جولائی ۲۰۲۴

آج جہاں سائنس نے اتنی ترقی کرکے دنیا کو چاند پر پہنچا دیا ہے۔نئی نئی ٹیکنالوجی، مشینری نے انسانی زندگی سہل بنادی ہے، وہیں ان کے مضر اثرات سے انسان،چرند پرند،جان دار،آبی مخلوق، زمین، فضا، ماحول سب ہی متاثر ہوئےہیں۔
آج زمین کا زیادہ درجۂ حرارت، گلیشئیر کا پگھلنا،بنجر زمین، پرندوں کی کمی،پانی کی قلت،نئی نئی بیماریاں، جلدی امراض؛ان سب کا سبب سائنس کی بےشمار ایجادات ہیں۔
درختوں کی کٹائی، بڑی بڑی فیکٹریاں،شاپنگ مال وغیرہ نے کائنات کے نظام کو درہم برہم کردیا ہے۔بے موسم بارش،سیلاب،زلزلے، سمندری ٹائڈ؛ یہ سب انسان کو سوچنے پر آمادہ کررہے ہیں، ہم کیا کریں؟ کیسے ماحول اور زندگی کو صحت مند بنائیں؟
آج ماڈرن زمانے کی پسند ٹشو پیپر کا استعمال ہے ،جو دن بہ دن بڑھتا ہی جارہا ہے۔جہاں پانی سے صفائی کی جاتی تھی،آج ٹشو کا استعمال ایک کلچر،فیشن بن گیا ہے ۔
1990 ءمیں جب کمپیوٹر کا دور شروع ہو اتو انسانوں نے یہ سوچا کہ اب کاغذ کا استعمال بہت کم ہوجائے گا اور درختوں کی کٹائی رک جائےگی،مگر افسوس! اس کے بےجا استعمال نے جنگلات کو مٹانے کا کام کردیا۔
گھر ہو یاآفس،اسکولز ہوںیا ہاسپیٹلز،کار،سفر،ٹائلٹ،شادیاں، غرض یہ کہ ہر جگہ ٹشو کا بے تحاشا استعمال ہونے لگا۔
ایلن ہر شکو وٹز(Allen Harshkowitz)جانتے تھے کہ کمپیوٹر کے استعمال سے کاغذ کے استعمال میں کوئی کمی واقع نہیں ہوگی، وہ کہتے ہیں کہ جنگلات کا اس طرح صفایا کرنے سے دنیا میں جتنی گرمی اور آلودگی میں اضافہ ہوتا ہےوہ دنیا کے تمام ٹرکوں، بسوں، ہوائی اور بحری جہازوں سے پیدا ہونے والی آلودگی سے کہیں زیادہ ہے۔

ٹشو پیپر بنانے والے پلانٹس کو انتہائی کثیر مقدار میں پانی اور بجلی درکار ہوتی ہے، یہ فضا کو آلودہ کرتے ہیں، اس کارف زہر آلود فضلہ دریا یا پانی میں بہا دیا جاتاہے، جب ان ٹشوز کو بلیچ کیا جاتا ہے تو یہ ماحول کے لیے اور بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتےہیں۔
خام مال سے لےکر ٹشو پیپر تک سب ایسی گاڑیاں فیکٹریوں میں لائی اور لے جائی جاتی ہیں جو کاربن ڈائی آکسائیڈ کا اخراج کرتی ہیں، ملک بھر میں یہ سفر چلتا رہتا ہے اور بعض اوقات تو سمندر پار بھی یہ سفر جاری رہتا ہے۔
ایک تحقیق کے مطابق صرف امریکی 255 ارب36 کروڑ ٹشوز استعمال کرتے ہیں، اب انڈیا اور عالمی سطح پر اس کی مانگ میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ہم جو ٹشوز خریدتے ہیں، بھلے وہ تازہ کاغذ کے گودے سے بنے یا ری سائیکل گودے سے، وہ حاصل ان درختوں سے ہی کیا جاتا ہے، جنھیں بڑھنے میں کئی کئی سال لگ جاتے ہیں۔
درخت کاٹنے کا یہ عمل جنگلات کو ختم کر سکتا ہے، جس کے سبب گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہورہا ہے۔جانور،پودے، چرند پرند اپنی زندگی کھو رہے ہیں، اور پانی آلودہ ہورہا ہے۔
ان تمام مسائل میں امت مسلمہ کا کردار کیا ہونا چاہیے؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’ اگر کوئی مسلمان کسی درخت کا پودا لگاتا ہے اور اس درخت سے کوئی انسان یا جانور کھاتا ہے تو لگانے والے کے لیے وہ صدقہ ہوتا ہے ۔‘‘( صحیح بخاری )
مندرجہ ذیل اقدامات کے ذریعہ ہم اک چھوٹی سی کوشش ’’صحت مند ماحول، صحت مند زندگی ‘‘ کے لیے کرسکتے ہیں:
ٹشوز پیپر کا استعمال نہ کریں۔
ایک درخت یا پودا لگا کر اس کی نگہ داشت کریں۔
سفر میں جاتے ہوئے اپنے ساتھ پھل اور سبزیوں کے بیج رکھیں اور انھیں کھلی جگہ پر پھینکتے جائیں۔
پانی اور بجلی کی فضول خرچی نہ کریں۔
اپنے آس پاس کے ماحول کو صاف رکھیں۔
پالیتھین کے استعمال سے پرہیز کریں۔
بارش کے پانی اور گھر کے استعمال شدہ پانی کے دوبارہ استعمال کے لیے گھروں میں water Harvesting اور water convervationکا نظم کریں۔
اپنے گھروں کی بالکنی، ٹیرس، کچن میں منی گارڈن ضرور لگائیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے