جولائی ۲۰۲۴

2024 ءکے انتخابات ملک کی سیاسی تاریخ میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔ ان انتخابات اور ان کے نتائج نے کئی طرح کے مفروضوں کو توڑا ہے، بہت سے بتوں کو پاش پاش کیا ہے، امید کی بہت ساری مشعلیں روشن کی ہیں اور مستقبل کے لیے متعدد اسباق سکھائے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے اس دوران سیاست کی نئی راہیں کھو جی ہیں۔ منفرد تجربات کیے ہیں۔ ان کے سیاسی شعور نے ترقی کی نئی جست لگائی ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ان نتائج کا گہرائی سے تجزیہ کیا جائے۔ ان کی بنیاد پر ہندوستان کے عوام اور یہاں کے مختلف طبقات کے سیاسی مزاج کو سمجھا جائے اور انتخابات کے جو اسباق ابھر کر سامنے آئے ہیں ان کی اساس پر ملت کے طویل المیعاد سیاسی رویوں اور سیاسی حکمت عملی کا تعین کیا جائے۔ ذیل کی سطروں میں اس موضوع پر کچھ معروضات پیش کی جارہی ہیں۔ امید ہے کہ قارئین اس بحث کو آگے بڑھائیں گے۔

نتائج پر ایک نظر

تائج کا کوئی مکمل اور تفصیلی تجزیہ اس وقت ہمارے پیش نظر نہیں ہے۔ تجزیے برابر شائع ہو رہے ہیں۔ کچھ رپورٹیں بھی آچکی ہیں۔ یہ سلسلہ کئی مہینوں تک جاری رہے گا،البتہ آگے جو بحث ہمارے پیش نظر ہے، اس کے لیے نتائج سے متعلق کچھ اہم حقائق کا اعادہ اور اس پر توجہ ضروری ہے۔
پورے ملک میں مجموعی طور پر بی جے پی کی 63 نشستیں کم ہوئی ہیں (303 سے 240) اور متحدہ جمہوری محاذ (این ڈی اے – NDA) کو 55 نشستوں کا نقصان (348 سے 293) ہوا ہے۔ بی جے پی کو مکمل اکثریت حاصل نہیں ہوئی ہے ،لیکن متحدہ جمہوری محاذ کے شراکت داروں کے ساتھ آسانی سے اس کی حکومت قائم ہوگئی ہے۔ بظاہر تیسری میعاد میں یہ کوئی بڑی ناکامی نہیں ہے، لیکن جب علاقائی بنیادوں پر گہرائی سے تجزیہ کیا جاتا ہے تو یہ ظاہری تاثر رفع ہو جاتا ہے۔
روایتی طور پر شمالی اور مغربی ہندوستان بی جے پی کی قوت کے اصل مراکز رہے ہیں۔ گذشتہ دو انتخابات میں یہاں کی اکثر نشستوں پر بی جے پی نے کام یابی حاصل کی تھی۔ بعض ریاستوں میں تو صد فی صد نشستیں حاصل کی تھیں۔ اس دفعہ ان دونوں علاقوں میں اسے بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہاں اس کی 67 نشستیں یعنی تقریباً تیس فیصدفی صد نشستیں کم ہوئی ہیں۔ شمالی ہندوستان میں اس کے دونوںعلاقوں میں تقریباً چھ فی صد کی اور مغربی ہندوستان میں تقریباً پندرہ فی صد کی کمی ہوئی ہے۔ اتر پردیش بی جے پی کی قوت کا اہم مرکز رہا ہے۔ یہاں اسے 29 یعنی آدھی سے کچھ کم نشستوں کا نقصان ہوا ہے۔ مرکزی کابینہ کے اتر پردیش سے تعلق رکھنے والے تقریباً پچاس فی صد وزراء کو یہاں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ خود وزیر اعظم کے ووٹوں میں بھاری گراوٹ ہوئی اور بمشکل وہ اپنی سیٹ بچا سکے۔
بی جے پی اپنی حکومت بچا پائی تو محض اس وجہ سے کہ اس نے ان انتخابات میں بعض نئے علاقوں میں کام یابی حاصل کی ہے۔ آندھرا پردیش میں حلیف جماعت کی مدد سے اسے بڑی کام یابی ملی ہے۔ اوڈیشہ میں تبدیلی کی لہر کا اسے فائدہ ہوا اور تلنگانہ میں بی آر ایس کے دوٹ اپنی طرف منتقل کرنے میں اسے کام یابی ملی۔ ان تین ریاستوں میں اگر صورت حال نہیں بدلتی تو بی جے پی کے لیےحکومت بنانا ممکن نہیں ہوتا۔
انتخابات کا ایک دل چسپ پہلو یہ ہے کہ اس میں نفرت پر مبنی تقریروں کو فیصلہ کن طریقے سے عوام نے مسترد کر دیا۔ راجستھان کے بنسواڑہ میں جہاں وزیر اعظم نے گھس پیٹھیے، زیادہ بچے والے وغیرہ ناشائستہ بازاری جملوں پر مشتمل نہایت قابل اعتراض تقریر کی تھی وہاں ایک نوزائیدہ پارٹی کے گم نام امیدوار نے بی جے پی کو تقریبا ًڈھائی لاکھ ووٹوں سے شکست دے دی۔ اسی طرح گھوسی( اتر پردیش)، نندوربار( مہاراشٹر)، ٹونک (راجستھان)، متھرا پور( مغربی بنگال)، پاٹلی پتر( بہار) ، بارہ بنکی( اتر پردیش) اور دمکا (جھار کھنڈ)؛ ان سب مقامات پر مختلف نفرت انگیز بیانات وزیر اعظم کی تقریروں میں کھلے طور پائے گئے اور ان سب جگہوں پر بی جے پی کو شکست ہوئی۔

سیاست اور سیاسی شعور

نتائج سے قبل بعض حلقوں کی جانب سے بی جے پی حکومت کی مکمل شکست کی پیشین گوئی بھی کی جاتی رہی۔ اس لیے جو نتائج آئے وہ بعض لوگوں کے لیے بہت زیادہ امید افزا نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں بھی ان نتائج کو لے کر کہیں کہیں مایوسی نظر آتی ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ان نتائج سے مسلمانوں اور ملک کے انصاف پسند عوام کو بعض دھچکےبھی لگے ہیں۔ ان پر بھی ہم آگے تبصرہ کریں گے، لیکن ہمارا خیال ہے کہ بحیثیت مجموعی یہ نتائج حوصلہ افزا ہیں۔
ان نتائج کے حوصلہ افزا پہلوؤں کے درست ادراک کے لیے کچھ باتوں کو اچھی طرح سمجھنا ضروری ہے۔ سیاسی محاذ پر ہندوستانی مسلمانوں کے آگے بڑھنے اور اپنی سیاسی بے وزنی دور کرنے کے لیے سیاسیات کی دو بڑی اہم اور اساسی باتوں کا گہرا شعور بہت اہم ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ ان باتوں کا گہرا اجتماعی شعور ہی اصلاً سیاسی شعور ہے اور اس شعور سے محرومی ہی ہمارے بہت سے سیاسی مسائل کی جڑ ہے۔
-1سیاست، سیاسی عمل اور سیاسی قوت کس چیز کا نام ہے؟ عام لوگوں میں یہ غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سیاسی قوت اصلاً اقتدار کے ایوانوں میں اپنے گروہ کے لوگوں یعنی مسلمانوں کی زیادہ سے زیادہ موجود گی کا نام ہے۔ چناں چہ اس تصور کے مطابق سیاسی محمل صرف اپنے پسندیدہ امید واروں اور جماعتوں کو کام یاب کرنے کی کوششوں تک محدود ہو جاتا ہے۔ یہ بہت علمی خیال ہے۔ نمائندگی بے شک اہم اور ضروری ہے اور یہ سیاسی قوت اور سیاسی اثر کا ایک اہم وسیلہ بھی ہو سکتی ہے، لیکن بھی اصل سیاسی قوت ہر گز نہیں ہے۔ ماہرین سیاسیات سیاسی قوت کی تعریف اس طرح بیان کرتے ہیں کہ سیاسی قوت پبلک پالیسی یعنی ریاست کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت کا نام ہے۔ مشہور امریکی ماہر سیاسیات ہیرولڈ لیس ویل ( 1978-1902 Harold Lasswell) کی ایک کتاب کا عنوان ہی یہ ہے:
“Politics: Who Gets What, When, How”
ریاست ملک کے عوام پر قدرت رکھتی ہے اور ان کے مفادات پر اور مفادات کی تکمیل کے لیے درکار وسائل پر کنٹرول رکھتی ہے۔ ریاست کی پالیسی کو اس طرح متاثر کرنا کہ جو آپ چاہتے ہیں ریاست وہ کرنے لگے، پالیسی ایسی بنائے جو آپ کے مفادات کی تکمیل کرنے والی یا آپ کے نقطۂ نظر سے قریب تر ہو، یہی اصل میں سیاسی قوت ہے اور یہی سیاسی عمل کا اصل مقصد ہے۔
یہ قوت جدید جمہوری ریاستوں میں بہت سے پیچیدہ عوامل پر منحصر ہوتی ہے۔ ان میں ایک کردار منتخب جمہوری نمائندوں کا بھی ہوتا ہے، لیکن ان کے علاوہ رائے عامہ ، میڈیا، پبلک ڈسکورس اور اس پر کنٹرول، معاشی قوت، افکار و خیالات کی کشش، دوسرے گروہوں سے تال میل اور ان سے مصالحت کی صلاحیت وغیر ہ متعد د عوامل اس قوت کی تشکیل میں کردار ادا کرتے ہیں۔ ان میں سب سے اہم رائے عامہ کا عامل ہے ۔ جدید جمہوری ریاستوں میں رائے عامہ پالیسی سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ اس لیے پالیسیوں پر اثر انداز ہونے کے لیے ضروری ہوتاہے کہ ان کے سلسلے میں رائے عامہ بیدار کی جائے اور اس پر اثر انداز ہوا جائے۔ اس لیے بعض لوگوں نے سیاسی عمل کی یہ تعریف بھی بیان کی ہے کہ یہ رائے عامہ پر اثر اندازی کا نام ہے۔
-2سیاسی عمل عملیت پسندی (pragmatism)،حقیقت پسندی (realism) اور تدریج پسندی (gradualism) کا تقاضا کرتا ہے۔ جرمن ماہر سیاسیات بسمارک(Otto Von Bismarck 1898-1815)کا یہ مقولہ سیاسیات کی کتابوں میں کثرت سے نقل کیا جاتا ہے کہ :

 “Politics is the art of the possible, the attainable the art of the next host,”

یعنی سیاست، خوابوں کی دنیا میں رہنے، نا ممکنات کی خواہش رکھنے اور ان کا تعاقب کرنےاور پھر نا کامی پر روتے دھوتے رہنے کا نام نہیں ہے ،بلکہ ممکنات پر ارتکاز کا نام ہے۔ جو حالات در پیش ہیں ان میں فی الحال جو ممکن ہے، اسے حاصل کرنا، ریاست کی پالیسی کو جس قدر بھی متاثر کر نا ممکن ہو متاثر کرنا، جو قدرے بہتر صورت ممکن ہو اسے رو بہ کار لانا اور تدریج کے ساتھ ، جزو بہ جزوآئیڈیل کی طرف پیش رفت کرنا، یہی سیاست ہے۔
یہ تصور اہل اسلام کے لیے کوئی نیا تصور نہیں ہے۔ علامہ ابن قیم کی شرعی سیاست کی مشہور زمانہ تعریف، جو انھوں نے ابن عقیل کے حوالے سے بیان کی ہے،یہ ہے:

 السياسة ما كان من الافعال بحيث يكون الناس معه أقرب إلى الصلاح وأبعد عن الفساد

 (سیاست وہ عمل ہے جس کے ہوتے عوام فلاح و خیر سے قریب تر اور شروفساد سے بعید تر ہو جائیں۔ )
اس تعریف میں بھی سیاست کا ایک بہت ہی عملی تصور پوشیدہ ہے۔ ایسی کوشش جس کے نتیجے میں صورت حال میں ممکن بہتری آجائے، عوام کو نسبتاً زیادہ سہولت اور ریلیف میسر آجائے، خیر و صلاح سے ممکن حد تک قربت ہو جائے اور شر و فساد جتنا کچھ دور ہو سکتا ہودور ہو جائے۔ یہی سیاسی عمل ہے اور یہی سیاسی عمل کا مقصد ہے۔
2024 ءکے انتخابات کا سب سے امید افزا پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے، خصوصاً شمالی اور مغربی ہندوستان کے مسلمانوں نے ہمیشہ کے مقابلے میں زیادہ بہتر سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا ہے۔ یہ بات محسوس ہو رہی ہے کہ حالات نے ان کے اندر وہ سیاسی بالیدگی پیدا کر نا شروع کر دی ہے جو کام سیاسی عمل کے لیے ضروری ہے۔ جذبات اور اشتعالات کے سرکش گھوڑے پر لگام کے رکھنے کا فن انھوں نے سیکھنا شروع کر دیا ہے۔ پالیسی پر اثر اندازی کے وسیع تر وژن پر توجہ دینے اور اس کے لیے تنگ نظر وقتی مفادات کو قربان کرنے کی صلاحیت ان کے اندر پروان چڑھنے لگی ہے۔ ملک کے احوال کو بہتر بنانے کے ليے يا أقرب الى الصلاح وأبعد عن الفساد پیش رفت کے لیے اپنے زبان و بیان، رد عمل اور اجتماعی رویوں پر قابو رکھنے کی جس صلاحیت کا مظاہرہ مسلمانوں کی طرف سےہوا ہے، وہ بڑا امید افزا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے شر کے بطن سے پیدا ہونے والا یہ بہت بڑا خیر ہے۔ اگراسی رخ پر مسلمان سیاسی عمل میں آگے بڑھیں گے تو ان شاء اللہ یہ حالات ان کے سیاسی مستقبل کوتاب ناک بنانے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔

2024 ءکے انتخابات میں کیا حاصل ہوا ہے؟

ان انتخابات میں کچھ حاصل ہوا ہے یا نہیں؟ یا حاصل ہوا ہے تو کیا ہوا ہے؟ اس سوال کے جواب کے لیے یہ بات واضح رہنا ضروری ہے کہ اس دفعہ سیاسی محاذ پر کیا ہدف ممکن الحصول تھا؟ کیا حاصل کرنا پیش نظر تھا؟ یا بسمارک کے محولہ بالا مقولے کے حوالے سے اگلی بہتر ممکنہ صورت حال (The Attainable Next Best) کیا تھی؟ یا امام ابن قیم کی زبان میں اقرب الی الصلاح وأبعد عن الفساد کا اہم ترین ممکن مظہر کیا ہو سکتا تھا؟ اس سوال کا جواب یہی ہو سکتا ہے کہ نفرت اور فرقہ پرستی کی صورت حال میں کمی، فرقہ پرست جذباتی ایجنڈے کے بجائے ترقی دعوامی بہبود کےایجنڈے کی طرف عوام کی توجہ اور ترجیح؛ یہی مطلوب و مقصود تھا۔
حالیہ انتخابات میں سب سے اہم واقعہ یہی ہوا ہے کہ اس مطلوب صورت حال کی طرف ٹھوس پیش رفت میں مدد ملی ہے۔ عوام نے باوجو د حکمراں جماعت کی ہزار کوشش کے، جذباتی فرقہ پرست اور نفرت انگیز ایجنڈے کو قبول نہیں کیا ہے۔ یہ سمجھا جارہا تھا کہ اس دفعہ رام مند رسب سے بڑا انتخابی موضوع بنے گا۔ حکمراں جماعت کو امید تھی کہ وہ اس کے سہارے اب تک کی سب سے بڑی کام یابی ملک میں حاصل کرے گی، لیکن خود ایودھیا کی نشست میں بی جے پی کو شرم ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ نہ صرف ایودھیا میں بلکہ ایودھیا سے متصل تمام نشستوں میں انڈیا الائنس کو کام یابی ملی ہے۔ یعنی لال گنج، سلطان پور ، اعظم گڑھ ، سنت کبیر نگر ، امبیڈ کر نگر میں سماج وادی پارٹی کے اور رائے بریلی اور بار ہ بنکی میں کانگریس کے امیدوار جیتے ہیں۔ بنارس میں گیان واپی مسجد کا تنازع گرم کرنے کی مسلسل کوشش ہوتی رہی۔ یہاں خود وزیر اعظم امید وار تھے اور انھیں ڈیڑھ لاکھ ووٹوں سے بمشکل کام یابی مل سکی۔ اس کے اطراف و اکناف میں بھی الٰہ آباد ، چند ولی اور رابرٹس گنج کی نشستیں کا نگریس اور سماج وادی پارٹی نے بی جے پی سے چھین لی ہیں۔ مسجد مندر تنازعات کی تیسری اہم جگہ متھرا تھی۔ یہاں اگر چہ بی جے پی کی ہیما مالنی جیت گئی ہیں لیکن ان کےووٹوں میں تقریباً آٹھ فی صد کی گراوٹ ہوئی ہے، جب کہ پڑوسی ایٹا کی نشست سماج وادی پارٹی نے چھین لی ہے۔
مسجد مندر کی سیاست ہی نہیں ،بلکہ فرقہ پرستانہ زہر اور نفرت کی سیاست کی تمام قسموں کا سب سے بڑا مرکز اتر پردیش ہی رہا ہے۔ بلڈوزر سیاست کا آغاز یہیں سے ہوا اور سب سے زیادہ مسلمان گھروں پر بلڈوزر یہیں چلے ۔ سی اے اے احتجاجیوں پر سب سے زیادہ مظالم یہیں ہوئے، یہاں تک کہ کئی لوگ شہید کر دیئے گئے۔ نفرت انگیز بیانات کا ایک طویل سلسلہ یہاں چلتار با، عتیق احمد اور مختار انصاری وغیرہ کے قتل یا مشتبہ موت کے واقعات یہیں ہوئے۔ ان سب کے باوجود اتر پردیش میں بی جے پی کے ووٹوں کے تناسب میں گراوٹ ہوئی اور 29 نشستیں کم ہو گئیں۔
فرقہ پرستی کی سیاست میں مہاراشٹر کا بھی بڑا اہم تاریخی رول رہا ہے۔ سنگھ کا مرکز یہیں واقع ہے۔ یہی زمین اس تحریک کی جنم بھومی ہے۔ اس کے اہم نظریہ ساز اور ہیرو یہیں سے متعلق رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں شیو سینا کو بھی فرقہ پرست سیاست کا اہم حصّہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہ مانا جاتا رہا کہ اسے ملنے والی عوامی تائید اس کے ہندتو نظریے کی وجہ سے تھی ۔ جب یہاں شیوسینا نے این ڈی اے سے علیٰحد گی اختیار کی اور کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت بنائی تو یہ باور کرایا جاتا رہا کہ اس نے اپنے فکر و نظریے سے بغاوت کی ہے۔ یہ بھی پیشین گوئی کی جاتی رہی کہ اس کا اسے شدید نقصان اٹھانا پڑے گا۔ بعد میں دھونس، دھاندلی اور لالچ کے ذریعے جب شیوسینا کو توڑا گیا تو اس غیر اخلاقی عمل کو بھی ہند تو کے عظیم کاز کی خاطر کی جانے والی ضروری کار روائی قرار دیا گیا۔ مہاراشٹر کے انتخابی نتائج نے اس ساری رومانیت کا قلعہ مسمار کر دیا ہے۔ عوام نے فرقہ پرستی کے خیمے میں لوٹ آنے والی شیو سینا کو مسترد کر دیا۔ این سی پی کے اُس دھڑے کو بھی خاک چٹادی جس نےاین ڈی اے کے ساتھ مل کر حکومت سازی کی تھی۔
ان انتخابات میں اس قسم کے متعدد اشارے موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ عوام کی سوچ میں بڑی تبدیلی واقع ہو رہی ہے، اور انھوں نے جذباتی فرقہ پرست ایشوز کے مقابلے میں ترقی روزگار ، اور گورننس سے متعلق حقیقی مسائل کو اہمیت دینا شروع کر دیا ہے۔ جوڑ توڑ کی سیاست، ای ڈی اور سی بی آئی کے ذریعے پارٹیوں اور لیڈروں پر دباؤ اور اس کے ذریعے انھیں توڑنے اور اپنی تائید پر مجبور کرنے کے قبیح مجرمانہ رجحان پر یہ عوام کے غیظ و غضب کا کھلا اظہار ہے۔ یقینا ًیہ تبدیلی مکمل نہیں ہے۔ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ عوام نے فرقہ پرست ایجنڈے کو مکمل طور پر ترک کر دیا ہے۔ انھیں دوبارہ اس کی طرف ڈھکیلا بھی جاسکتا ہے، لیکن ان انتخابات میں ایک مثبت ابتدا ہوئی ہے اور اس رخ پر کوشش ہو تو آئندہ صورت حال اور بہتر ہو سکتی ہے۔ رائے اور رجحان میں اس تبدیلی کا اثر ضرور پالیسی سازی اور حکومت کی ترجیحات پر بھی پڑے گا۔

ان نتائج کے اہم اسباق

-1 ان نتائج کا پہلا سبق یہ ہے کہ کوئی سیاسی طاقت، کوئی جماعت اور کوئی لیڈر ناقابل شکست (Invincible) نہیں ہے۔ مطلوب کوشش اور سنجیدہ محنت کی جائے تو ملک کو نفرت و فرقہ پرستی کی آندھی سے بچایا جا سکتا ہے۔ حالات کی سختی، حکمرانوں کی ہر چیز پر گرفت اور ان کو ملنے والی مسلسل کام یابیوں نے اور پھر غیر سنجیدہ جذباتی صحافت اور قنوطیت پسند ماتمی خطابت نے تاریک مستقبل کی جو بھیانک تصویر تشکیل دے دی تھی، ان نتائج نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وہ ایک غیر حقیقی مبالغہ آمیز تصویر تھی۔ ہم مسلسل یہ واضح کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں کہ حالات کی یہ منظر کشی ہندوستان کی سماجی و سیاسی حقیقتوں کے درست تجزیے پر مبنی نہیں ہے۔ فرقہ پرستی اس ملک میں ایک تیز رفتار آندھی کے مانند ہے جو بڑی تباہی ضرور پیدا کر سکتی ہے لیکن مستقل اور دیر پا نہیں رو سکتی۔ ان نتائج نے ہمارے اس یقین کو اور مستحکم کیا ہے کہ ہندوستانی عوام سے مایوس ہوئے بغیر مسلسل کوشش کرتے رہنے کی ضرورت ہے۔ انھیں راست مخاطب کرنے اور ان کے دلوں اور دماغوں پر خیر خواہانہ دستک دینے کی ضرورت ہے۔ یہ کام ہو تو بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے اور جلد سے جلد بدلا جا سکتا ہے۔ بہت معمولی اور حد درجہ کم زور کوششوں کے بھی جو نتائج سامنے آئے ہیں اور جس طرح شمالی ہند کی انتہائی سخت سمجھی جانے والی زمین میں تبدیلی کی کونپلوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا ہے، وہ حالات کے بارے میں ہمارے بہت سے اجتماعی خیالات پر سیریس نظر ثانی کا تقاضاکرتے ہیں۔
-2 ان نتائج کا دوسرا اہم سبق یہ ہے کہ جمہوری سیاست میں سیاسی پارٹیوں کے ساتھ سول سوسائٹی اور غیر انتخابی سیاسی سرگرمی یا عوامی سیاست(non electoral political activism OR people’s politics)کا بھی اہم اور کلیدی کردار ہے۔ اس دفعہ عوامی رجحان کو بدلنے کا کام اصلاً اسی قسم کی سرگرمیوں نے کیا ہے۔ ملک کے اکثر علاقوں میں اپوزیشن جماعتیں پوری طرح بے اثر ہو گئی تھیں۔ ان کے بڑے بڑے قائدین بھی خود اعتمادی سے محروم ہو چکے تھے اور امید کی کوئی کرن بھی دیکھ نہیں پارہے تھے۔ ڈر، خوف اور دباؤ کی کیفیت کا یہ عالم تھا کہ مسلمان کا یا مسلمانوں کے کسی مسئلے کا نام لیتے ہوئے بھی ان پر لرزہ طاری ہوتا تھا۔ راہل گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا کے استثنا کے ساتھ ، کسی بھی سطح پر حوصلہ مند سیاسی پیش قدمی کا کوئی نام و نشان ملک میں نظر نہیں آرہا تھا۔ ایسے سنگین حالات میں سول سوسائٹی اور عوامی تحریکوں نے نہ صرف عوام کے ضمیر کو جھنجوڑا بلکہ سیاسی قائدین کی کپکپاتی ٹانگوں اور کانپتے ہاتھوں کو سہارا دیا اور ان کی لڑکھڑاتی زبان کو خود اعتمادی بخشی۔ ان کے ڈوبتے دلوں کو حوصلوں کی توانائی فراہم کی۔ ان کی آنکھوں میں امید کے قمقمے روشن کیے اور مسلسل جدو جہد سے یہ صورتِ حال پیدا کر دی کہ اتر پردیش میں اکھلیش یادو نے علانیہ پی ڈی اے یاترا ( پچھڑا، دلت، الپ سنکھیک ) شروع کی یعنی پس ماندہ طبقات، دلتوں اور مسلمانوں، گویا نفرتی سیاست کے مظلوموں کو اپنی سیاسی مہم کا مرکزی موضوع بنا دیا۔ یہ بڑا جرأت مند اقدام تھا۔ چند ماہ قبل اس طرح کی مہم یا ایسے نعرے کا تصور بھی کوئی سیاست دان نہیں کر سکتا تھا۔ نتائج سے معلوم ہوا کہ ان کی یہ پیش قدمی بہت کام یاب رہی اور انھیں لوک سبھا کی 37 نشستیں مل گئیں جو سماج وادی پارٹی کی تاریخ میں اب تک کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ سیکولر جماعتوں کے سنہرےدور میں اور پارٹی کے بانی ملائم سنگھ کی زندگی میں بھی کبھی سماجوادی پارٹی کو اتنی بڑی کام یابی نہیں ملی تھی۔ اس سے یہ وہم بھی ختم ہو گیا کہ مسلمانوں کا نام لینے یا ان کے مفاد کی بات کرنے سے شمالی ہند میں سیاسی نقصان ہوتا ہے۔
مسلمانوں نے قریبی ماضی میں سول سوسائٹی جہد کاری (Civil Society Activism) پر بہت کم توجہ دی ہے۔ حالاں کہ اس نوعیت کی جہد کاری کا مسلمانوں کو طویل تجربہ ہے۔ خلافت تحریک اور آزادی کی تحریک میں مسلمانوں نے بڑے قد آور جہد کار پیدا کیے تھے۔ جے پی موومنٹ، لوہیا موومنٹ، در اور موومنٹ وغیرہ میں بھی مسلمانوں کا نمایاں کردار رہا ہے، لیکن حالیہ عرصے میں یہ سر گرمی یا توسست ہو چکی تھی یا صرف ان مسائل تک محدود ہو چکی تھی جن کا صرف مسلمانوں سے تعلق تھا۔ 2024 ءکے انتخابات نے اس جہد کاری کے احیا ءکی راہیں ہم وار کی ہیں۔
ہندوستان کے موجودہ احوال میں مسلمانوں کے لیے خاموش سول سوسائٹی ایکٹیوزم سیاسی تمکین کا اہم ترین راستہ ہے۔ اس میں ان کے لیے بھر پور مواقع بھی ہیں اور مطلوب کی طرف یا اگلی بہتر ممکنہ صورت حال (The Attainable Next Best) کی طرف پیش قدمی میں اس وقت یہی کارگر اور ثمر آور ذریعہ ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ ہر سطح پر اس کی اہمیت کا شعور عام ہو اور جہد کاری کا بڑے پیمانے پر احیاءہو ۔ گاؤں گاؤں اور شہروں کی گلی گلی میں نوجوان پولیٹیکل ایکٹیوسٹ تیار ہوں اور وہ سول سوسائٹی تنظیموں سے مناسب تال میل کے ساتھ حقیقی عوامی مسائل پر جد و جہد کرتے رہیں۔ اس سے باصلاحیت ، با اعتماد اور حوصلہ مند سیاسی قیادت زمینی سطح پر تیار ہو گی اور بہتر سیاسی مستقبل کی راہیں ہم وار کرے گی۔
3۔ ان نتائج کا تیسرا اہم سبق یہ ہے کہ رائے عامہ اور عوامی رجحان کی تبدیلی کے لیے مسلمانوں کے اپنے رویوں کا بھی اہم کردار ہوتا ہے۔ یہ عام مشاہد ہ ہے کہ دو فریقوں کی سنگین نوعیت کی تلخ بحث کے درمیان ایک فریق کی جانب سے وقتی خاموشی یا نظر انداز کرنے کا رویہ جدال کی سنگینی کو کم کرتا ہے اور فریق مخالف کے جذباتی ابال کو ٹھنڈا کر کے اسے سنجیدہ احتساب اور ندامت کی طرف بھی مائل کر سکتا ہے، لیکن اگر دونوں طرف سے غیظ و غضب کی پوری شدت کے ساتھ بحث ہوتی رہے تو حقیقت کی طرف سنجیدگی سے متوجہ ہونے کا موقع کسی کو نہیں ملتا اور یہ لڑائی خیالات کی لڑائی نہیں رہ جاتی، بلکہ انا اور جذبات کی لڑائی بن جاتی ہے۔ اس طرح کے جدال سے کبھی کسی کی رائے نہیں بدلتی۔ ٹھیک اسی طرح فرقہ وارانہ جذبات سے مشتعل ماحول کو ٹھنڈا کرنے کے لیے کئی دفعہ اپنی شکایتوں، غم و غصے اور احتجاج و ناراضی کے اظہار کو وقتی طور پر مؤخر کرنا پڑتا ہے۔غلط سوچ اور غلط رائے اگر عام ہو گئی ہو تو اس کی اصلاح کے لیے اپنے رویوں کو بھی نیا روپ دینا پڑتا ہے۔ اپنے جائز حقوق کو حاصل کرنے کے لیے مناسب وقت کے انتظار میں بھی حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے۔ آپ کی سچی بات، جائز شکایت اور مبنی بر حق احتجاج کے بھی ، کیا غلط معنی نکالے جاسکتے ہیں ؟اور عوامی رائے پر اس کا کیا اثر پڑ سکتا ہے؟ اس کا اندازہ کرنا اور اس کے لحاظ سے اپنے زبان و بیان اور عمل و اقدام کی مناسب تشکیل کرنا ضروری ہو جاتا ہے۔ اگلی بہتر ممکنہ صورت حال(The Attainable Next Best)کو حاصل کرنے کے لیے آئیڈیل صورت حال اور اپنی مکمل آرزوؤں اور تمناؤں سے وقتی طور پر دست برداری قبول کرنی پڑتی ہے۔ یہی عملیت پسندسیاست (Pragmatic politics) ہے اور سیاسی بالیدگی کی بھی علامت ہے۔
واضح رہے کہ یہ رویہ خوف وہر اس سے عبارت بزدلانہ تعطل کے رویے سے مختلف ہے۔ بزدلانہ تعطل ہر قسم کی سر گرمی ختم کر دیتا ہے، جب کہ عملیت پسند سیاست سر گرمی ختم نہیں کرتی، بلکہ سرگرمی کے لیے کس مرحلے میں کس ایشو کا انتخاب کیا جائے اور کس ایشو کو مؤخر کیا جائے اور کس ایشو کے لیے کیا زبان و بیان اور لہجہ استعمال کیا جائے ؟ اس کے صحیح فیصلے کی توفیق دیتی ہے۔
ہندوستان کی مخصوص فرقہ وارانہ صورت حال میں ہر فرقے کی زیادہ توجہ اپنے فرقے کے جذبات پر ہوتی ہے۔ اپنے لوگوں کے جذبات کی تسکین ، ان کے درمیان اپنے کارناموں کی تشہیر، ان کی جانب سے تحسین و ستائش کا حصول اور ان کے ہیرو بننے کی خواہش، جذباتی تقریریں اور نعرے، وقتی مسائل پر شور ہنگامے اور مہمات، ایسے ماحول میں یہ سب فطری داعیات ہوتے ہیں لیکن مشتر کہ سماجوں میں رائے عامہ کی تبدیلی کے تقاضے بعض دفعہ ان داعیات سے متصادم ہوتے ہیں۔ ان پر قابو رکھنے کے لیے غیر معمولی قوت برداشت اور اجتماعی تحمل درکار ہوتا ہے۔ ہندوستانی مسلمانوں کو اس وقت ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ انھیں اپنوں کے علاوہ دوسروں کے بھی جذبات کا خیال رکھنا ہے۔ لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانے کے لیے ایسے ہنگاموں سے بچنا ہے جو آنکھوں پر پردہ ڈال سکتے ہوں۔
ان انتخابات میں خصوصاً شمالی ہند کے مسلمانوں نے اس شعور کا بہت اچھا مظاہرہ کیا ہے۔ اشتعال پیدا کرنے اور فرقہ وارانہ تفریق پیدا کرنے کی ہر ممکن کوشش کی گئی، لیکن مسلمانوں نے اجتماعی متانت و برد باری کا غیر معمولی مظاہرہ کرتے ہوئے ایسی ہر کوشش کو ناکام بنادیا۔ وہ تعطل کاشکار نہیں ہوئے۔ سی اے اے کے خلاف انھوں نے ایسی زبر دست تحریک چلائی کہ وہ عالمی سطح پر عوامی تحریکوں کی تاریخ میں ایک اہم تحریک سمجھی جارہی ہے۔ اس کے لیے طرح طرح کے مصائب برداشت کیے، لیکن دوسری طرف بہت سے جذباتی، مذہبی اور فرقہ وارانہ مسائل کو انھوں نے غیر معمولی صبر وضبط کے ساتھ مؤخر کر دیا، سر گرمی اور جہد کاری کے لیے سیاسی مقاصد پر نگاہ رکھتے ہوئے موضوعات کا انتخاب کیا۔ عام ہندوؤں کی فرقہ وارانہ حمیت کو اپنے رویوں سے مشتعل ہو جانےکا کوئی ایک موقع بھی نہیں دیا۔
سیاسی شعور کی ایک علامت کے طور پر سیاسیات کے لٹریچر میں یہ مقولہ بھی مشہور ہے کہ :

“You cannot win If you throw yourself in every battle. Choose your bettles wisely and pick the prosand on which to fight them”

(اگر ہر لڑائی میں خود کو جھونکو گے تو کبھی جیت نہیں سکو گے۔ دانش مندی کے ساتھ لڑائی کا انتخاب کرو اور لڑائی کا میدان بھی حکمت کے ساتھ خود طے کرو۔)
یہ حقیقت ہے کہ اس حکمت پر شمالی ہند کے مسلمانوں نے جس صبر و ضبط کے ساتھ عمل کیا ہے اس کی نظیر ان کی تاریخ میں مشکل ہی سے ملے گی۔ مسلمان ایسا نہیں کرتے تو یہ نتائج ہر گز نہیں آسکتے تھے۔ لوگوں کو اپنے خیالات پر نظر ثانی کرنے کا یہ موقع ہرگز نہیں مل پاتا۔ مذہبی و فرقہ وارانہ جذبات کے مقابلے میں گورننس اور ڈیولپمنٹ کے حقیقی مسائل کی طرف متوجہ ہونا ان کے لیے ممکن ہی نہیں ہو پاتا۔ جذباتیت زدہ خیالات ہمیشہ سنجیدہ اور غیر جذباتی ماحول ہی میں بدل سکتے ہیں۔ فرقہ پرست قوتوں کی پوری کوشش تھی کہ ایسا سنجید و غیر جذباتی ماحول پیدا نہ ہونے پائے، لیکن ایسا ماحول پیدا ہوا اور اس کی پرورش کے لیے ایک بڑا عامل جس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے ،وہ مسلمانوں کا یک طرفہ سنجیدہ اور حکیمانہ رویہ ہے۔ پورے ملک کو اس کے لیے ان کا شکر گزار ہونا چاہیے۔
ان انتخابات کا یہ اہم سبق ہمیں بھولنا نہیں چاہیے اور آئندہ بھی روایتی جذباتی سیاست کےبجائے اسی دانش مندانہ سیاست کو آگے بڑھانا چاہیے۔
اب جب کہ فرقہ پرست قوتیں جنوبی ہند میں بھی تیزی سے فروغ پارہی ہیں بلکہ موجودہ انتخابات میں ان کو جو بھی کام یابی ملی ہے، وہ جنوبی ہند ہی میں ملی ہے۔ اوڈیشہ اور جنوبی ہند میں ملنے والی کام یابی ہی نے ان کی حکومت بچائی ہے۔ مسلمانوں کی، ان کی صحافت اور اہل دانش کی، اور سول سوسائٹی کی بھی اس دفعہ سب سے بڑی ناکامی یہی رہی کہ جنوبی ہند اور اوڈیشہ کے سیاسی احوال (Undercurrents) کو وہ پوری طرح سمجھ نہیں سکے اور اس کی صحیح پیش بندی نہیں کر سکے۔ اندیشہ ہے کہ آئندہ یہ کام یابیاں جنوب میں مزید مستحکم ہوسکتی ہیں۔ تجزیہ نگاروں کے اندیشے درست ہو جائیں تو تلنگانہ اور تمل ناڈو میں بی جے پی کی حکومتیں بظاہر زیادہ دور نہیں ہیں اور کیرلہ میں بنگال جیسی صورت حال کا فروغ اور آندھرا پردیش میں اوڈیشہ جیسے حالات کا پیدا ہو جانا بھی مستقبل قریب میں عین ممکن ہے۔ اس پس منظر میں جنوب کے مسلمانوں کو بھی یہ سبق سیکھنا چاہیے اور زیادہ بردباری و تحمل کے ساتھ عوامی رائے اور رجحان کی تبدیلی کے مقصد پر نظر رکھ کر اپنی جدوجہد اورکوششوں کا رخ طے کرنا چاہیے۔
-4 ان صفحات میں ہم تفصیل سے یہ بحث بھی کر چکے ہیں کہ مسلمانوں کی تمکین و ترقی کی جہاں ایک اہم ضرورت یہ ہے کہ وہ اسلامی فکر اور اسلامی نصب العین کی اساس پر متحد ہو کر جسد واحد بن جائیں ،وہیں ایک اہم ضرورت یہ بھی ہے کہ عام غیر مسلموں سے ان کے تعلقات مستحکم ہوں۔ فرقہ پرست طاقتیں ان کو عام سماج سے کاٹنا چاہتی ہیں۔ مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اس پروجیکٹ کو کام یاب ہونے نہ دیں اور ہر سطح پر مستحکم سماجی تعلقات قائم کرنے کی طاقت ور مہم چلائیں۔ یہ جہاں ان کی ملکی اور منصبی و مقصدی ذمہ داری ہے وہیں ان کی تمکین و ترقی کی ایک لازمی ضرورت بھی ہے۔ اس کے لیے موجودہ ملکی رجحان کو موڑنے کی کوشش کر نا ہندوستانی مسلمانوں کی ایک اہم ضرورت بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ یہ کوشش ہر محاذ پر مطلوب ہے اور سب سے زیادہ سیاسی محاذ پر مطلوب ہے۔ یہ ضروری ہے کہ مسلمان دوسرے فرقوں کے ساتھ مل کر ، ان کے ساتھ تال میل کرتے ہوئے سیاسی جدو جہد کا رجحان پیدا کریں۔ اس سلسلے میں ہماری طویل غفلت اس صورت حال کا ایک سبب بنی تھی کہ فرقہ پرست طاقتوں نے دلتوں، کم زور طبقات اور اقلیتوں میں بھی نفوذ کر لیا تھا۔ 2014 ءاور 2019 ءمیں ان طاقتوں کی بڑی کام یابیوں کا اہم سبب ان پچھڑے طبقات سے ملنے والی غیر معمولی تائید ہی تھا۔ اس دفعہ کے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک عارضی صورت حال تھی اور اب دوبارہ یہ طبقات فرقہ پرست استحصالی طاقتوں کے چنگل سے باہر آنےلگے ہیں۔ سی ایس ڈی ایس ۔ لوک نیتی کے مابعد انتخابات سروے کے مطابق 2019 ءکے مقابلے میں پورے ملک میں بی جے پی کے دلت ووٹوں میں تقریباً تین فی صد کی کمی واقع ہوئی ہے۔ او بی سی کے ووٹ بھی کم ہوئے ہیں۔ شمالی ہند میں یہ کمی اور زیادہ ہے۔ مایا وتی سے شفٹ ہونے والے دلت ووٹوں کو دوبارہ فرقہ پرست قوتوں کی طرف مائل کرنے کی منصوبہ بند کوششیں ہو سکتی ہیں۔ اس لیے ان کے ساتھ بہتر تال میل اور ان کا اعتماد جیتنے کی کوششیں ضروری ہیں۔
ملک کی کئی ریاستوں میں مختلف مذاہب کے ماننے والے لوگ سول سوسائٹی کے تحت مشترکہ جد و جہد کے لیے آگے آئے ۔مینی پور کے واقعات کے بعد عیسائی تنظیموں نے بہت سر گرم کوششیں کیں اور اس کے نتیجے میں شمال مشرق میں بی جے پی اور این ڈی اے کی نشستوں میں واضح کمی واقع ہوئی۔ لیکن دوسری طرفی صدف کیرالہ اور بعض دیگر ریاستوں میں عیسائیوں کا بی جے پی کی طرف جھکاؤ بھی بڑھا ہے، بلکہ سی ایس ڈی ایس کے سروے کے مطابق مذہبی گروہوں میں صرف عیسائی ہی وہ واحد گروہ ہے جس کا پہلے کے مقابلے میں بی جے پی کو ووٹ بڑھا ہے۔ اس بات کی ضرورت ہے کہ مختلف مذہبی گروہوں سے بھی تال میل بڑھے اور کیرالہ جیسی ریاستوں میں جس طرح مختلف مذہبی گروہوں میں اسلاموفوبیا کے فروغ کی کوششیں ہو رہی ہیں ان کو کام یاب ہونےنہ دیا جائے۔
5۔ اس سلسلے کی آخری بات یہ ہے کہ ہندوستان میں مسلم سیاست کا سب سے بڑا مسئلہ واضح سیاسی وژن کے فقدان کا مسئلہ ہے۔ ایک ماہرسیاسیات کا یہ مقولہ بھی اس سے قبل ہم نقل کر چکے ہیں کہ:
’’سیاست در اصل تبدیلی ہی کا نام ہے۔ سیاسی افکار کا مقصد ہی یہ ہونا چاہیے کہ وہ ہم ( تبدیلی کے کسی وژن پر ) مجتمع کریں اور یہ یقین پیدا کریں کہ ہم اپنا مستقبل خودکو تشکیل دے سکتے ہیں۔ سیاسی وژن نہ ہو تو ہم محض حالات کے دھارے میں اپنےبہاؤ کے تماشائی بن کر رہ جاتے ہیں۔‘‘
سیاسی وژن کا مطلب محض قبرستان، مسجد ، شادی خانے ، اردو ہال، حج کی سبسڈی وغیرہ کے گرد گھومنے والے مطالبات کی سطحی فہرست نہیں ہے اور نہ محض مسلمانوں کی تعلیمی و سماجی ترقی تک یہ وژن محدود ہو سکتا ہے۔ اس کا مطلب تو وہ خواب ہے جو مسلمان اپنے اصولوں اور اپنے دین کی عدل پسند تعلیمات کی روشنی میں پورے ملک کے لیے اور ملک کے تمام عوام کے لیے دیکھتے ہیں۔ وہ پالیسیاں اور وہ ایجنڈا ہے جس کے نتیجے میں پورا ملک اور ملک کے تمام عوام کی أقرب الی الصلاح و أبعد عن الفساد پیش رفت ہو سکتی ہے۔ ایسی پالیسیاں اور ایسا واضح ایجنڈا ہی سول سوسائٹی سرگرمی کا مستقل عنوان بن سکتا ہے۔ اس کی اساس پر سیاسی جماعتوں کے ساتھ گفت و شنید اور مصالحت ہو سکتی ہے۔ اس کی بنیاد پر تائید و حمایت یا مخالفت کے فیصلے ہو سکتے ہیں۔ ایسا مستقل پروگرام سیاسی عمل کو صرف انتخابات کے زمانے تک محدود نہیں کرتا ،بلکہ سال کے بارہ مہینے مسلسل چلاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مسلمان دوسرے سماجی گروہوں سے جڑتے ہیں۔ ان کی قیادت کرنا بھی ان کے لیے ممکن ہو جاتا ہے۔ ان کا سیاسی اثر صرف اپنی عددی قوت تک محدود نہیں رہتا۔ وہ عوام کے بڑے حصے سے اپنی سیاسی قوت کشید کر سکتے ہیں۔
( یہ ایجنڈا کیا ہو؟ اس سوال کا جواب ہم اپنی کتاب ’’ہند تو انتہا پسندی: نظریاتی کشمکش اور مسلمان‘‘ میں تفصیل سےدے چکے ہیں۔)
ہمار اخیال ہے کہ ان انتخابات میں بھی مسلمان ایسا ٹھوس سیاسی وژن تشکیل نہیں دے سکے، لیکن اس کی راہیں اس دفعہ ضرور ہم وار ہوئی ہیں۔ آئندہ اس پر توجہ دیتے رہنے کی ضرورت ہے، یعنی یہ ضروری ہے کہ مسلمان ایسا سیاسی پروگرام اور ایسا نظریہ لے کر آگے آئیں جو ملک کے سارے شہریوں کے لیے ہو۔ شریعت اسلامی کے مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے تمام انسانوں کی فلاح و بہبود کا سامان اس میں موجود ہو۔ اس میں سب کے لیے عدل کی ضمانت ہو اور ہر ایک کے حقوق کی حفاظت ممکن ہو۔
بہت ضروری ہے کہ یہ ایجنڈا انتخابی عمل میں بڑے پیمانے پر زیر بحث آئے، تمام انتخابی سرگرمیوں کا اصل عنوان اور حوالہ بن جائے اور مسلمان اسلام کی تعلیمات کی روشنی میں سارےانسانوں کے مفادات کے علم بردار بن کر ابھریں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Zeba Baig

    Jazakallah khair. Buhut hi behtareen tehreer. Mukhtasar mein buhut mufeed maloomat aur asbaaq miley.

    Reply
  2. T Azeez Luthfullah

    Politics is the art of the possible, the attainable — the art of the next best

    Otto Von Bismarck 1815-1898

    You cannot win if you throw yourself in every battle. Choose your battles wisely and pick the ground on which to fight them

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے