Zulmate Shab me umeed ki sunheri kirne

فضا میں ہر سو بارود بو کی پھیلی ہوئی تھی۔ اور دھول اس قدر تھی کہ انسان کو انسان دکھائی نہ دے، ہر سو شور سا تھا اہ و بقا کی آواز وقفے وقفے سے آ رہی تھی۔ عجیب قیامت برپا تھی، دھول دھیرے دھیرے کرکے چھٹنے لگی،،
ایک درد ناک منظر واقع ہوا، ہر طرف ملبے کا ڈھیر اور لاشے نظر آرہی تھی۔
اور ان لاشوں کو اٹھائے لوگ اِدھر اُدھر بھاگ رہے تھے۔۔۔ اور ہر کسی کی زبان اور اللہ،اللہ کی پکار تھی۔ یہ ایک ایسا منظر تھا جسے دیکھ کر خدا کا عرش بھی کاپ اٹھا تھا۔
ایسے میں ایک کونے میں ایک ماں، اپنے نو سالہ بچے کو سینے سے لگائے بیٹھی تھی، اور ماں کے آنکھوں سے آنسو جاری تھے ۔ جب لگا کے اب بم گرنا بند ہوئے، اور ہر منظر صاف صاف نظر آنے لگا، تو بچہ ماں سے الگ ہوا اور ماں کے چہرے کو دیکھنے لگا جس پر زمانے کا درد آیاں تھا، یہ فلسطین کا شہر غزہ تھا۔ جہاں بم باری ہوئے آج تیسرا دن تھا۔ فضا میں گم کی لہر دوڑ رہی تھی….. لیکن فلسطینیوں کے دل اب بھی خدا کے نہ امید نہ تھے۔ بلکہ ہر مصیبت پر انکا دل اور مضبوط ہوتا گیا۔ ایسے میں وہ ماں اپنے بچے سے مخاطب ہوئی ،جیسکا نام “ضیام” تھا:
“آخر وہ مسلمان کب ہماری مدد کو پہنچے گے جو پُر امن شہرو میں رہتے ہیں”۔
اتنا کہہ کر اسکی ماں خاموش ہوگئی.ضیام فکرمند ہوکر اپنی ماں کو دکھنے لگا کیا اسکی ماں ہمت ہارنے لگی تھی۔۔ لیکن نہیں ہم اتنے آسانی سے ہمت نہیں ہار سکتے، یہ سوچتے ہوئے ضیام نے اپنے لب کھلے۔۔۔ کہ اتنے میں وہ پھر گویا ہوئی.،”کیا ان تک ہماری خبر نہیں پہنچی؟،کیا اُنکو نہیں پتہ ہم کس حال میں ہے؟… اگر وہ بےخبر ہے تو اُنسے میں کیا گلہ کرو۔۔۔لیکن اگر اُنکو خبر ہے تو کیا اُمتِ مسلمہ کا دل اتنا پھتر کا ہوگیا ہے۔۔۔۔۔ کے ہمارے بارے میں جانے کے باوجود وہ اپنی زندگی میں مصروف ہے”..
آنسو اب بھی اُسکے آنکھوں سے جاری تھے وہ تین دن سے اپنے سب سے چھوٹے بچے کو لےکر اِدھر سے اُدھر بھاگ رہے تھی ۔۔۔ اُسنے اَپنی آنکھوں کے سامنے اپنے خاندان کو مرتے دیکھا تھا،،بھوک اور پیاس سے انکی حالت خراب ہو رہی تھی۔۔۔
اُسکے نظر اپنے بیٹے کے ہونٹوں پر گئی جو سُکھ رہے طور…، پھر اُسنے اپنے بیٹے کے آنکھوں کو دیکھا سنہری خوبصورت آنکھیں لیکن ہر جذبات سے خالی۔۔۔۔ اسکی نظر وہی ٹھہر گئی ۔۔اُن آنکھوں سے اسکو کچھ یاد آیا ، اسکی آنکھوں کے سامنے کا منظر تیزی سے بدلنے لگا وہ دو دن پہلے کا منظر تھا، اسکی گود میں اُسکا بڑا بیٹا اپنی آخری سانس لے رہا تھا۔۔۔۔۔ خون سے لت پت اُسکا وجود دیکھتے ہوئے اسکی روح کاپ رہی تھی ،وہ اُسکا سر سلا رہی تھی اور اسکے ہاتھ بھی خون سے بھر گئے تھے۔۔۔
اُسکا بیٹا اسکے کچھ کہنا چاہ رہا تھا لیکن کہہ نہیں پا رہا تھا،، شدتِ درد سے اسکی زبان لڑکھڑا رہی تھی پر اسکے چہرے پر ایک عجیب سے مسکراہٹ تھی،”تم نے ایسا کیوں کیا میرے بچے کیوں!!..” وہ سسکیوں سے روتے ہوئے اپنے بیٹے سے مخاطب تھی۔”میں…” اُسنے پھر بولنے کے کوشش کی لیکن زبان نے ساتھ نہیں دیا۔ اُسنے لمبی لمبی سانس لی اور پوری ہمت کے ساتھ کہا ،” آمی میں شہادت کے راستے میں مجھ سے پہلے آپ کو سبقت کیسے لے جانے دیتا.” یہ کہتے ہوئے اسکے آنکھوں میں ایک عجیب سی چمک تھی ماں کے آنسو تھم گئے ۔۔ وہ اپنے بیٹے کا چہرہ دیکھتے رہ گئی ، اسے اپنا بیٹا آج سے پہلے اتنا دل کش نہیں لگا تھا،جتنا آج لگ رہا تھا، وہ اپنی ماں کو بچاتے ہوئے ان ظالموں کا نشانہ بن گیا تھا۔ وہ اس دارے فانی سے کوچ کر گیا تھا۔،”امی..”
ضیام کی پکار پر وہ واپس حال میں آئی ، اور سوالیہ نظر سے اپنے بیٹے کو دیکھنے لگی ،”کیا ہمیں اللّٰہ کے سوا بھی کسی کی ضرورت ہے؟”
اُسنے بہت معصومیت سے ي سوال کیا تھا. لیکن اس معصومیت میں چھپی اس بچے کے جذبات کو ماں سمجھ نہیں پائی ،”نہیں کسی کی نہیں ہے.” ماں کچھ نہ سمجھیں میں بیٹے کو جواب دیا.”
اس پاس کے ماحول سے وہ بالکل کاٹ کر اپنے بچے کو دیکھ رہی تھی،۔ ضیام نے آگے بڑھ کر اپنی ماں کی دونوں ہاتھ پکڑے،.
اور اپنی ماں کے آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہنے لگا،” پھر امی ہمیں اللّٰہ کے سوا کسی سے مدد کی امید نہیں رکھنی چاہیے، کیا ہماری مدد کے لیے اللّٰہ کافی نہیں ہے، آپ کیوں اُن لوگو کا انتظار کرتی ہے جنہیں آنا ہی نہیں ہے آنا ہوتا تو بہت پہلے آچکے ہوتے امی اُن ظالموں کو طاقت اللّٰہ نے دی ہے اور اُن ظالموں سے طاقت چھیننے کی طاقت بھی اللّٰہ رکھتا ہے اور پھر کیا امی شہادت کی موت اس زندگی سے بہتر نہیں ہے؟ ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں شہادت کو موت نصیب ہو رہی ہے جو ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتی اور ہمارے لیے یہ کافی ہے امی ، اسلیے اب آپ نہیں روئے گی اپنے آنسو پوچھیئے، ہم اسے بہتر جگہ جارہے ہیں جہاں ہم ہمیشہ ساتھ رہے گے ۔ وہاں ہمیں کوئی جدا نہیں کرے گا۔”وہ مسکراتے ہوئے اپنے امی کے آنسو پونچھ رہا تھا۔ اسکی ماں اسے بڑے پیار سے دیکھ رہی تھی اور سوچ رہی تھی کے اُسکا بیٹا اتنا بڑا کب سے ہوگیا ، یا حالت نے اسے وقت سے پہلے بڑا کر دیا تھا، اُسنے اپنے بیٹے کو کس کے گلے لگا دیا ۔ پھر ضیام اپنی ماں سے الگ ہوئے ہوئے کہنے لگا۔
“آپ میری بات یاد رکھے گی نہ امی ،”. اسکی ماں نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے کہا ،” ہمیشہ،میں اب نہیں روگی، ہمارے لیے اللّٰہ کافی ہے. ” میرے پیارے ضیام! پھر اُسنے اپنے بیٹے کے دونوں گال چومے ۔۔ آس پاس ایک الگ قیامت برپا تھی کچھ لوگ ایک لاش کو اٹھا کر لے جارہے تھے اور زور زور سے اللہُ اکبر،اللہُ اکبر کہہ جارہے تھے۔ انکی پکار سے ماحول میں ایک عجیب ہیبت طاری تھی۔
ایک باپ اپنے بیٹی کی لاش کو دیکھتے ہوئے خاموشی سے بیٹھا ہوا تھا ۔ اور وہ بہت دھیمی آواز میں ایک ہی بات بار بار دہرا رہا تھا۔،”کہ میں اپنے گم اور بے بسی کا اظہار صرف اللّٰہ سے کرتا ہو.” وہی دوسری طرف کہیں عورتوں کی رونے کی آوازیں آرہی تھی ۔
ضیام یہ سب دیکھ ہی رہا تھا k اسے ایک اواز آئی… “پانی…پانی…” اُسنے اواز کا تعاقب کیا تو اسے نظر آیا کے اسے تھوڑی ہی دور ایک آدمی پڑا ہوا ہے جیسکا پیر ملبے میں پھسا ہوا ہے، اور اسکے سر سے خون بہہ رہا ہے… وہ بھاگتے ہوئے اُنکے پاس گیا اور کہا،” انکل آپ ٹھیک تو ہے نا.” وہ ہنوز پانی پانی کہہ جارہا تھا ۔ضیام کے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کے اسے کیا کرنا چاہئے ۔ اُسنے آس پاس نظر گھمائیں پھر بھاگتے ہوئے واپسی اپنی ماں کے پاس آیا اور کہا ،”امی میں کہیں سے پانی ڈھونڈ کر لاتا ہو”
یہ سن کر اسکی ماں نے اُسکا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا اور کہا ،”نہیں ابھی کہی مت جاؤ بم باری ابھی رکی ہے پھر شروع ہوگئے تو اُسنے ایک نظر اپنی ماں کو دیکھا اور ایک نظر مضبوط گرفت کی طرف۔ پھر ماں کے ہاتھوں سے اپنے ہاتھوں کو چھوڑاتے ہوئے کہا،”امی ابھی مجھے فرض بلا رہا ہے ، میں آپ کو اللّٰہ کے حوالے کرتا ہوں ، اور میں نے کہا نہ اسے بہتر جگہ ہمشہ ساتھ رہے گے،”۔
پھر اٹھتے ہوئے اُسنے اپنی ماں کے سر پر بوسا لیا۔ اور پانی کی تلاش میں اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے بھاگنے لگا… پیچھے اسکی ماں اسے جاتے ہوئے دیکھتی رہی ۔ اسے نہیں پتہ کے وہ سے پھر دیکھ پائے گی یا نہیں ، وہ بنا نظر ہٹائے اپنے بیٹے کو جاتے ہوئے دیکھتی رہیایک پل لیے آنسوئوں نے اسکے منظر کو دھنلا کر دیا ۔ اُسنے جلدی سے آنکھیں رگڑی کہی وہ نظر سے اوجھل نہ ہوجائے… پر وہ وہاں نہیں تھا وہ جاچکا تھا۔ پھر اُسنے ایک نظر اپنی خالی ہاتھو کو دیکھا، جسمیں تھوڑی دیر پہلے اسکے چھوٹے چھوٹے ہاتھ تھے… ایک بار پھر اسکے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے… وہ چاہ کر بھی ان آنسوں کو روک نہیں پارہی تھی… ضیام پانی ڈھونڈ رہا تھا اور آس پاس کا منظر اسکے دل کو ہلا سے رہا تھا اس کو جلد از جلد پانی لے جاکر اس زخمی کو پانی پلانا تھا۔
پتہ نہیں ایمان کا وہ کونسا جذبہ تھا جو خود تین دن سے پیاسا تھا اسے کسی اور کی پیاس نے تڑپا دیا تھا۔ جس نے تین دن سے ماں کا ہاتھ نہیں چھوڑا تھا اُسنے کسی اور کو بچانے کے لیے ماں کا ہاتھ ہے بول کر چھوٹا “کہ امی مجھے فرض بلا رہا ہے اور میں آپ کو اللّٰہ کے حوالے کرتا ہو…. یہ وہی فلسطینی ہے جنہوں نے صحابہ کی یاد تازہ کر دی کے جب اُن سے کہا جاتا کے ڈرو آج تم پر ساری باطل طاقت مل کر ہملاوار ہوگئے ۔ تو یہ سن کر انکا ایمان اور بڑھ جاتا اور وہ پکار اٹھتے “ہزبناللہو وا نیا مل وکیل”

ضیام کی ماں نے اپنے آنسو پوچھے اسے کمزور نہیں پڑھنا تھا اپنے بچوں کی طرح بہادری دکھانی تھی… وہ اٹھ کے اس زخمی کے پاس گئی اور اسے تسلی دیتے ہوئے کہا،” میرا بیٹا آتا ہی ہوگا۰۰۰آپ تھوڑا صبر کرے پلز۔” اور اسی پل۰۰۰۰ ایک زور دار دھماکہ ہوا فضا میں ہر سو دهوا چھا گیا ایک پل کے لیے ہر شے تھم گئی۰۰۰ اور کچھ پل کے لیے زیام کی ماں بھی سہم گئی لیکن اگلے ہی پل وہ جیسے اندھا دھند اس طرف بھاگنے لگی جہاں زيام غائب ہوا تھا ۰۰۰۰ بھاگتے بھاگتے وہ ایک دم سے ٹھہر گئی مانو پوری دنیا بھی ٹھہر گئی ہو… وہ بالکل سخت و جامد اسی جگہ کھڑی ہوگئی سامنے کے منظر نے اُسکا دل ہلا کر رکھ دیا تھا۔
اس کا بیٹا زمین پر پڑا ہوا تھا… خون سے لت پت ظالموں کے بم کا ایک بری طرح شکار ہوا… اسکی ماں اسے دیکھتی رہی یہاں تک کہ منظر دھندلا گیا… اور آنسو ٹوٹ ٹوٹ کر اسکی آنکھوں سے گرنے لگے وہ خود میں ہمت نہیں پارہی تھی کہ خون میں پڑے اپنے بیٹے کو ہاتھ لگائے… اسکی نظر ایک جگہ جاکر تھم سی گئی… ضیام کے ہاتھ میں چھوٹی سی پانی کی بوتل تھی…
اسکے کان میں اسکے بیٹے کی آواز گونجی…
“امی مجھے فرض بلا رہا ہے…”
“اور تم یہ فرض ادا کرتے قربان ہوگئے میرے بچے۔”آنسو ہنوز اسکی آنکھوں سے گررہے تھے…
ایک بار پھر اسکے کانوں میں ضیام کی آواز گونجی “شہادت کی موت اس زندگی سے بہتر ہے امی۔ہمیں تو خوش ہونا چاہئے کہ ہمیں شہادت کی موت نصیب ہو رہی ہے۔ اسلیے آپ نہیں روئے گی۔”
اسکے دل کو کچھ ہوا آنسو تھم نے لگے… اُسنے خود میں ہمت محسوس کے اُسنے کہا تھا کے وہ اب نہیں روئے گی… وہ ضیام کے پاس جاکر بیٹھ گئی اسکے بالوں کو سہلاتے ہوئے کہنے لگی…” مجھے تم پر فخر ہے بیٹے کے تم بہادری کی موت مرے تم واقعی خوش نصیب ہو میرے بچے میں اب نہیں رو گی۔” پھر اُسنے وہ بوتل اسکے ہاتھ سے لی اور کہا ” مجھے تمہارا ادھورا کام پورا کرنا ہے میرے بچے۔” اور وہاں سے اٹھ گئی اور اسکی طرف جانے لگی جہاں وہ زخمی تھا….
” ہم اس سے بہتر جگہ جا رہے امی جہاں ہم ہمشیہ ساتھ رہے گے ۔”
وہ آگے بڑھ رہی تھی اور گلی کا موڈ موڑنے سے پہلے اُسنے موڈ کر اپنے بیٹے کو دیکھا اسے لگا وہ مسکرا کر دیکھ رہا ہے…
“ہم ضرور ملے گے…” وہ مسکرائی اور آگے بڑھ گئ… اب وہ جھک کر زخمی کو پانی پلا رہی تھی…
” کیا اللّٰہ ہمارے لیے کافی نہیں ہے امی۔”
” ہاں میرے بچے۔”اب وہ اس ملبے کو اٹھا رہی تھی جو زخمی پر تھا…”
” آپ میری بات یاد رکھے گئی نہ امی.”
“ہمم…”وہ مسکرائی اور زخمی کو کندھے اٹھا کر لے جانے لگی… اور نظروں سے دور ہونے لگی… اور فلسطینیوں کے لیے انکا رب کافی ہے… اس احساس نے اُنکے ہمت کی بلند کر رکھا ہے…..

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے