جولائی ۲۰۲۴

جواب:
روزے فرض کیے گئے تو ساتھ ہی اس بات کی بھی صراحت کردی گئی کہ مسافر اور مریض کے لیے اجازت ہے کہ وہ روزے نہ رکھ کر بعد میں حسبِ سہولت ان کی قضا کرلیں۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

فَمَن شَہِدَ مِنکُمُ الشَّہْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَن کَانَ مَرِیْضاً أَوْ عَلَی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ أَیَّامٍ أُخَرَ یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ(البقرہ: 185)

( لہٰذا اب جو شخص اس مہینے کو پائے وہ روزہ رکھے۔ اور جو کوئی مریض ہو یا سفر پر ہو وہ دوسرے دنوں میں روزوں کی تعداد پوری کرلے۔ اللہ تمھارے ساتھ نرمی کرنا چاہتا ہے، تم پر سختی کرنا نہیں چاہتا۔)
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:

اِنَّ اللّٰہَ وَضَعَ عَنِ المُسَافِرِ نِصْفَ الصَّلَاۃِ وَالصَّوْمَ، وَعَنِ الحُبْلیٰ وَالمُرْضِعَۃِ (نسائی : 2274)

(اللہ تعالیٰ نے مسافر سے نصف نمازکم کردی ہے اور اسے روزہ نہ رکھنے سے رخصت دی ہے۔ اسی طرح حاملہ اور مُرضعہ (دودھ پلانے والی عورت) کو بھی روزہ نہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔)
اگر حاملہ اور مرضعہ روزہ نہ رکھیں تو کیا کریں؟ چھوٹے ہوئے روزوں کا فدیہ ادا کریں ، یا ان کی قضا کرنی ہوگی؟ اس سلسلے میں صحابۂ کرام کے درمیان اختلاف پایا جاتا تھا۔ حضرت ابن عباسؓ کی رائے تھی کہ ان پر قضا نہیں ہے، وہ فدیہ ادا کرسکتی ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے بدقّت روزہ رکھ سکنے والوں کو روزہ نہ رکھ کر فدیہ ادا کرنے کی اجازت دی ہے:

وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُونَہُ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْن(البقرہ: 184)

یہ اجازت اصلاً بوڑھے مردوں اور بوڑھی عورتوں کے لیے ہے، لیکن اس میں حاملہ اور مرضعہ بھی شامل ہیں۔(ابو داؤد : 2318)
صحابہ میں سے حضرت علی بن ابی طالبؓ کی رائے تھی کہ حاملہ اور مرضعہ فدیہ نہیں ادا کریں گی، بلکہ انھیں بعد میں قضا کرنی ہوگی۔ یہی قول امام ابو حنیفہؒ کا بھی ہے۔ ان کا استدلال یہ ہے کہ حاملہ اور مرضعہ کو مریض پر قیاس کیا گیا ہے۔ جس طرح مریض اگر بعد میں روزہ رکھ سکتا ہے تو اس کے ذمے قضا ہے، اسے فدیہ ادا کرنے کی اجازت نہیں۔ اسی طرح حاملہ اور مرضعہ اگر بعد میں روزہ رکھ سکتی ہیں تو انھیں قضا کرنی ہوگی۔
البتہ اگر روزے بہت زیادہ جمع ہوگئے ہوں اور صحت قضا روزے رکھنے کی متحمل نہ ہو تو اس کے بجائے فدیہ ادا کرنے کی گنجائش ہوگی، جیسے وہ شخص جو کسی ایسے مرض میں مبتلا ہو جس سے شفا یابی کی امید نہ ہو، اسے فدیہ ادا کرنے کی اجازت ہے۔
ایک روزہ کا فدیہ ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔ جتنے روزے چھوٹے ہوں اتنے مسکینوں کو دو وقت کا کھانا کھلایا جائے، یا ان کی دو گنی تعداد کو ایک وقت کا کھانا کھلایا جائے، یا کھانے پر جو صرفہ آتا ہے اس کا اناج یا رقم دے دی جائے، حسبِ سہولت کسی پر بھی عمل کیا جا سکتا ہے۔

٭ ٭ ٭

ویڈیو :

سوال:
میرے چار بچے ہیں۔ ان کی وجہ سے میرے بہت سے روزے چھوٹ گئے ہیں۔ دورانِ حمل گھر والوں نے روزے نہیں رکھنے دیے، پھر دودھ پلانے کے زمانے میں بھی روزے نہیں رکھے۔ ہر بار ایسا ہی ہوا۔ چھوٹے ہوئے روزوں کی میں قضا نہ کرسکی۔ اب قضا روزے رکھنے کو سوچتی ہوں تو جسمانی کم زوری کی وجہ سے ہمّت نہیں ہوتی۔ موجودہ روزے تو جیسے تیسے رکھ لیتی ہوں۔ کیا میرے لیے جائز ہے کہ سابقہ چھوٹے ہوئے روزوں کا کفّارہ ادا کردوں؟

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے