جولائی ۲۰۲۴

آپ نے ،ہم نے، سبھی نے پڑھا ہے:
قولوا قولاً سدیدا ً
مطلب بھی جانتے ہیں اور معنی بھی، لیکن ہمارے ساتھ کیا ماجرا ہے کہ ہم صاف سیدھی سچی بات کھل کر محفل یا کسی فرد سے کہہ نہیں پاتے ، جب دل بے خوف ہو تو انسان صاف بات کرتا ہے، اسے کسی کے برا مان کاجانے کا یا ذاتی نقصان یا کسی مفاد پر زد پڑنے کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
بے لاگ صاف شفاف گفتگو دراصل بے خوفی سے آتی ہے ۔ آپ بچوں کی باتوں پر غورکریں! بچے جب کسی سے مخاطب ہوتے ہیں یا بات کرنا سیکھتے ہیں تو ابتدا ءً بہت صاف گوئی سے کام لیتے ہیں، برجستگی سے محفل میں سوال پوچھ لیتے ہیں، ان کی کمیونکیشن بہت صاف اور شفاف ہوتی ہے، جو بات وہ کہنا چاہتے ہیں ،بے خوف و خطر کہہ ڈالتے ہیں ،انھیںکسی کے برا منانے کا اندیشہ نہیں ہوتا ۔
بچوں کو صاف سیدھی گفتگو کرنا سکھانا چاہیے ۔جب بچوں کے دل میں خوف ہو یا کسی مہمان سے اسے ڈرایا جائے ، یا کسی رشتہ دار سے متعلق کوئی رائے والدین بنالیں، یا ادب تہذیب کے نام پر گفتگو کرتے ہوئے انھیں ڈرایا جائے تو بچوں میں گفتگو کے غلط عادات و اطوار نمو پانے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
بچوں کو گفتگو کے آداب سکھانے کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کریں!:
1. والدین خود مثال بنیں! : بچے اپنے بڑوں سے سیکھتے ہیں، اس لیے خود بھی اچھی گفتگو کے آداب اپنائیں۔انھیںاحترام کے ساتھ مخاطب کریں ،اسی بات کا احساس کرتےہوئے قرآن نے برے القاب سے پکارنے سے منع فرمایا ہے۔ بچوں کے سامنے کسی دوسرے شخص کا مذاق بنانا یا کسی غریب کے لیے ہتک آمیز رویہ اختیار کرنا بچوں کے لیے بری مثال ثابت ہوتا ہے ۔
2. آداب کی تفصیل سمجھائیں! : بچوں کو سمجھائیں کہ اچھی گفتگو کے آداب کیا ہوتے ہیں اور ان کا خیال رکھنا کیوں ضروری ہے؟گفتگو کے آداب میں سب سےاہم ہے کسی دوسرے کی بات توجہ سے سننا ، بات کہنے والے کو احساس دلانا کہ ان کے نزدیک اس شخص کی اہمیت ہے اور آپ توجہ سے گفتگو تحمل کے ساتھ سن رہے ہیں ۔دوسرے کی بات مکمل ہونے کے بعد اپنی بات کہنا،اپنی بات بہت ٹھہر ٹھہر کر مکمل کرنا ۔بات کرتے وقت رویہ بالکل نرم ہونا چاہیے ،گفتگو صاف ستھری بے لاگ ہونی چاہیے ۔
3. مکالمے کے دوران مشق کروائیں!: بچوں کے ساتھ مکالمے کی مشق کریں، جیسے کہ سلام کرنا، شکریہ کہنااور کسی بات کو سننا۔ مکالمے کے وقت عملی تربیت کا اچھا موقع ہوتا ہے ،جب بچہ مکمل بات سننے کا عادی نہ ہو، بات مکمل ہونے سے پہلے بول پڑے تو رک جائیے، اس سے کہیے آپ پہلے اپنی بات مکمل کرلے ۔
4. مثبت ردعمل دینے کے بچوں پر اثرات : جب بچے صحیح طریقے سے گفتگو کریں تو ان کی تعریف کریں، تاکہ انھیں حوصلہ ملے۔جب وہ کوئی اچھا لفط برتیں تو ان کو مسکرا کر قدر کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے تاکہ ان میں اچھے الفاظ برتنے کا اشتیاق پیدا ہو ، تلفظ کی ادائیگی میں آپ کجی محسوس کریں تو اس لفظ کو درست شکل میں دہرادیجیے، بچہ متوجہ ہوجائے گا۔بچے بہترین نقال ہوتے ہیں، اپنے بڑوں کو ہم خود بھی ہر معاملے میں مثبت ردعمل دیں ۔ہر بات پر فوراً ججمنٹل ہونے کے بجائے توقف کرنے اور زاویۂ نگاہ بدل کر سوچنے کی عادت ڈالیں، یہ اسٹریج مینجمنٹ کے لیے بھی درست عمل ہے ۔مثلا ًاستاد نے ڈانٹا یا گھرمیں ماں نے بچے کو تیز جواب تو والد محترم بچے کی شکایت سن کر فوراً ردعمل دینے کے بجائے یہ کہیں کہ ہوسکتا ہےمما پر کام کا دباؤ رہا ہو ، یا استاد کو صدر مدرس سے ڈانٹ پڑی ہو ،یا بچے سے کہیے کہ وہ خود بھی سوچے کہ کیا ممکن ہوسکتا ہے؟ اس طرح زندگی کے ہر معاملے میں اشتعال انگیز رویہ اپنانے کے بجائے وہ سوچنے لگیں گے اور زندگی بھر اینگزائٹی، اضطراب،بے چینی اور گھبراہٹ سے بچے رہیں گے ۔
5. توجہ دیں!: بچوں کی بات کو غور سے سنیں اور انھیں محسوس کروائیں کہ ان کی بات اہم ہے۔جب ہم انھیں اہم ہونے احساس دلاتے یا متوجہ ہوکر سنتے ہیں تو بچہ اچھے الفاظ برتنے اورخوب صورت انداز میں بات مکمل کرنے کی شعوری کوشش کرتا ہے ۔
6. احترام سکھائیں!: بچوں کو سکھائیں کہ دوسروں کی بات کا احترام کیسے کریں، چاہے وہ ان سے اختلاف ہی کیوں نہ رکھتے ہوں۔ احترام کرنا سکھانے کے بہت سے فائدے ہیں۔جب بچہ احترام سیکھتا ہے تو وہ لاشعوری طور پر بھی بڑوں کا احترام کرتا ہے، اپنے ہم جولیوں کو بھی احترام کے لہجے میں مخاطب کرتا ہے ۔وہ غیر ارادی طور پر بھی کسی شخص کی تحقیر نہیں کرتا ۔
7. معذرت کرنے کی عادت ڈالیں!: غلطی ہونے پر معذرت کرنے کی اہمیت بتائیں اور اس کی مشق کروائیں۔بچوں کو معافی مانگنےاور سوری کہنے یا اعتراف کرنے کا سلیقہ سکھائیں ۔ہر بات پر معافی مانگنے سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے، اس لیے شعوری کوشش کی جائے کہ نوبت ہی نہ آئے اور غلطی ہوجائے تو معافی مانگنا کوئی عار نہیں ہے ۔
8. بولنے کا طریقہ: بچوں کو نرم لہجے میں مخاطب کرنےاور بغیر چیخے بولنے کی عادت ڈالیں۔پاٹ دار صاف شفاف بولنے کی عادت ہونی چاہیے۔ لہجے میں ٹھہراؤ سکھانے طریقہ اس وقت کار گر ہوتا ہے جب گھر کے بڑے دھیمے لہجے میں بات کرنے کے عادی ہوں ۔
9. وقفے کا استعمال: بچوں کو سکھائیں کہ بولتے وقت مناسب وقفہ دیں تاکہ دوسرا شخص بھی اپنی بات کہہ سکے۔ جلدی جلدی بات کرنے اور وقفہ نہ لینے کی مستقل عادت یہ ظاہر کرتی ہے کہ Anxiety شخصیت کا حصہ بن چکی ہے، اس لیے کوشش ہوکہ بچپن سے بچوں کو آہستہ بات کرنے اور مناسب وقفہ لینے کی عادت ڈالی جائے ۔
10. غلطیوں کو درست کریں!: پیار اور نرمی سے بچوں کی غلطیوں کو درست کریں ،تاکہ وہ بہتر سیکھ سکیں۔
ان نکات پر عمل کرکے آپ اپنے بچوں کو بہترین گفتگو کے آداب سکھا سکتے ہیں۔گفتگو میں صاف گوئی ممکن بنانے کے لیے درج ذیل نکات پر عمل کرکے بچوں میں تبدیلی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔
1.صاف اور بات واضح کریں ، اپنی بات کو سیدھے اور سادے الفاظ میں بیان کریں تاکہ دوسروں کو آپ کی بات سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔
2. ہمیشہ سچ بولیں، چاہے سچ تلخ ہی کیوں نہ ہو۔ جھوٹ سے بچیں، کیوں کہ یہ آپ کی ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔سچائی کا اعتماد گفتگو سے واضح ہوجاتا ہے ۔
3.صاف گوئی کے لیے خود پر اعتماد ضروری ہے۔ اپنی بات کو یقین اور اعتماد کے ساتھ بیان کریں۔اعتماد پیدا کرنے کی صورت یہ بن سکتی ہے کہ تحقیق پر مبنی گفتگو ہو اور جس نے کہا اس کے حوالے کے ساتھ پیش کی جائے ۔
4. اپنی گفتگو میں غیر مبہم اور واضح الفاظ کا استعمال کریں، تاکہ آپ کی بات کا مطلب صحیح طور پر سمجھا جا سکے۔بات کے بیچ میںآ آں آں کرنے کی عادت یا ، ایک بات کو طوالت دے کر پیش کرنے کے بجائے مختصر اور صاف سیدھی بات کی جائے ۔
5.بات کرتے وقت غیر جانبداری اختیار کریں اور ذاتی رنجش یا تعصب سے بچیں۔اکثر لوگوں گفتگو جانبداری سے مملو ہوتی ہے، اسی لیے سامع پر گراں ہوتی ہے ۔

6. ایسے الفاظ اور لہجے کا انتخاب کریں جو دوسرے کے جذبات کو مجروح نہ کریں۔مذاق میں بھی ہتک آمیز رویہ شخصیت کو مجروح کردیتا ہے ۔
7.کسی سوال کا جواب دینے سے پہلے چند لمحے غور کریں تاکہ آپ صاف اور درست جواب دے سکیں۔بات ختم ہونے سے پہلے جواب دینا یہ ناپسندیدہ رویہ ہے ۔
پہلے دوسرے کی بات غور سے سنیں ، دوسروں کی بات کو غور سے سنیں اور پھر اپنی بات رکھیں۔ یہ آپ کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دے گا کہ کیا کہنا ہے اور کیسے کہنا ہے؟
9. اپنی بات میں دوسروں کی حدود کا احترام کریں اور غیر ضروری تفصیلات یا ذاتی باتوں سے پرہیز کریں۔
10. اگر کوئی بات غلط ہو جائے یا آپ کی بات سے کسی کو تکلیف پہنچے تو معذرت کرنے میں دیر نہ کریں۔
ان نکات کو اپنی گفتگو میں شامل کر کے آپ صاف گوئی کے ساتھ بات چیت کر سکتے ہیں اور دوسروں کے ساتھ مؤثر اور مثبت تعلقات قائم کر سکتے ہیں۔
بچوں کی گفتگو میں جھول (فلوینسی کی کمی) کئی وجوہات کی بنا پر آتا ہے۔ یہ وجوہات درج ذیل ہو سکتی ہیں:
1. بچے کی زبان اور بولنے کی مہارتیں ابھی مکمل طور پر ترقی یافتہ نہیں ہوتیں۔ اس کی وجہ سے انھیں الفاظ تلاش کرنے، جملے بنانے، اور صحیح طریقے سے بات کرنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔
2. بچے کی نشونما کا بھی بچے پر اثر پڑتا ہے ۔بچوں کا دماغ ابھی پوری طرح سے ترقی پذیر ہوتا ہے، اور بعض اوقات دماغ اور زبان کے درمیان رابطے میں خلل پیدا ہو سکتا ہے۔ہاتھ، پیر، زبان اور ووکل کاڈز میں وقت کے ساتھ ساتھ ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے اس لیے توجہ دی جائے کہ لکنت یا ادائیگی کی کمی ایک وقت کے بعد درست ہوجانی چاہیے ۔
3.نفسیاتی طور پر کم زور بچے بھی گفتگو کرتے ہوئے بے اعتمادی کا شکار ہوتے ہیں یا بعض کو مخالف صنف سے گفتگو کرتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے ،چوں کہ وہ بچپن سے علیٰحدہ اسکول میں پڑھنے کے عادی رہے ہیں ۔بعض بچے گفتگو کے دوران گھبراہٹ یا شرمندگی محسوس کرتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی بات میں جھول آ سکتا ہے۔ بات بات پر بچوں کو ڈانٹنے ،توجہ سے بات نہ سننے کی وجہ سے ایسا ہو سکتا ہے۔
4. بچے کے ماحول میں ہونے والے عوامل جیسے کہ دباؤ، تناؤ، یا خاندان میں بول چال کی عادات بھی بچے کی گفتگو پر اثر انداز ہو سکتی ہیں۔کم گو والدین کے بچے بھی رابطے کے اصول سے ناواقف ہوتے ہیں ۔
5. اگر بچے کو مناسب تعلیمی ماحول اور بات چیت کی مواقع نہیں ملتے، تو اس کی گفتگو میں جھول آ سکتا ہے۔
6. کچھ طبی مسائل جیسے کہ سماعت کی کمی، آواز کی خرابی، یا زبان کی ساخت کے مسائل بھی بچوں کی گفتگو میں جھول پیدا کر سکتے ہیں۔
7. بچے جو ایک سے زیادہ زبانیں سیکھ رہے ہوتے ہیں، ان کی گفتگو میں بھی جھول آ سکتا ہے، کیوں کہ وہ مختلف زبانوں کے الفاظ اور گرامر کو مکس کر سکتے ہیں۔
ان عوامل کی روشنی میں، بچوں کی گفتگو میں جھول کو دور کرنے کے لیے ان کی حوصلہ افزائی کریں، انھیں مناسب مواقع دیں، اور ضرورت پڑنے پر ماہرین (مثلاً :اسپیچ تھیراپسٹ) کی مدد لیں۔

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے