ تم خوش ہو جاؤ۔ مجھ سے محبت کرنے لگو۔ اس نے کہا مجھے تمہاری ضرورت ہی نہیں ہے۔ مجھے تمہاری کوئی بات کوئی چیز خوش نہیں کر سکتی۔ میں اللہ سے یہ کہتی تو کیا وہ بھی یہی کہتا ؟ ممی اللہ اور انسان میں یہی فرق ہے۔ اللہ ٹھو کر نہیں مارتا انسان بس ٹھو کر ہی مارتا ہے۔”
شہر ذات ابتدا میں رومانی نظر آتا ہے پرجیسے جیسے قاری آگے بڑھتا ہے خود کا احتساب کرنے پر مجبور ہوجاتا ہےکہی کسی دنیاوی محبت میں اللہ کی محبت کو فراموش تو نہیں کر بیٹھے۔
اللہ کی محبت کا ذکر وہ نہایت متاثر کن الفاظ میں کرتی ہے
” تجھے بنایا ہے اس نے تو کیا تجھے چھوڑ دے گا؟ کبھی ماں میلے میں بچے کی انگلی چھوڑتی ہے۔ اگر چھوٹ بھی جائے تو بچہ اتنا بے قرار نہیں ہوتا جتنی ماں ہوتی ہے۔ پھر اللہ انسان کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ تجھے کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ اس کی نظر میں جو ایک بار آ جاتا ہےہمیشہ رہتا ہے۔“
ساٹھ صفحات پر مشتمل اس ناول میں عمیرہ احمد نے انسان کے اپنے رب سے تعلق کو بڑی خوبی سے بیان کیا ہے۔ ناول کے مطالعے سے قاری بالخصوص نوجوان نسل سمجھ جاتا ہے کہ اللہ کی محبت کے سوا ہر محبت کو زوال ہے ۔اللہ کی محبت کے سوا کوئی محبت سچی نہیں۔
قصہ مختصر اس ناول میں عشق مجازی بھی ہے اور حقیقی بھی
ندامت بھی ہے اورنیک عمل کی ترغیب بھی ۔

Comments From Facebook

1 Comment

  1. Syed

    Bahut umdaa
    Is par Bana Drama Hum ne dekha hai

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے