میرا پسندیدہ ناول : نمل از نمرہ احمد

کتاب: نمل
مصنف: نمرہ احمد
صفحات: چودہ سو (1400)
ناشر: منشورات دہلی۔
تبصرہ نگار: بشری سلمان

کتابوں کی دنیا میں نمرہ احمد کی تخلیق کردہ ناول “نمل” میری پسندیدہ فکشنز میں سے ایک ہے۔ نمل 1400 صفحات پر مشتمل ایک دلچسپ کہانی ہے جو کہ پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات کی عکاسی ہے۔ ناول کے موضوع کو ایک جملے میں سمیٹا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ” نمل خون اور دل سے جڑے رشتوں اور ان سے جڑے جرائم کی کہانی ہے۔” یہ کہانی ہے سرمئی کرداروں یعنی عام لوگوں کی۔ اس کے بارے میں مصنفہ کہتی ہیں: ” نمل میں آپ کو مختلف اقسام کے لوگ ایک جگہ نظر آئیں گے ۔ اس کے اچھے کردار مکمل طور پر اچھے نہیں ہیں اور نہ ہی برے کردار مکمل طور پر برے ہیں۔ آپ نے ان سرمئی کرداروں کی اچھائیوں کو اپنانا ہے اور برائیوں سے سبق سیکھنا ہے۔”

نمرہ احمد کا پورا نام نمرہ احمد نیازی ہے جو کہ اس وقت اردو ناول نگاروں میں مشہور ترین لکھاری ہیں۔ ان کا تعلق پاکستان کے مشہور خاندان “نیازی” سے ہے۔ اردو کہانیوں کی دنیا میں قدم رکھنے کے بہت ہی قلیل مدت میں نمرہ احمد کوخاصی شہرت حاصل ہوئی اور اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والوں نے بھی انہیں بہت پسند کیا۔ نمرہ احمد نے2007 میں ، 16 سال کی عمر میں ہی اپنا پہلا ناول ” میرے خواب میرے جگنو” لکھا اور اس کے بعد ان کے قلم نے شاید رکنا مناسب نہیں سمجھا، چنانچہ یکے بعد دیگرے ان کی کئی کاوشیں مختلف ڈائجیسٹ میں شایع ہونے لگیں۔ پہلے ناول سے ہی نمرہ احمد کے لکھنے کا طریقہ قارئین نے بہت پسند کیا اور 2014 میں اپنے ناول “جنت کے پتے “کی مقبولیت کے بعد وہ عمدہ ناول نگاروں کی فہرست میں شامل ہو گئیں۔ ان 17 سالوں میں نمرہ احمد نے کئی ناول ، ناولٹ اور سیلف ہیلپ کتابیں لکھیں جنہیں ہند و پاک میں غیر معمولی مقبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی چند مشہور کاوشوں میں: “قراقرم کا تاج محل”، “جنت کے پتے”، “حالم”، “سانس ساکن تھی”، “میں انمول” ، ہوم گرل” مصحف” اور ”مالا” شامل ہیں۔ 2017 کے دلّی کتاب میلہ میں ان کی کتاب ” مصحف ” سب سے زیادہ بکنے والی کتاب تھی۔
نمرہ احمد لکھاری ہونے کے ساتھ آن لائن اسٹور “زنجبیل” کی مالک ہیں جس میں انہیں کی لکھی کتابیں اور ان سے جڑے مرچنڈآئز بیچے جاتے ہیں۔ حال کی کچھ کتابوں میں انہوں نے قرآن کی آیات اور کچھ اسلامی عنوانات کو اپنی کہانیوں کا ایک لازمی حصہ بنالیا ہے۔ زیادہ تر لکھاریوں کے برعکس انہوں نے کبھی اپنی کہانیوں پر ڈرامے یا فلم بنانے کی اجازت نہیں دی۔ نمرہ احمد سوشل میڈیا پر کافی ایکٹو رہتی ہیں اور اکثر قارئین سے انٹرایکٹ کرتی رہتی ہیں۔ ذاتی طور پر مجھے ان کی کچھ کتابیں اچھی لگی ہیں جن میں سے ایک نمل ہے۔

نمل کے ساخت کی بات کریں تو اس طویل ناول میں تیس ابواب ہیں اور ہر ایک کو ایک خاص عنوان دیا گیا ہے۔ ابواب کا ان عنوان پر پورا اترنا اور باب میں شامل ہر ایک کردار پر اثر انداز ہونا ایک مشکل کام ہے جسے مصنفہ نے بہت پرکشش انداز میں انجام دیا ہے۔ ہر ایک باب کے شروعات میں کسی مشہور ادبی اقتباس کا اردو ترجمہ ہے جو اس باب کے اندر کے مواد کے ترجمانی کرتا ہوا معلوم ہوتا ہے۔ قارئین کو کتاب کی ابتدا تھوڑی پیچیدہ محسوس ہوسکتی کیوں کہ کہانی کبھی حال تو کبھی ماضی میں چلتی ہے جس کی وجہ سے اس کے پلاٹ کو سمجھنے میں قدرے دشواری پیش آ سکتی ہے۔ لیکن مصنفہ کا یہ کمال ہے کہ اس ٹائم لائن کے ہیر پھیر کے باوجود بھی کتاب قارئین کو اپنی گرفت سے باہر نہیں جانے دیتی۔ بلکہ جیسے جیسے کہانی آگے بڑھتی ہے قاری کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ماضی کے یہ سارے حوالے کتنے اہم تھے۔ پورے ناول میں سورۃ نمل پر تدبر کے علاوہ قرآن کی مزید کئی آیات اور دوائے شافی کے کچھ اقتباسات بھی شامل کئے گئے ہیں جو قاری کو سوچنے کا ایک اور زاویہ دکھاتے ہیں۔

نمل میں بہت سارے کردار ہیں اور ہر ایک کردار کو بہت باریکی سے تراش وخراش کے بعد کہانی کا حصہ بنایا گیاہے۔ کسی ایک کردار کو ہیرو یا ویلن نہیں کہا جا سکتا لیکن چند مرکزی کردار قابل ذکر ہیں جیسے:
ہمارا سعدی: گھنگھرالے بالوں والا سعدی یوسف کہانی میں سب سے زیادہ مثبت کردار ہے۔ وہ اپنے خاندان میں ہر ایک کا پسندیدہ ہے۔ ذہین اور ذمہ دار سعدی ایک سائنسدان ہونے کے ساتھ ایک با عمل مسلمان ہے ، جسے ناول کے کردار باتوں کا جادوگرکہتے ہیں۔
زمر یوسف: نمرہ کی لکھی باقی لڑکیوں کی طرح ہی بہت بولڈ اور مضبوط کردار۔ زمر سعدی کی پھوپھو اور پیشے سےوکیل ہے جس کے لئے خاندان اس کی پہلی ترجیح ہے۔ اس کردار میں انا کی انتہا ہے اور یہ کہانی میں سب سے زیادہ جذباتی اتار چڑھاؤ سے گزرتی ہے۔
فارس غازی: ایک غصہ ور انسان کے طور پر مشہور سعدی کا مامو ، جو اصل میں بہت تحمل اور حکمت عملی سے کام لینے والا ایک خوددار شخص ہے۔ یہ بھی اپنے خاندان کے لئے بہت پروٹیکٹو ہے اور اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے بسا اوقات غیر قانونی طریقے اختیار کرنے سے بھی گریز نہیں کرتا۔ فارس کے مطابق: ” جو قانون روزی نہیں دے سکتا وہ ہاتھ بھی نہیں کاٹ سکتا۔”
ہاشم کاردار: منفی کردار ہونے کے باوجود ہاشم کی شخصیت قاری کو اسے پسند کرنے پر مجبور کرتی ہے۔ ہاشم کا سفرہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمارا کردار ہمارے اپنے فیصلوں سے بنتا یا بگڑتا ہے۔
حنین یوسف: سعدی کی بہن، جسے ذہین کی جگہ شاطر کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔ ایک عام لڑکی حنین کہانی کی کیٹالسٹ ہے۔
آبدار اور احمر: مرکزی کرداروں کے معاوین ہونے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک الگ کہانی لے کر چلتے ہیں۔ ان کے علاوہ قصر کاردار کی ملکہ جواہرات، ہاشم کا دست راست خاور اور یوسف و کاردار خاندا کے چھوٹے بڑے افراد بھی کہانی میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ حاشم کے کاروباری ساتھی اور دونوں خاندانوں کے خادموں کے کردار بھی بہت گہرا اثر چھوڑ جاتے ہیں۔ یہ کہانی معاشرے کے طے کردہ معیار اور اطوار کے بیچ سروائول کی داستاں ہے۔ نمل سماجی، سیاسی ، مذہبی اور ذاتی بہت سارے مسائل کے بارے میں بات کرتا ہے اور ان سے باہر نکلنے کے نسخوں کا بھی ذکر کرتا ہے۔

اس کتاب کو لکھنے کے لئے پاکستان کے قانون اور دیگر کئی عنوانات پر مصنفہ کا ریسرچ بہت عمدہ ہے۔ نمرہ احمد کے مکالمے ہمیشہ ہی بہت متاثرکن ہوتے ہیں، اس کہانی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ان مکالموں کا آپسی میل اور پھر مشہور اقوال کا بر وقت استعمال ایک الگ ہی لطف دیتا ہے۔ کسی بھی پلاٹ ہول سے پاک یہ ناول طویل ہونے کے باوجود بورنگ نہیں ہے۔ ہر طرح کے قاری کے لئے اس میں کچھ نہ کچھ ضرور ہے۔ میرے لئے یہ کرائم تھرلر، فیملی ڈرامہ، کلچرل انفورمیشن، لَو اسٹوری اور مذہبی تبلیغ کا ایک مکمل پیکج ہے جو کہ قاری کے اندر اپنے مسائل حل کرنے کا اعتماد پیدا کرتا ہے۔

Comments From Facebook

5 Comments

  1. ش

    اتنا تفصیلی ریویو پڑھ کر ہی مزہ آ گیا! مصنفہ سے لے کر کہانی کے کردار کے بارے میں بہت عمدہ طریقے سے تبصرہ بیان کیا ہے۔

    Reply
  2. شفق الف

    تبصرہ پڑھ کر محسوس پو رہا ہے ناول ہی دوبارہ پڑھ لیا۔

    Reply
    • مہر نیشا

      آپ کمال لکھتے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے مصنف خود اپنی کتاب کا خلاصہ لکھ رہا ہو۔

      Reply
  3. عبیر

    عمده تبصره..

    Reply
  4. Samida

    Bahut hi achhi story thi

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے