پیر کامل: تبصرہ

ناول: پیر کامل
مصف: عمیرہ احمد
تبصرہ نگار: معراج دین شیخ
ناشر: الف پبلیشرز،دہلی
صفحات:520
سن اشاعت:2021
قیمت: 400 روپے

ناول زندگی کا حقیقی بیانیہ کہلاتا ہے ۔ زندگی کے نشیب و فراز کو مرقوم کرنے میں اردو کی نثری اصناف میں ناول کوخصوصی اختصاص حاصل ہے ۔اردو ادب کے دامن کو وسیع کرنے میں افسانوی ادب میں ناول کا کلیدی کردار رہاہے ۔ ناول اگرچہ مغربی ادب کی دین ہے لیکن ہماری مشرقی شعریات میں داستان کی کہانی بہت پرانی ہے ۔ انیسویں صدی میں مولوی نزیر احمد کے پہلے ناول “مرات العروس 1869 ” سے اردو میں ناول نگاری کا آغاز ہوتا ہے ۔ ڈیڑھ صدی کے طویل سفر میں اردو ناول مختلف پڑاؤ سر کر کےآج نئے ممکنات میں اپنی افادیت کو مسلسل منوا رہا ہے۔معاصر دور میں اردو ناول کے منظر نامے پر جن ناول نگاروں نے قلیل وقت میں اپنی پہچان بنائی ان میں عمیرہ احمد کانام خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ عمیرہ احمد کی شخصیت کسی رسمی تعارف کی محتاج نہیں ،آپ ہم عصر اردو پاپولر ناول کے صف اول کی ناول نگار ہے ۔ آپ کی پیدائش پاکستان کے شہر سیالکوٹ میں 10 دسمبر 1976 کو ہوئیں ۔ آپ نے انگزی ادبیات میں ایم اے کیا ہے اوربعد ازاں درس و تدریس سے وابستہ رہیں ۔عمیرہ احمد کے ناولزاور ڈراموں نے انہیں شہرت کی اونچائیوں پر پہچایا ۔ برصغیر ہند و پاک کے علاوہ پوری دنیا میں اردو کے قارئین کاوسیع حلقہ آپ کے قلم کا گرویدہ ہے۔ آپ نے قریباً دو درجن ناولوں کے علاوہ ایک درجن سے زائد ڈرامے بھی لکھے ہیں۔ زیر تبصرہ ناول “پیر کامل “ان کے مشہور ناولوں میں سرفہرست ہیں۔
ناول پیر کامل فکرو فن کا حسین امتزاج ہے۔یہ دس ابواب پر مشتمل ایک ایساشاہکار ناول ہے جس کا موضوع ردِ قادیانیت اور ختم نبوت ہے۔جو دراصل ظلمات سے نور کی طرف طویل سفر کی روداد ہے۔ امامہ ہاشم اور سالار سکندر کے مرکزی کرداروں کے توسط سے ناول نگار نے انسانی زندگی میں رہبر اعظمﷺ کی نبوت و امامت کے نظریے کو جس طرح پیش کیا،وہ اس ناول کی کامیابی کو واضح کرتاہے۔ امامہ ہاشم ایک قادیانی خاندان سے تعلق رکھتی ہےاور سالار سکندر ایسے امیر گھرانے کےچشم و چراغ ہوتے ہیں جسے ماحول نے بہت بگاڑا ہوا ہوتا ہے ۔امامہ ہاشم خود کو مسلمانوں کے ایک فرقے یا مسلک کی پیروکار سمجھتی ہے ۔ کالج میں اسے اپنی دوست جویریہ کے کہنے پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ مسلمان نہیں ہے کیوں کہ مسلمان حضرت محمد ﷺ کو اپنا آخری پیغمبر اور رسول ہونے پر ایمان رکھتے ہیں۔ وہ قادیانی ہے اور قادیانی مسلمان نہیں ہوتےہیں بلکہ پاکستان کی ایک اقلیت ہے۔ دوسری طرف ان کی ہمسائیگی میں رہنےوالا سالا ر سکندر جو ڈیڑ ھ سو سے زیادی آئی کیو لیول رکھنے والا ایک ایسا لڑکا ہوتا ہے جو سرور(ecstasy) کی انتہا کو دیکھنے اور اس چیز کو محسوس کرنےکے لیے بہت بار خودکشی کر چکا ہوتا ہے ۔ یہ ماں باپ کا لاڈلا جس کی قابلیت پر کبھی ان کے والدین رشک کیا کرتے تھے اب ان کی ایسی حرکتوں نے ان کی زندگی کو اجیرن بنادیا تھا ۔امامہ ہاشم پر میڈیکل کی تعلیم کے دوران کالج میں قرانی دروس میں شمولیت نے ہدایت کی راہ کھول دی ۔ کتاب اللہ اور صاحب کتاب پیر کامل ﷺ سے ان کی آشنائی نے انہیں کلمہ گو بنا دیا ۔ ان کے لیے ایمان کا اظہار جان سے ہاتھ دھونے کے مترادف تھا کیوں کہ ان کے والد ہاشم مبین احمد احمدی جماعت کے سرکردہ مبلغوں میں ایک تھے۔ لہذا امامہ ہاشم چھپ کے مسلسل پیر کامل ﷺکی لائی ہوئی ہدایت اور تعلیمات پر عمل کرتی رہی ۔ جب امامہ کے گھر والوں نے ان کی بچپن میں ہوئی اسجد کے ساتھ منگنی کے تعلق سے انہیں رشتہ ازدواج میں باندھنا چاہا تو امامہ نے بالکل انکار کر دیا اور اس طرح وہ رات کی اندھیرے میں سالار سکندر کی مدد سے محض اس لیے گھر سے بھاگی کہ انہیں کسی غیر مسلم سے شادی نہ کرنی پڑے ۔ وہ فون پر سالار سکندر سے فقط اس لیے نکاح کرچکی تھی کہ گھر والوں کو یہ بتا سکے کہ وہ منکوحہ ہے اور اس وجہ سے اسجدسے اپنی جان چھڑا سکے ۔ ناول کا پلاٹ یہاں سے مربوط ہوتا چلا جاتاہے جب سالار سکندر اور امامہ ہاشم کی کہانیاں ایک سطح پر مساوی چلتی رہتی ہے ۔ حب ِ رسول ﷺ کےتعلق سے امامہ ہاشم نےاپنی دوست زینب کے بڑے بھائی جلال انصر سے جس رشتہ ازدواج کو استوار کرنا چاہا تھا وہ آگے جاکر سماجی دباؤ کےتحت شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا ۔یوں امامہ ہاشم اپنے دین کی حفاظت میں کھلے آسمان بے یا ر و مددگار ڈاکٹر سبط علی کے گھر پہنچتی ہے۔
پیر کاملﷺ ہدایت کے طالب بندوں کو ان کے خالق سے جوڑنے سے مربوط ہے ۔ یہ ناول انسانی زندگی کوصحیح راستے پر ڈالنے اور اسے حقیقی کامیابی کا روڑ میپ فراہم کرتا ہے۔ تاریکیوں سے اجالے کے خوبصورت راستے رسول اللہﷺ کی کامل اتباع کے بغیر سر نہیں ہوسکتے ہیں ۔ امامہ ہاشم اور سالار سکندر جیسی کروڑوں بے معنی زندگیوں کو بامعنی بنانے میں پیر کامل کی اطاعت ناول کا یکتا بیانیہ ہے۔ناول کا اگلا پڑاؤاحساس اور امتحان سے شروع ہوتا ہے۔ جب سالار سکندرتعلیم کے سلسلے میں یورپ منتقل ہوتا ہےاور پھر ملازمت کے سلسلے میں یونیسیف کے بعد یونیسکو کے ہیڈ کوارٹرز میں ملازم ہوجاتا ہے۔ زندگی اسے اس مقام پر لاچکی ہوتی کہ امامہ ہاشم اس کے شعور و لاشعور میں رچ بس چکی تھی اور وہ اس کا طالب تھا۔ یہ طلب ماضی میں کائنات اور زندگی کے حوالےسےسالار کے سوالات اور امامہ ہاشم کے جوابات پر مبنی تھی ۔ سالار سوچتا رہتا تھا کہ وہ عام سی لڑکی آخر ڈیڑھ سو سے زائد آئی کیو لیول رکھنے والے لڑکے کو کس طرح اور کس علم و فکر سے اپنے جوابات سے چپ کراتی تھی ۔ قران کی غوط زنی سے اسے زندگی کے ہر سوال کاتشفی بخش جواب ملا تھا اور ساتھ ہی امامہ کی شخصیت کی اہمیت اس پر واضح ہوگئی تھی۔ اس پر یہ آشکار ہوچکا تھا کہ وہ لڑکی ہر ایک سے رُخ موڑ کر اللہ اور رسول ﷺ کی محبت میں غنی ہوگئی تھی۔ وہ قران اور صاحب قرانﷺ سے جو ں جوں متعارف ہوتا رہا اس کے اندرون و بیرون میں سکون و اطمینان جاگزیں ہوتا رہا اوریوں وہ مقصد زندگی کے خاظر اپنی زندگی کو بدلتارہا ۔ اس کشمکش نے اسے امامہ سے ملنے کی چاہ پیدا کر دی ۔ امامہ ہاشم سبط علی کے گھر سے سعیدہ اماں کے گھر منتقل ہوگئی تھی اور ملازمت سے اپنے اخراجات پورا کر لیتی تھی۔ تقدیر سالار سکندر اور امامہ ہاشم کو ڈرامائی انداز میں ملا لیتی ہے اور یوں وہ ایک دوسرے کے ساتھ رشتہ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں۔ جس سے ناول کی کہانی ہزاروں و نشیب وفراز کے ساتھ اپنے اختتام کو پہنچتی ہے۔
ناول میں پیر کامل ﷺ کی مبارک زندگی کا ظہورنمایاں ہے۔ آپﷺ کی رسالت بھٹکے ہوؤں کو جہاں صراط مستقیم کی طرف لاتی وہیں مضمحل روحوں کو قرار بخشتی ہیں۔ یہ انسان کو حقیقی کامیابی اور زیست کے مقاصد سے آگاہی بخشتی ہیں ۔ ناول میں قرانیات کا خاصہ بغور دیکھا جاسکتاہے ۔ معنی خیز جملوں اور اقتباسات نے ناول کی خوبصورتی کو دوبالا کیا ہے ۔ زبان و بیان اور ناول نگار کے اسلوب نگارش نے اسے فنی سطح پر فکر کے ساتھ مربوط کر دیا ہے ۔ یہیں وجہ ہے کہ اس ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا گیا اور اس کےاب تک متعدد ایڈیشن چھپ کر شائع ہوچکے ہیں ۔ ادب کے باذوق قارئین سے لے کر عام قاری تک کے لیے یہ ناول عمیق قرات سے تعلق رکھتا ہے۔

Comments From Facebook

4 Comments

  1. مہر

    عمدہ تحریر، جامع و اختصار کے ساتھ پوری ناول کو پیش کرنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ سمندر کو کوزے میں بند کر نے کے مترادف ہے-

    Reply
  2. فردوس احمد بٹ

    ڈاکٹر صاحب!!!
    بہت ہی عمدہ ۔۔۔

    Reply
  3. عکس مراد

    نہایت ہی مُفصل اور عمدہ تبصرہ۔۔۔زورِ قلم اور زیادہ

    Reply
    • ساحر بٹھ

      بہترین تبصر ہ ہے۔ ذہن کو ناول کے آگے تک
      بناے رکھتا ہے۔ اک جوش اور ولولے کے ساتھ۔

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے