فلسطین پر ظلم کیوں؟

فلسطین جو ملک شام کا ایک حصّہ ہوا کرتا تھا ۔ملک شام ایسی پاک سرزمین ہے جو انبیاء کارہا ہےاور وہیں سے انھوں نے دین کی دعوت کام انجام دیا ۔ملک شام میں فلسطین،سیرییا ،مصرکا کچھ حصہ ،جارڈن شامل تھے ۔فلسطین کے موجودہ حالات پر نظر ڈالنے سے پہلے ہمیں فلسطین کی اسلامی تاریخ پر روشنی ڈالنا اشد ضروری ہے۔
فلسطین کا مقدس شہر بیت المقدس جسے یہہودی جیروسلم کے نام سے جانتے ہیں وہیں مسجد اقصیٰ واقع ہے۔اسلامی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو آدم علیہ السلام سے خاتم النبیین آپ صلی اللہ علیہِ وسلم تک خانے کعبہ ہی پہلا قبلہ ہےاور ہمیشہ رہیگا۔آپ صلی اللہ علیہِ وسلم جب مکہ معظمہ میں مقیم تھےوہاں سے خانہء کعبہ اور مسجد اقصیٰ ایک ہی سمت ہونے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہِ وسلم ایسا رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے کہ خانۂ کعبہ اور مسجد اقصیٰ کی طرف بھی رخ ہو۔لیکن مدینہ منورہ ہجرت کرنے کے بعد یہ ممکن نہیں تھاکیونکہ مسجد اقصیٰ اورخانہ کعبہ مخالف سمت ہے۔آپ صلی اللہ علیہِ وسلم جب معراج کےسفرپ تشریف لے گئے تب مسجد اقصیٰ کی عمارت تعمیر نہیں تھی جس طرح ابراہیم نےدوبارہ مسجد الحرام کی تعمیرکروای تھی مسجد اقصیٰ کی بنیاد ذکریا نےرکھی تھی سلیمان نے دوبارہ مسجد اقصیٰ اور ہیکل سلیمانی کی تعمیر کروائی تھی۔لیکن سلیمان کے بعد ہی اختلاف پیدا ہوگیا بنی اسرائیل آپس ہی میں تقسیم ہو گیے تھے عراق کےبابلی بادشاہ بخت نصر نے یہودیوں کو قیدی بنا لیا اور مسجد اقصیٰ اور ہیکل سلیمانی کو تباہ کردیا۔ایران کے بادشاہ سایر س (ذوالقرنین)نے بابلی حکومت کو فتح کرلیا اور یہودیوں کو قیدی سےآذاد کرکے مسجد اقصیٰ پھرسے تعمیر کروائی ۔دیوارگریہ ہیکل سلیمانی کی بچی ہوئی نشانی ہے۔یہودی ہیکل سلیمانی کو سینکڈ ٹیمپل بھی مانتے ہیں۔عمر رضی اللہ تعالی نے آپ صلی االلہ علیہ وسلّم کے بعد مسجد اقصیٰ میں نماز پڑھای۔انکے دور خلافت میں بہت امن وامان تھا کہیں کوئی ظلم وزیادتی نہیں تھی اسلام کا سر بلند ترین مقام پر تھا ۔دور خلافت کے بعدایوبی سلطنت قائم ہوی گیارہویں صدی میں صلاح‌الدین ایوبی مصر اور سیرییا کے پہلے بادشاہ بنے انھوں نے ١١٨٧س ١١٩٢بیس سال تک یہودیوں سے جنگ کی اور فتح حاصل کی صلاح الدین ایوبی کے بہادر ی کے قصے آج بھی مشہور ہیں ۔ایوبی سلطنت کے بعد عثمانیہ سلطنت قائم ہوی عثمانیہ سلطنت کے سلطان عبدالحمید کے دور میں یہودیوں پر ہٹلر ظلم کر رہاتھا تب ایک کٹر یہودی حر زل جویونذم کا بانی ہے کسی بھی طرح فلسطین میں داخل ہونا چاہتا تھا اور بیت المقدس کو حاصل کرنا چاہتا تھا اس کا ماننا تھا کہ ہیکل سلیمانی ان ہی کی مقدس جگہ ہے اور اس پر صرف اور صرف انکا ہی حق ہے سلطان عبد الحمید سے اس نے فلسطین میں رہنے کیلئے اجازت مانگی عبدالحمید نے ا یک شرط پر اجازت دی کہ یہود ی کہیں بھی رہیں لیکن انہیں ایک معین مقدار زمین نہیں ملےگی ۔١٨٩٦سے ١٩٠٢ تک پانیچ مرتبہ ملاقات کی لیکن ا پنے ارادوں میں کامیاب نہیں ہوا دوسری جنگ عظیم کے وقت عثمانیہ سلطنت غرق ہو گی اور قرضہ میں ڈوب گئی حرزل نے سلطان عبدالحمید کو لالچ دلای لیکن عبدالحمید نے ایسے سنہرے ا لفاظ کہے جو آج بھی تاریخ میں موجود ہیں “میں فلسطین کی سرزمین کسی قیمت پر بیچ نہیں سکتا یہ آنے والی امت کیامانت ہے اور میرے آباؤ اجداد کی قربانیاں اور انکا خون اس زمین میں شامل ہے “.
یہ تھا پہلے کے حکمرانوں کا ایمان ‌آج کے حکمران تو چند داموں میں اپنے ضمیر کو بیچ رہے ہیں’مسلم ممالک کے پاس کیا امداد کے لیے کچھ نہیں ؛بہت کچھ ہے پر افسوس جذبہء دین نہیں فلسطین کے مسلمانوں کے پاس جذبہء دین کے سوا کچھ نہیں اور اسی جذبہ کے ساتھ وہاں کے لوگ بچے بوڑھے جوان خواتین سب ایمان کی دولت سے فلسطین اور مسجد اقصیٰ کی حفاظت کے لئے سر پر کفن باندھ کر اپنی جان کی بازی لگانے کو تیار کھڑے ہیں کیا مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس کی حفاظت کی ذمداری صرف انہی کی ہے ہم سب مسلمانوں کے لیے بھی بیت المقدس محترم مقام ہے تو ہم کب بیدار ہونگے ۔ہم سب کو علیکم باالجماعت بن کر رہنا ہے اپنی نسلوں میں صلاح‌الدین ایوبی کی طرح نوجوان تیار کرنے ہونگے ماؤں کو بچوں کی تربیت بچپن سے جنگجو کی طرح کرنی ہوگی۔۔ ۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا۔‌۔۔‌

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے