فلسطین پر افسانہ تخلیق کریں

آج ان سب نے ارادہ کرا تھا کہ وہ جمعہ کی نماز مسجدِ اقصیٰ میں ادا کریں گے، اور پھر ارادہ عمل میں بدل گیا اور اب وہ سب نماز سے فارغ ہو کر مسجد الاقصیٰ کے اِرد گِرد چہل قدمی میں مصروف ہو گئے،
سرد ہوائیں اور مہکتے پھولوں کی خوشبو اِن کے وجود کو معطّر کر رہی تھی، چہکتی چڑیاں ذکر اللہ میں مصروف لگ رہی تھی، اور اللہ کے بندے عبادت میں،
یہ فلسطین تھا یہ فلسطین کی سرزمین تھی مقدّس اور پاک جہاں انبیاؤں نے قیام کیا، جس سرزمین پر مجاہد پیدا ہوتے رہے اور اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہے _
وہ دونوں اس بات پر بہت شکر گزار تھے اور اپنی مکمل آزادی کے لیے دعا گو بھی،
عائشہ خنساء اور عمّار کھیل رہے تھے بیچ بیچ میں سمیّہ اور حمزہ بھی ان کے کھیل میں شامل ہو جاتے اور پھر تھک کر بیٹھ جاتے، دور کھڑے سعد اور مائرہ یہ منظر بڑی دلچسپی سے دیکھ رہے تھے، یہ سعد اور مائرہ کے بچے تھے، ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک، ان کے دل کے ٹکڑے، اور ان کی جان _
حمزہ ان کا سب سے بڑا بیٹا تھا جو بہت ہی کم عمر میں جرنلزم کی فیلڈ میں بہت نمایاں کامیابی حاصل کر چکا تھا اور سمیّہ ان کی سب سے بڑی بیٹی تھی جو ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہی تھی۔
عمّار خنساء اور عائشہ ابھی کم عمر کے مرحلے میں تھے لیکن یہ تینوں اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ غیر معمولی صلاحیتوں کے مالک تھے اور ان کی سب سے چھوٹی بیٹی عائشہ بہت ہی کم عمر میں قرآن کی حافظہ بن چکی تھی، خنساء کو لوگ اس کی بہادری سے جانتے تھے، عمار کا بچپن سے خواب تھا کہ ایک دن وہ بہت بڑا خطاط بنے گا۔
یہ خوبصورت سی فیملی فلسطین کے شہر غذہ کے چھوٹے اور خوبصورت گھر میں رہتی تھی، لیکن اب ان کی زندگی بدل گئی تھی، ان کی آزمائش بڑھ گئی تھی، ٧ اکتوبر سے پہلے جیسی ان کی زندگی تھی، ویسی اب نہ رہی تھی، سب کچھ تباہ ہو رہا تھا، ان کے گھر، مسجدیں، کالجز، ہاسپٹلز سب کچھ لیکن پھر بھی ان کے دل مطمئن تھے وہ ثابت قدم تھے، اپنے سے کمزوروں کی مدد کر رہے تھے، وہ صرف اپنے لیے نہیں سوچتے تھے بلکہ اوروں کے لیے جیتے تھے، یہ غزہ تھا اور یہ غزہ کے لوگ تھے یہ ہر دور میں بہت خاص اور اجنبی رہے تھے، اور سلام ہو ان اجنبیوں پر ۔
سمیّہ آج الشِفاء ہاسپٹل میں اپنے زخمیوں کی خدمت میں مصروف تھی، سعد اور مائرہ ابھی تک جاگ رہے تھے، سعد اپنے تحریکی کاموں میں مصروف تھا اور تینوں چھوٹے بچے آج بڑی مشکل سے سو گئے تھے، اچانک سعد کا فون بجا اُدھر سے کہا گیا، آپ الشِفاء ہاسپٹل آ جائیں، آپ کی سمیّہ، کیا ہوا میری سمیّہ کو، اُدھر سے کال کٹ کر دی گئی، سعد اور مائرہ نے ہاسپٹل میں داخل ہوتے ہی اللہ سے دعا کی کہ ان کے دلوں کو مضبوط کر دے ان کو ثابت قدم رکھنا، وہ دونوں ہر طرف بس سمیّہ کو ڈھونڈ رہے تھے سمیّہ مل گئی تھی لیکن زندہ نہیں، مائرہ نے چیخ کر سمیّہ کو پکارا اور پھر خود خاموش ہو گئی کیونکہ وہ جانتی تھی اب سمیّہ کبھی نہیں بولے گی، سعد کے ہاتھوں میں ابھی تک سمیّہ کے ہاتھ تھے، مائرہ وہ سمیّہ تھی پہلوں میں پہل کرنے والی، اُس نے اپنے نام کا حق ادا کر دیا، ہم سب کو پیچھے چھوڑ دیا سب سے پہلے شہید ہو گئی، بے شک ہم اللہ کے ہیں اور ہمیں اُسی کی طرف لوٹنا ہے ___
عمّار تم کیا کر رہے ہو، ماں، بابا نے جو مجھے قلم لا کر دی تھی اس سے میں خطاطی کرنے کی کوشش کر رہا ہوں، میں الف بنا رہا ہوں جب مجھ سے الف لکھ جائے گا تو پھر میں اللہ لکھوں گا اور جب اللہ لکھ لوں گا تو پھر اللہ مجھ سے سب کچھ لکھوا دے گا، ہے نا‌ ؟ ہاں بیٹا انشاءاللہ، ماىٔرہ اس کے جذبے کو دیکھ کر بہت خوش ہوئی تھی،
عائشہ تم کیوں اداس بیٹھی ہو ماں مجھے ڈر لگتا ہے، رات میں نیند نہیں آتی، سب کچھ ختم ہو رہا ہے، بیٹا اللہ کے بندے ڈرتے نہیں ہیں ان کے پاس تو ایمان اور یقین کی قوت ہے جس قوت کے سامنے کوئی طاقت ٹھہر نہیں سکتی، اور تم تو بیٹا ایک حافظہ ہو تم مایوس ہو جاؤ گی تو کیسے کام چلے گا، اللہ تعالیٰ قرآن میں کہتا ہے،
وَ لَا تَہِنُوۡا وَ لَا تَحۡزَنُوۡا وَ اَنۡتُمُ الۡاَعۡلَوۡنَ اِنۡ کُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۳۹﴾
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو تم ہی غالب رہو گے اگر تم مومن ہو …
ماں میں نے الف بنا لیا اس کی خوشی ایسی تھی جیسے اس نے الف نہیں بلکہ آج اپنے قلم سے پورا قرآن لکھ لیا تھا، ایک دم اِن سب کو بہت تیز سی آواز سنائی دی، اور ہر طرف اندھیرا چھا گیا، اِن کا گھر ملبے کا ڈھیر ہو چکا تھا، سعد گھر نہیں تھا وہ عمّار اور عائشہ کے لیے بسکٹ کے پیکٹ لینے گیا تھا، اسے اندازہ نہ تھا یہ مسافر اتنی جلدی میں تھے کہ پیچھے سب کچھ ادھورا چھوڑ گئے، ماىٔرہ ملبے کے بیچ زخمی حالت میں بیٹھی اپنے دونوں شہید بچوں کو دیکھ رہی تھی، سعد ماىٔرہ کو سنبھالنے لگا اس کے آنسو پوچنے لگا اور بار بار اُس کو سورہ الضحیٰ کی آیت یاد دلاتا رہا،
وَ لَلۡاٰخِرَۃُ خَیۡرٌ لَّکَ مِنَ الۡاُوۡلٰی
اور یقینا تمہارے لیے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہے
ان دونوں کو صبر کرنا تھا اور انہوں نے کر لیا تھا، عمّار کے ہاتھ میں ابھی بھی قلم تھی وہ ادھورا خواب لے کر جا چکا تھا، لیکن اس خواب کی تکمیل اب دوسری دنیا میں ہونی تھی، سعد نے عائشہ اور عمّار کو وہ پیکٹ دے دیا اور روتے ہوئے کہا ان کو جنّت میں لے جانا، اور پھر سفید چادر سے اِن کو ڈھک دیا__
اِس بار حمزہ ان کے جنازے میں شامل ہو سکا تھا، اب وہ بالکل اکیلا اور تنہا رہ گیا تھا اس کے سارے بھائی بہن اللہ کی راہ میں شہید ہو چکے تھے وہ اپنے ماں اور بابا کا واحد سہارا بچا تھا،
سمیّہ کے انتقال کے ١٠ دن بعد ہی اسرائیل کے فوجیوں نے خنساء کو گولیوں سے شہید کر دیا تھا، وہ بہت بہادر تھی وہ پیچھے نہیں ہٹی تھی ان کے مقابل کھڑی رہی، وہ اپنی آخری سانس تک ان سے لڑتی رہی، تم ایک خنساء کو مار دو گے غزہ میں ہزاروں خنساء پیدا ہوتی رہیں گی، تم کتنی خنساء مارو گے، میں موت سے نہیں ڈرتی ہوں بلکہ موت کی خاطر زندہ ہوں، لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ ___
اب سعد اور مائرہ ایک ریفیوجی کیمپ میں رہ رہے تھے، حمزہ زیادہ تر باہر رہتا تھا وہ بیٹھ نہیں سکتا تھا اس کے پاس بہت بڑی ذمہ داری تھی سعد اور مائرہ اپنے بیٹے کو ہر دن ایسے رخصت کرتے کہ شاید جب وہ واپس لوٹے تو شہید ہو چکا ہو، بیٹا تم اگر شہید ہو گئے تو میں غم نہیں کروں گی، میں اللہ کا شکر ادا کروں گی کہ اس نے مجھے پانچ بچے دیے اور وہ سب تیری راہ میں شہید ہوئے اور میں صبر کروں گی جیسے حضرت خنساء اور حضرت اُمّ امّارہ نے اپنے بیٹوں کے شہید ہونے پر کیا تھا، وہ ان کا بیٹا حمزہ تھا بہادر اور شیر جیسا اس نے آخری لمحے تک اپنے قلم اپنے الفاظ اور اپنے کیمرے سے دنیا تک حق پہنچانے کی سعی کی، آج وہ گھر اکیلا نہیں لوٹا تھا بلکہ اس کے پیچھے ایک قافلہ تھا شاید وہ آج شہید ہو گیا تھا ہاں وہ شہید ہو گیا تھا، یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی گواہی اپنے گرم گرم لہو سے دی،
سعد کہ رہا تھا بے شک ہم صبر کریں گے جس طرح صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے بیٹے ابراہیم کی وفات پر کیا تھا__
سعد اور ماىٔرہ کے پاس اب کھونے کو کچھ نہیں بچا تھا وہ اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں قربان کر چکے تھے، اب وہ دونوں ایک دوسرے کا سہارا تھے وہ دونوں ہر روز اپنے شہید بچوں کو یاد کرتے اور ان کے دل خوشی سے بھر جاتے جب وہ سوچتے کہ انشاءاللہ ایک دن وہ اپنے شہید بچوں سے ابدی دنیا میں ضرور ملیں گے، مائرہ اکثر سعد سے کہتی کہ میں اللہ سے دعا کرتی ہوں کہ وہ ہم دونوں کو اس دنیا سے ایک ساتھ رخصت کرے شاید اب میں تمہاری جدائی کا غم نہ سہ سکوں تم مجھے اپنے ساتھ لے جانا مجھے اس دنیا میں تنہا نہ چھوڑنا،
ماىٔرہ کی دعا قبول ہوئی تھی وہ ایک دن سوئے تو صبح نہ اٹھے شاید وہ رات ہی رات ایک طویل سفر پر روانہ ہو چکے تھے، اسرائیلی حملے میں ان کے کیمپ تباہ کر دیے گئے تھے، اللہ نے ان کو جدائی کے غم سے بچا لیا تھا اور ایک ساتھ ان کو اپنے پاس بلا لیا تھا،
یہ فلسطین کے لوگ تھے جنہوں نے جنت کی نعمتوں کو اپنی عزیز ترین جان کے بدلے اپنے رب سے خریدا ___

بابا اٹھے نا بابا سعد جو بہت گہری نیند میں سو رہا تھا اچانک اٹھ گیا، کیا ہوا بیٹا عائشہ، کچھ نہیں بابا، آج ہم جنت کے ایک نئے باغ کی سیر پر جا رہے ہیں، آپ بھی چلیں نا، ہاں کیوں نہیں میں بھی چلوں گا، بابا آپ کوئی خواب دیکھ رہے تھے؟
ہاں بیٹے، کیا دیکھ رہے تھے آپ؟
میں آج خواب میں اپنی پچھلی دنیا کے اُن دنوں میں کھو گیا تھا جب ہم غذہ میں رہتے تھے وہ ہماری قربانی، آزمائش اور صبر کے دن، لیکن آج اللہ تعالی نے اِن قربانیوں، آزمائشوں اور صبر کے بدلے اپنی خوبصورت جنت سے نواز دیا تھا، ہماری آزمائش کا دور ختم ہوا اللہ نے ہمیں اپنی انعامات کی دنیا میں داخل کر دیا،
اللہ تعالی نے ہماری کوشش ہمارے عمل کا ایک قطرہ یہاں سمندر بنا دیا، یہ خدا کی دنیا تھی لافانی اور بے عیب ___
عائشہ کے پیچھے خاموشی سے کھڑی ماىٔرہ بھی سعد کا خواب سن رہی تھی، سعد نے ایک نظر عائشہ کو دیکھا اور پھر مائرہ کو وہ مسکرا دیا___
اور وہ تینوں شکر گزاری کے جذبے سے اللہ کے آگے سجدہ ریز ہو گئے ___

Comments From Facebook

6 Comments

  1. Zaid Md Khan

    MashaAllah…bht khoob ????????????

    Reply
    • Arifa Khatoon

      [Masha Allah ????????????????

      Allah kare zor e qalam aur zyada

      Reply
  2. Ameena Zulfiquar

    Mashallah inspired

    Reply
    • Shabeena Ansari

      Mashallah
      Keep it up

      Reply
  3. Furqan Khan

    Masha Allah

    Reply
  4. Unknown

    MashaAllah

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے