مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم​


کچھ اور بڑھ گئے ہیں اندھیرے تو کیا ہوا​
مایوس تو نہیں ہیں طلوعِ سحر سے ہم​

ایک افسانہ۔۔۔۔ جس کا کوئی کردار نہیں۔۔۔! کیونکہ تمام کردار اپنی بقاء کی جنگ میں مصروف ہے۔۔۔۔
یہ داستان ہے۔۔۔ ایک خاموش داستان۔۔۔۔ جس میں بحرہ روم کی موجوں کے حوصلے اور دریائے اردن کی اضطرابی ہے۔۔۔۔

یہ رات کا آخری پہر تھا۔۔۔ جب رات پوری طرح اپنا سفر طۓ کر چکی تھی۔۔۔ سیاہی آہستہ آہستہ چھٹتی معلوم ہو رہی تھی۔۔۔۔ نیلاہٹ ہر سو پھیلی جیسے کسی جسم میں زہر پھیلتا ہو۔۔۔۔ بحرہ روم کی موجیں ارض فلسطین کو اپنی آغوش میں تھپک رہی تھی۔۔۔ ساحلی ہوائیں دور بہت دور دریائے اردن تک جاتی پھر وہاں سے یہاں آتی ، یوں ان مخلوقات کے درمیان تبادلہ خیال جاری رہتا۔۔۔
بے چین دریائے اردن نے ابتدا کی،
” تعداد کہاں تک پہنچی!!؟ ”
” 30,000 شہداء۔۔۔ 80 فی صد اہل غزہ بے گھر ہے ” بحرہ روم نے سنجیدگی سے جواب دیا
” کیا خیال ہے!؟ اور کتنی جانیں؟؟ کتنا خون؟ کتنے آنسو؟؟! ” دریا اردن کا پانی غصہ سے کھولنے لگا سمندر کے پانی میں بھی ٹھراؤ آگیا پھر ایک موج تیزی سے بلند ہوئی۔
” خاتمہ!! یہ فلسطین کے خاتمے کا نہیں بلکہ عربوں کے زوال کا وقت ہے یہ ان تمام انجام کا وقت ہے جو ظلم پر اپنی آواز دباۓ اور آنکھیں بند کیے بیٹھے ہیں۔۔۔ جو دنیا کی زندگی کو اللہ کی ان آیت کے فراموش کر گۓ۔
وَ قَالُوۡۤا اِنۡ ھیَ اِلَّا حَیَاتُنَا الدُّنۡیَا وَ مَا نَحۡنُ بِمَبۡعُوۡثِیۡنَ
آج یہ لوگ کہتے ہیں کہ زندگی جو کچھ بھی ہے بس یہی دنیا کی زندگی ہے اور ہم مرنے کے بعد ہرگز دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے ”

بحر کا جلال دیکھ دریا کے انتشار میں کمی ہوئی مگر اس کے پاس سمندر کے عزائم نہیں وہ تو دریا ٹھرا۔۔۔ اندیشوں سے بھر پور۔۔۔ پھر کہہ اٹھا،
” آخر وہ چاہتے کیا ہے کیوں معصوم جانوں کے پیچھے پڑے ہیں؟ کیوں درندگی کی انتہا پر پہنچ گئے؟ ”
“وہ اہل فلسطین کو زیر کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر بندہ مومن کسی کا غلام نہیں بن سکتا سواۓ اللہ کے۔۔۔!! وہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ جھک جاۓ، ان سے ڈر جاۓ۔۔۔ تاکہ وہ انھیں مایوسی اور خوف میں قید کر سکے۔۔۔ مگر تم جو ان کی آنکھیں دیکھو، تو جان جاؤ گے کہ حقیقت میں آزاد تو یہ اہل فلسطین ہے۔۔۔ غلامی کی زنجیروں میں مقید تو اسرائیل اور دنیا والے ہے۔۔۔۔ شیطان کے غلام! ”
بحرہ روم کی گہری اور حکیمانہ باتیں دریا اردن کے روح تک اتری پر سکون اب بھی نہ ملا۔
” اگر اہل غزہ کے حوصلے ٹوٹ گۓ۔۔ تو۔۔.؟ ”
دریا اپنے پانی کو وسوسوں کے ساتھ بہہ جانے دیا ۔۔۔ قطرے چھن چھن کرتے پتھروں اور ٹیلوں سے ٹکرانے لگے جیسے کوئی کانچ کے زرے ہو۔۔۔
“جانتے نہیں؟؟ یہ لڑائی صدیوں سے چلی آرہی ہے۔۔ اور صدیوں تک جانی ہے۔۔۔ ان اہل غزہ کے جگر میں صحابہ کے حوصلے ہے۔۔۔ وہ کسی کی مدد کے منتظر نہیں۔۔۔ بلکہ عمر اور صلاح الدین ان کے ایمان اور خون میں زندہ ہے۔۔۔ ”
بحرہ روم نے یہ کہہ کر موجوں کو سمینٹا
دریائے اردن کو کچھ قرار ملا تو وہ اہل غزہ کے اس معصوم بچے کے لیے ایک نظم گنگنانے لگی جو کچھ ماہ پہلے پیدا ہوا اور مٹی کے بڑے ملبے تلے سے جو کبھی اس کا مکان ہوا کرتا تھا کئی دن بعد زندہ برآمد ہوا ۔۔۔ یہ وہ جگنو کی مانند ہے جن سے غزہ کی تاریکی روشن ہیں۔ دریا پانی نظم گاتی جا رہی تھی۔۔۔۔
یہ رات اپنے سیاہ پنجوں کو جس قدر بھی دراز کر لے
میں تیرگی کا غبار بن کر نہیں جیوں گا
مجھے پتہ ہے کہ ایک جگنو کے جاگنے سے
یہ تیرگی کی دبیز چادر نہیں کٹے گی
مجھے خبر ہے کہ میری بے زور ٹکروں سے
فصیلِ دہشت نہیں ہٹے گی
میں جانتا ہوں کہ میرا شعلہ
چمک کے رزقِ غبار ہو گا
تو بے خبر یہ دیار ہو گا
میں روشنی کی لکیر بن کر
کسی ستارے کی مثل بکھروں گا
بستیوں کو خبر نہ ہو گی
میں جانتا ہوں کہ میری کم تاب
روشنی سے سحر نہ ہو گی
مگرمیں پھر بھی سیاہ شب کا
غبار بن کر نہیں جیوں گا
کرن ہو کتنی نحیف لیکن کرن ہے پھر بھی
وہ ترجماں ہے کہ روشنی کا وجود زندہ ہے
اور جب تک
یہ روشنی کا وجود زندہ ہے رات اپنے
سیاہ پنجوں کو جس قدربھی درازکر لے
کہیں سے سورج نکل پڑے گا

دریا ۓ اردن کی آواز مدھم مدھم ہو رہی تھی ۔۔۔ اس کا پانی دور کہیں جا کر بحر روم سے ملنے لگا۔۔۔ فلک کی سفیدی نے سیاہی کو ختم کر دیا صبح روشن کی کرنیں اپنی تمام بلند ارادوں سے سورج کی روشنی میں چار چاند لگانے لگی۔۔۔!

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے