کیمیاگری

کیمیا گری
ناول نگار : پاؤلو کوئیلہو
مترجم : عمرالغزالی

تبصرہ نگار: خان مدیحہ عنبر
ناندیڑ

‘اوالکیمیسٹا’ 1988 میں پرتگالی زبان میں شائع ہوئی۔ برازیلی ناولسٹ پاولو کوئیلہو کی یہ وہ ناول ہے جس کا ترجمہ دنیا کی چالیس سے ذائد زبانوں میں ہوچکا ہے کہیں 80 زبانوں کا ذکر بھی آتا ہے۔1993میں انگیزی زبان میں ترجمہ منظر عام پر آیا اوراس کے بعد اردو میں الکیمسٹ کا ترجمہ عمرالغزالی نے 2009 میں لکھا جو کیمیاگر کے نام سے شائع ہوا۔ پاولو کئیلہو نے یہ ناول محض دو ہفتوں میں لکھا ہے۔ ہائے پروفائیل نامی میگزین کو انٹرویو دیتے ہوئے کہتے ہیں

” دی الکیمسٹ [1988] میرے لیے دپنی ذات کو سمجھنے کی کوشش تھی اپنے ماضی میں جھانک کر اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش تاکہ مجھے ایک کہانی ملے جسے میں ایک استعارہ بنا سکوں جو میرے ذندگی سے بہت قریب ہو۔ اور پھر اسے کاغذ پر اتارنے میں مجھے، ہاں، دو ہفتے لگے۔ لیکن کتاب بہت پہلے سے موجود تھی، کیونکہ یہی میری زندگی ہے”

عالمگیر ادب کی یہ خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ زبان اور موضوع ان دونوں کی قید سے بالاتر ہوتا ہے۔ ‘کیمیاگر’ پاولوکوئیلہو کا ایک ایسا ہی ناول ہے جسمیں فلسفہ حیات کے دائرے میں مقصدِ حیات اور خوابوں کی جستجو کے درمیان لطیف سے ربط کو لفظی و استعاری پیرہن میں ڈھالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ پورا ناول استعارات کی زبان میں لکھا گیا ہے اور یہ بڑی کامیاب کوشش ہے کہ ناول کی زبان کی تبدیلی کے باوجود موضوع کو سمجھنے میں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی بلاشبہ اس میں مترجم کا بھی کمال ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ناول نگار ‌نے عالمگیر حقیقت کو اپنے ناول میں پیش کیا ہے
ناول میں پروٹیگونسٹ ( مرکزی کردار) خوابوں کے حصول کے لیے جن مراحل سے گزرتا ہے وہ مراحل آپ اور ہم سبھی کی زندگی کے مراحل ہیں ۔ ہم سبھی خوابوں کے حصول کےلیے ان تمام مراحل کو طئے کرتے ہیں۔ اچھے ناول نگار کی یہ خوبی ہوتی ہے کہ وہ حساس ہوتا ہے خفیف سے تجربات بھی اس کی زیرک نگاہوں میں معمولی نہیں ہوتے وہ ان کا اندراج اپنی کہانیوں میں بڑی مہارت کے ساتھ کرتا ہے اور قاری کی نگاہوں میں تحیر امڈ آتا ہے کہ یہ جادو جو کتاب کے پیچھے ہے وہ اس کی اپنی زندگی میں بھی موجود ہے بس آج تک نگاہوں سے اوجھل تھا۔

کہانی ایک چرواہے ‘سانتیاگو’ نامی لڑکے کے گرد گھومتی ہے۔ جو خستہ حال گرجہ گھر کی عمارت میں اپنی بھیڑوں کے ساتھ رات بسر کرتا ہے۔ اس رات وہ ایک خواب دیکھتا ہے اہرام مصر کے قدموں تلے دبے’خزانے کا خواب’ اور اسی خزانے کا حصول اس کا دوسرا بڑا خواب بن جاتا ہے کیونکہ سنتیاگو کا پہلا خواب تھا ‘سیاحت’ یہ اسے دنیا کی ہر چیز سے ذیادہ قیمتی تھا۔
‘خواب’ کیا ہے؟ ایک وہ جو لاشعور ہمیں سوتے ہوئے دکھاتا ہے دوسرا وہ جو ہم جاگتی آنکھوں سے اسے خود بنتے ہیں۔ اگر ہمارے خوابوں میں صداقت اور اس کے حصول کی لگن ہو تو ہمارا لاشعور بھی ہمیں سوتے ہوئے ان خوابوں کی جانب جاتے پراسرار راستوں کے سراغ دے جاتا ہے۔ سنتیاگو کا خواب بھی دوسری نوعیت کا خواب ہے جسکی غیر معمولی اہمیت کو اس نے سوتے ہوئے محسوس کیا‌ اور اس بھید کو جاننے کا تجسس اسے مختلف مراحل سے گزارتا گیا۔
پاؤلو کوہیلو کا یہ وہ زندہ کردار ہے جو ہمیں دکھاتا ہے کہ اپنےخوابوں کو پورا کرنے کے لیے کس قسم کے اوصاف ہمارے اندر ہونے چاہیے۔ ‘سنتیاگو’ ایک محنتی، مستقل مزاج، مثبت، باریک بیں اور پر عزم کردار ہے۔ اپنے ارد گرد میں وقوع پزیر واقعات سے وہ نابلد نہیں ہوتا۔ چاہے بھیڑوں کی نگہداشت ہو یا ان کے رویے اسے ہر چیز سے واقفیت ہے۔ بدلتے موسموں اور رتوں کا احساس ہے، سیاحت کی غرض سے جہاں جاتا ہے وہاں کے ہر منظر کو اپنی انکھوں میں قید کرلیتا ہے۔ ہر نئے تجربے کے سیکھتا ہے اور اس کے پیچھے کی مصلحتوں کو جاننے کی کوشش کرتا ہے۔ تھک کر نہیں بیٹھتا۔ گر کر اٹھنا نہیں بھول جاتا، جب راستے کھو جاتے ہیں تو پریشان نہیں ہوتا جتنا علم اس کی مُٹھی میں ہوتا ہے اس کو استعمال کرکے اپنی راہیں خود بناتا ہے۔ جب کبھی اسے محسوس ہوتا ہے کہ اس کی ہمت جواب دے رہی ہے تب وہ زندگی کا ازسر نو سے جائزہ لیتا ہے اور اپنی کھوئی ہوئی ہمت کو ازخود سمیٹتا ہے۔
اس کے نزدیک انسان جانوروں سے اشرف ہے جیسے وہ اس کی بھیڑوں سے ۔ اس کی بھیڑوں کے کوئی خواب نہیں وہ تو ہر اس شخص کی راہ ہو لیتی ہیں جو انہیں زندگی کے وسائل دینے کی سکت رکھتا ہے۔ لیکن چرواہے کے نزدیک انسان اس لیے اشرف ہے کیونکہ وہ بودو باش کی قید سے بالاتر ہوکر سوچنے کا جذبہ رکھتے ہیں۔چرواہا کسی بھی جذبہ کو اپنی راہ کی روکاوٹ نہیں بننے دیتا۔ محبت ، نفرت، اور کسی بھی شئے سے مرعوبیت اسکی انکھوں سے کبھی اس کے خوابوں کو جاتے راستوں کو اوجھل نہیں کرتیں وہ اپنے جزبات کو اپنے قابو میں رکھنا جانتا ہے۔ وہ اس راز سے واقفیت رکھتا ہے کہ ہر وہ جزبہ جو خوابوں سے دور کردے اور اپنے مقصد سے دور کردے اسے باقی نہیں رکھنا چاہیے۔انسانیت سے محبت ایک ایسا جذبہ ہے جو ہر انسان میں موجود ہونا چاہیے۔ کیونکہ ہماری منزل کے راستے میں کئی لوگ ہوتے ہیں جو ہمیں آگے بڑھنے میں ہماری مدد کرتے ہیں کبھی ہمارے رہبر بن کر کبھی خاموش مسیحا بن کر۔ قدرت کی ہر شئے ہمارے لیے کام انجام دیتی ہے۔ ہمارا کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اگر یہ غیبی طاقتیں ہماری لیے ہر وقت موجود نہیں ہوتیں۔ اور یہی احساس چرواہے کے اندر عاجزی اور دوسروں کے لیے ہمدردی ، دیانت داری ، ان کی مدد کا جذبہ پیدا کرتا ہے۔
سفر انسانوں کے اندر وسعت پیدا کردیتے ہیں۔ تپتے صحرا کے گرم سرد تیور، مختلف علاقوں اور ان میں رہائش پزیر لوگوں کی انفرادیت اور جنگل بیابان کی خاموش تنہائی، اور آسمان و زمین کی وسعت ناپتے وہ عاجزی کے اسباق سیکھ لیتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی باتوں میں نہیں الجھتے، رحم دل بن جاتے ہیں۔ اور چرواہے نے کئی سفر کیے تھے وہ ہر شئے اور ہر شخص کی اس کی ذندگی میں کتنی اہمیت ہےاس سے واقف تھا۔
چرواہا اپنے سفر میں سب سے اہم راز کو جان لیتا ہے کہ”ہر چیز کی ایک قیمت ہوتی ہے” ہمیں اسے حاصل کرنے کے لیے پہلے مطلوبہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔کامیابی کی بھی اپنی قیمت ہوتی ہے۔اور جب وہ یہ جان لیتا ہے تو بنا قیمت دیے وہ کسی شئے کو پانے کی کوشش نہیں کرتا کیونکہ یہ عمل قانون فطرت کے خلاف ہے۔
چرواہے کے کردار میں سیکھنے ، علم حاصل کرنے کا جزبہ اتم درجے میں موجود ہے۔ وہ کتابوں سے، قدرت سے ، ماضی سے اور ہر شخص سے حتی کہ اپنی بھیڑوں سے بھی سیکھتا ہے۔
پاؤلو کوئیلہو کا یہ کرداد کہانی کی شروعات سے ہی مکمل کردار نہیں ہے۔ بلکہ یہ اس کردار کے اوصاف ہیں جو اسے بہترین کے سفر تک رسائی دیتے ہیں۔ ایک چرواہے سے مقصد کو پانے تک کا سفر یوں ہی طئے نہیں ہوتا ۔ نہ ہی چرواہے کا اور نہ ہی کسی انسان کا۔ ہر ایک کو اپنے اندر یہ اوصاف پیدا کرنے پڑتے ہیں۔ تبھی سفر کی شروعات ہوتی ہے اور راستے بننے لگتے ہیں۔ ہر کسی کے لیے متعین راہ نہیں ہوتی بلکہ راستوں پر چلنے سے ہی راستے نکلتے ہیں۔
جیسے چرواہے نے کیا وہ ہر اس راستے پہ چل پڑا جو اس کو اپنی منزل سے قریب کرتا تھا۔ شیشہ گر کی دکان میں ایک سال کام کیا نا کہ مایوس ہوکر واپسی کی راہ اپنائی۔ جب کہ مزید آگے کے سفر کے وسائل اکھٹے کرنے کے لیےاسے محنت و مشقت کرنا پڑی۔ یہ کردار ہمیں ان گنت اسباق دیتا ہے اور یہ اسباق ہر قاری پر مختلف انداز‌ میں کھلتے ہیں اور شاید یہی پاؤلو کوئیلہو کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انہوں نے اتنا منفرد اور حقیقی کردار لکھا ہے جو ہمیں اپنے آپ سے بے حد قریب لگتا ہے۔
اس کہانی میں پلاٹ بہت اہم ہیں۔ ناول نگار نے انہیں بہت فطری انداز میں ایک دوسرے میں بن دیا ہے۔ مرکزی کردار کی سوچ اور اس کے اقدام ہی پلاٹ کو آگے لے کر جاتے ہیں۔ ہر واقعہ جنتا سانتیاگو کے لیے اہم ہے اتنا بہ حیثیت قاری ہمارے لیے بھی ہم اس واقعے سے سانتیاگو کے خوابوں کے سفر کے تعلق سے جان پاتے ہیں اور اس واقعے کے پیچھے چھپی فلاسفی کے ذریعے مزید زندگی کو بھی‌۔
ایک اہم پیغام جو اس ناول کے ذریعے ہمیں ملتا ہے وہ ہے کہ “لمحہ حال میں موجود رہنا” ماضی اور مستقبل بس ایک سراب ہیں لیکن جو زندگی کے علامت ہے ‘وہ حال ہے’ ۔ خواب کے پورا ہوجانے کا خیال یا کسی شئے کا حصول کا خواب محض مستقبل کا ایک خیال ہے۔ گزرے ہوئے واقعات ماضی کی محض یادیں چاہے وہ اچھی ہوں یا بری۔ ان میں زندہ رہنا موت کے مترادف ہے۔
سب سے مزیدار بات کے ناول نگار نے چرواہے کے ماضی کا ذکر خال خال ہی کیا ہے اس کی شخصیت نگاری انہوں نے اس کے لمحہ حال کے اقدام و واقعات کے ذریعے کی ہے اور یہی حقیقت بھی ہے ہم وہی ہیں ج’ آج اور ابھی ‘ہیں ۔ سانتیاگو کا بھی ماضی ہے جو وہ پیچھے چھوڑ چکا اس کے والدین، آبائی گاؤں اس کی بھیڑیں اور اس کی دوست اور مستقبل بھی جو ایک تابناک خواب کی صورت میں اس کے دل میں موجود ہے۔ مگر وہ کبھی اپنے موجودہ لمحے سے مفرور نہیں رہا۔ اس نے چرواہے کی ڈیوٹی کی اپنی بھیڑوں کے ساتھ بھر پور وقت گزارا اور ان تجربات سے زندگی کے تعلق سے سیکھتا رہا۔ تجارت سیکھی، شیشہ گر کی دکان میں بحیثیت ملازم اس نے اپنی پوری صلاحیتوں اور ذہانت سے اس کے کاروبار کو مضبوط بنایا اور قیافہ شناسی اور لوگوں سے بات کرنے کا ہنر دکان کے مالک سے سیکھا۔ اپنے ہمسفر دوست کیمیا دان سے علمِ کیمیا سیکھا۔ بوڑھے بادشاہ کی دانائی اور حکمت سے بھر پور باتوں کو نظر انداز نہیں کیا بلکہ ہر مشکل لمحے میں ان سے درست سمت کا تعین کیا۔ کیمیا گر سے کیمیاگری کے ہنر سیکھے۔
یہ ممکن نہ ہو پاتا اگر وہ محض دن رات خزانے کے خواب بنتا رہتا یا ماضی کے لمحات میں دل و دماغ کی قوتیں ضائع کردیتا ۔ اس نے اپنے حال کہ ہر لمحہ کا پورا پورا حق ادا کیا اور یہی ہر کامیاب شخص کا راز ہے۔ وہ راہوں کے گم ہوجانے پر، کسی غیر متعینہ منزل پہ اتر جانے تر، کسی انجان سمت میں مڑ جانے پر حواس نہیں کھوتے بلکہ اسی لمحے کو اپنی قوت و ہمت کے صرف کرنے کا بہتریں ذریعہ سمجھتے ہیں اور پھر کسی غیر معمولی لمحے میں وہ اپنی اصل منزل کا سراغ لگا ہی لیتے ہیں
اور جو یہ کر لیتا ہے
وہ جان لیتا ہے
ایک راز کہ
کہ حقیقت میں
یہی ہے
“کیمیاگری”
اور
اس کے رازداں کو
کہتے ہیں
“کیمیا گر”

Comments From Facebook

19 Comments

  1. Dr.jawwad Khan

    MashAllah,bahtreen tabserah

    Reply
    • الصباء عبدالقدیر

      بہت خوبصورت ما شاء اللہ ❤️

      Reply
      • رابيه كوثر

        بهت عمده

        Reply
        • Jaziya khanam

          ماشاءاللہ❤

          Reply
      • ادیبہ مسکان

        ماشاءاللہ
        بہت خوب تبصرہ کیا ہے۔
        پچھلے دنوں ہی مکمل کی تھی یہ کتاب اور ال کیمسٹ کا ایک ترجمہ ذکی کرمانی صاحب نے بھی کیا ہے، وہ بھی پڑھنا ایک دفعہ

        Reply
    • منزہ احمد

      ماشاءاللہ

      Reply
      • مدیحہ

        جزاک اللہ❤️

        Reply
    • Madiha

      JazakAllah❤️

      Reply
    • Asma Jabeen

      خوب

      Reply
  2. عمارہ فردوس ،جالنہ

    ماشاءاللہ ????????
    پیاری مدیحہ اس تبصرہ کے لیے مبارکباد قبول فرمائیں ۔۔۔مختصر اور جامع تبصرہ
    اسکا ایک ترجمہ محترم ذکی
    کرمانی صاحب نے بھی کیا ہےاور بہت خوب کیا ہے ۔تم نے اپنے تبصرہ میں اس ناول کے مرکزی کردار کے اہم رول اور مرکزی عنوان کو جس جامعیت سے قلمبند کیا بہت بہترین ۔۔خدا کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔آمین

    Reply
    • Madiha

      شکریہ پھوپی جان❤️????

      Reply
  3. عمارہ فردوس ،جالنہ

    ماشاءاللہ ????????
    پیاری مدیحہ اس تبصرہ کے لیے مبارکباد قبول فرمائیں ۔۔۔مختصر اور جامع تبصرہ
    اسکا ایک ترجمہ محترم ذکی
    کرمانی صاحب نے بھی کیا ہےاور بہت خوب کیا ہے ۔تم نے اپنے تبصرہ میں اس ناول کے مرکزی کردار کے اہم رول اور مرکزی عنوان کو جس جامعیت سے قلمبند کیا بہت بہترین ۔۔خدا کرے زور قلم اور زیادہ ۔۔آمین

    Reply
    • سلمان اشہر خان

      ماشاءاللہ بہت ہی بہترین۔۔۔

      اللہ کرے ذورقلم اور زیادہ۔۔۔آمین

      Reply
      • Madiha

        JazakAllah khair????

        Reply
  4. Ammara Khan

    ????MaShaAllah behtareen

    Reply
  5. Salma Mohd Hussain Shaikh

    ????Mashaallah bohot khub

    Reply
  6. انشاء

    ماشاءاللہ پیاری مدیحہ۔۔۔بہت خوبصورت اور جامع تبصرہ یارم ♡
    بہت اختصار کے ساتھ اور بہترین طرز تحریر کے ساتھ بلاشبہ عمدہ کاوش! کردار کی باریکیوں کو جس طرح لکھا ہے واللہ بہت اعلٰی۔ خدا کرے زور قلم اور ذیادہ ♡

    Reply
    • مدیحہ

      شکریہ یارم ❤️

      Reply
  7. Inshirah fatma

    Mashallah Bohot khoob ????

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے