جولائی ۲۰۲۴

’’ہاں بولو!‘‘ وہ بھی سانس روکے اسے سن رہا تھا۔
’’فاخر…وہ…وہ میں نہیں تھی فاخر…تم…تم مجھے بتاؤ…تم نے کیا کہا ہےابھی ان سے؟‘‘ وہ ٹوٹی آواز کو بمشکل جوڑتی کہہ رہی تھی۔فاخر کو سمجھ نہیں آیا کہ وہ کیا کہنا چاہتی ہے۔اگر وہ، وہ نہیں تھی،تو پھروہ کون تھا؟
’’عالیانہ! تم کیا کہہ رہی ہو یار؟وہ تم نہیں تھی تو کون تھا؟تمھارا فون تو تمھارے علاوہ کوئی نہیں اٹھاتا ناں؟‘‘وہ سمجھ نہیں پارہا تھا کہ ہوا کیا ہےاور وہ کیوں رو رہی ہے؟
’’ممی نے…وہ ممی تھیں فاخر…مجھے بتاؤ تم نے کیا کہا ان سے؟‘‘وہ منت بھرے انداز میں پوچھ رہی تھی۔ فاخر کا ماتھا ٹھنکا۔
’’کیا مطلب؟آنٹی! تم کہنا چاہ رہی ہو کہ وہ آنٹی تھیں؟سیریسلی؟‘‘ وہ سر کھجانے لگا۔مطلب اس نے وہ ساری باتیں آنٹی سے کہی تھی۔افف!‘‘
’’ممی بہت پریشان ہوگئی ہیں فاخر!بات بھی نہیں کی انھوں نے مجھ سے۔تم نے کیا کہا ایسا؟‘‘ وہ پھر وہی سوال پوچھنے لگی۔وہ اب اسے کیا بتاتا کہ اس نے کیا کہا ہے،ورنہ ماں نے تو بخش دیا تھا شاید۔ صدمے میں ہی سہی، بیٹی ضرور اسے کچا چباجاتی۔
’’عالیانہ میری بات سنو!انھیں میرے بارے میں پتہ چل گیا ہے شاید۔وہ جان گئی ہیں کہ میں اور تم…‘‘ اس نے فقرہ ادھورا چھوڑدیا۔ عالیانہ نے شدت سے آنکھیں بند کرلیں۔وہ ایسے نہیں پکڑاجاناچاہتی تھی۔ایسی رسوائی کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا،لیکن رسوائی کا سوچتا بھی کون تھا؟ وہ تو بس ہوجاتی ہے۔کچھ دیر دونوں جانب خاموشی چھائی رہی۔
’’تم رو رہی ہو؟‘‘ وہ اس کی خاموش بہتے آنسو پہچان گیا تھا۔وہ چپ چاپ نیلی آنکھوں سے پانی بہارہی تھی۔
’’عالیانہ پلیز !رونا اس کا حل نہیں ہے۔تم فکر مت کرو۔ کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ وہ سمجھانے لگا۔
’’دیکھو! کبھی نہ کبھی انھیں پتہ چل ہی جانا تھا۔ ‘‘
’’اس طرح سے نہیں پتہ چلنا تھا انھیں فاخر!‘‘ اس کی آواز بھیگی ہوئی تھی۔
’’وہ کبھی مجھ پر بھروسہ نہیں کریں گی،وہ مجھے غلط سمجھیں گی،اور بابا کو بھائی کو…فاخر! اگر ممی نے سب کو بتادیا تو وہ لوگ تو مجھے مار ہی دیں گے۔‘‘ وہ دوبارہ رونے لگی تھی۔اسے اپنے خوابوں کا ریت سے بنا محل ٹوٹتا محسوس ہوا۔ایسا تو اس نے نہیں سوچا تھا۔اس طرح راز کھل جانا کسی اپنے کے جنازے کے نکلنے کی طرح تکلیف دہ ہوتا ہے۔ وہ دوسری طرف سے اسے سمجھارہا تھا۔ہمت دلارہا تھا،لیکن اسے آج اس کی باتیں بھی اچھی نہیں لگ رہی تھیں۔ اس کی ،جس کی آواز سننے کے لیے وہ رات کے کسی بھی پہر نیند سے جاگ جاتی تھی۔آج اس کی آواز اسے اچھی نہیں لگی تھی۔ اس نے خاموشی سے بغیر اس کو اللہ کی امان میں دیے فون کاٹ دیا۔
’’میں اب ممی کا سامنا کیسے کروں گی؟ کس طرح ان کےسوالوں کے جواب دوں گی؟اور ان کاہاتھ… ہاں ان کا ہاتھ لال ہورہا تھا۔جب وہ ان سے ٹکرائی تھی، اور آنکھیں… وہ رورہی تھیں۔
’’ میری ممی، میری وجہ سے رورہی تھیں۔ ‘‘ وہ روتے روتے بڑبڑارہی تھی۔ وہ نہ چاہتے ہوئےبھی اپنی ماں کو جسمانی اور روحانی اذیت دے چکی تھی۔ ان کے درد کی وجہ بنی تھی۔ جو اس نے کبھی نہیں چاہا تھا۔کبھی نہیں سوچا تھا۔ یہ اس سے کیا ہوگیا؟وہ سر دونوں ہاتھو میں گرائے بنا آواز رونے لگی۔
کبھی کبھار دل کے ہاتھوں ہم اتنےمجبور ہوجاتے ہیںکہ ان لوگوں کا مان توڑ دیتے ہیں، جنھوں نے اپنی عزت ہماری ہتھیلیوں پر رکھ کر ہمیں ان کی عزتوں کا نگہبان بنایا ہوتا ہے، اور ہماری چھوٹی سی غلطی ،دل کی چھوٹی سی فرمائش ،مچلتے جذبات کی ہلکی سی آرزو ہمیں ان عزتوں کی رکھوالی کی ذمہ داری سے آزاد کردیتی ہیں،اور پھر ہم کسی ذمہ داری کے بوجھ کو اٹھانے کے قابل نہیں رہتے۔

٭ ٭ ٭

حیدرآباد کی پر رونق سی فضامیں وہ اپنے کمرے میں ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے گزرے ہوئے خیالات کی دنیا میں مدہوش سی دلہن بنی بیٹھی تھی۔سامنے کھڑی بیوٹیشن لڑکی مہارت سے اس کا میک اپ کررہی تھی۔آج اس کانکاح تھا،اور ساتھ رخصتی بھی۔
’’میم! آنکھیں بند کریں، مسکارا پھیل جائے گا۔‘‘سامنے کھڑی بیوٹیشن کی آواز سے وہ چونک کر اپنے گہرے خیالوں سے باہر آئی۔اس نے ہولے سے سامنے آئینےمیں اپنا عکس دیکھا۔وہ ہلکا گلابی کام دار فراک پہنے ،ساتھ میچنگ نازک سی جیولری اور ماتھے پر مانگ ٹیکا لگائے،آنکھوں میں ڈھیرں اداسی لینے کے باوجود بھی بہت خوب صورت لگ رہی تھی۔اسے لگا آج اس کے خوابوں کا جنازہ ہے۔ہر اس خواب کا جو اس نے اپنے مستقبل کے لیے دیکھے تھے۔وہ خفا تھی،ہر چیز سے خفا۔اسے دلہن بننا تو نہیں تھا،پھر وہ کیوں دلہن بن رہی تھی؟اس کا دل درد کررہا تھا،بہت درد۔
تبھی اسے اپنے پیچھے آئینے میں ایک دوسری لڑکی کا عکس دکھائی دیا۔وہ لڑکی جسے وہ ہر رات سونے سے پہلے اور صبح اٹھنے کے فوری بعد دیکھا کرتی تھی۔اسے وہاں اچانک دیکھ کر اس کی مسکارے سے بھری آنکھیں حیرانی سےپوری پھیل گئیں۔
’’تم…تم یہاں کیا کررہی ہو؟‘‘وہ ہونٹوں کو جنبش دیے بغیر نگاہوں سے پوچھنے لگی۔
اس دوسری لڑکی نے نیلے سادے سے فراک پر سفید ڈاکٹر کوٹ پہناہوا تھا۔ساتھ کُھلے بالوں کو کاندھے پر چھوڑےشہد سی آنکھوں میں ڈھیروں سوالات لیے اپنے ہی عکس کو حیرانی سے دلہن بنتا دیکھ رہی تھی۔
’’تم نے تو مجھ سے کہا تھا کہ تم ہر حال میں ڈاکٹر کی ڈگری حاصل کروگی۔پھر تم آج اپنی ہی بات سے کیسے مکر گئیں؟‘‘ وہ بے یقین تھی۔ مرر سے جھانکتی شہد سی مسکارے سے بھری آنکھوں نے کرب سے خودکو بند کر لیا۔یہ الفاظ تو نہیں تھے،یہ تو نشتر تھے،دل چیرنے والے نشتر۔
’’آج میں تم سے سوال پوچھنے آئی ہوں ، ہر اس خواب کا جو تم نے مجھے دکھایا تھا۔لوگوں کی مدد کرنے کا خواب۔(چوڑیوں سے بھرے ہاتھوں نے خود کو زور سے مٹھی میں دبالیا۔)
’’مرتے ہوئےانسانوں کو طبی مدد دینے کا خواب۔‘‘ ڈاکٹرکوٹ پہنی لڑکی نہایت سنجیدہ مگر غصے سے کہہ رہی تھی۔
’’اپنی ماں کے نام پر ہاسپیٹل کھولنے کا خواب۔ان سب کا کیا زائنہ!ان سب کا کیا؟‘‘ کوٹ پہنی لڑکی چیخنے لگی۔
’’تم نے بابا کی خواہش کا احترام کیا، اچھا کیا،لیکن اپنی خواہشات کو مار دیا۔‘‘ دلہن بنی زائنہ کا دل بند ہورہا تھا۔ایسا جیسے وہ کبھی دھڑکا ہی نہ ہو۔
’’تم نے ایک بار بھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔میں تو تمہارا وجود ہوں ناں؟میں کیا ان خوابوں کے بغیر زندہ رہ لوں گی؟‘‘ وہ روتی آواز سے پوچھنے لگی۔ مسکارہ بھری آنکھوں نےخود کو شدت سے بند کیا ہوا تھا۔
’’میں کیسے رہوں گی زائنہ اپنے خوابوں کے بغیر؟میں کیسے اپنےہاتھوں سے خوابوں کو دفن کروں گی؟‘‘ اسے لگا اس کاسب کچھ آج ختم ہوگیا ہے۔
’’تم نے مجھ پر ظلم کیا زائنہ!تم نے مجھے مار دیا۔ہمیشہ ہمیشہ کے لیے۔ آج تم نے خود کے ساتھ مجھے بھی کھو دیا۔‘‘وہ اس کو احساس دلا رہی تھی یا اس کے صبر کو آزمارہی تھی، اس کا ذہن ابھی یہ سب باتیں سمجھنے سے قاصر تھا۔دوسری طرف میک اپ کرتی بیوٹیشن کو اس کی گردن کی رگیں تنی ہوئی دیکھ کر اور انگلیوں کو مٹھی میں بندھا دیکھ کر حیرت ہوئی۔
’’میم !آپ…آپ ٹھیک ہیں؟میں پانی لاؤں آپ کےلیے؟‘‘ اس نے پریشان ہوتے ہوئے پوچھا۔اس کے اس طرح اچانک سوال پر اس نے ایک جھٹکے سے آنکھیں کھولیں۔شہد رنگ کی آنکھوں نے پورے کمرے کا جائزہ لیا۔اسے اپنا عکس دور دور تک نظر نہیں آیا۔اسے اس طرح خالی کمرے میں نگاہ دوڑاتے دیکھ کر بیوٹیشن سے رہا نہیں گیا۔
’’میم!آپ کیا دیکھ رہی ہیں؟آپ کی طبیعت ٹھیک ہے؟میں پانی لاؤں آپ کےلیے؟‘‘اسے وہ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اس کے اس طرح پوچھے جانے پر وہ سنبھل کر بیٹھ گئی۔
’’جی نہیں ! میں ٹھیک ہوں۔ہوگیا میک اپ؟ ‘‘ اس نے مرر سے سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
’’جی بس ہورہا ہے۔‘‘ وہ اپنا ہاتھ مہارت سے تیز تیز چلانے لگی۔
دوسری طرف وہ خاموش کمرے کی خاموشی میں پھر ایک نئے اندیشے کے خیال میں کھوگئی، خالی نگاہوں سے اپنے آپ کو دلہن بنتی دیکھ رہی تھی۔اس کا ذہن ہر بات سے، ہر سوال سے دور، بس خاموشی چاہ رہا تھا۔اتنی خاموشی کہ اسے اپنی سانسوں کی آواز بھی صاف سنائی دے،لیکن اپنے ہی عکس کے سوالوں کے نشتر اس کے دماغ میں سائیں سائیں کررہے تھے۔وہ اسی تذبذب کی کیفیت میں گم تھی۔
تھوڑی دیر گزر جانے کے بعد آپی اپنے ساتھ کچھ خواتین کو لیےاس کے کمرے میں آئیں۔اسے اس طرح دلہن کے روپ میں دیکھ کر ان کی آنکھوں کےکور بھیگنے لگے۔وہ چلتی ہوئی اس کے قریب آئی۔زائنہ نگاہیں پھیر کر ان کی طرف دیکھتی ہوئی اٹھی۔آپی نے لال ورک کی خوبصورت ساڑی زیب تن کی ہوئی تھی۔ وہ خاموشی سے زائنہ کی نگاہوں میں دیکھتی اس کے گلے لگ گئی۔وہ رورہی تھیں،لیکن زائنہ بس چپ سی ان کے گلے لگی ہوئی تھی۔اس کا ذہن اب ماؤف ہوگیا تھا۔کچھ بھی سمجھنے سے قاصر۔بالکل مفلوج۔
’’آج مما ہوتیں تو وہ کبھی ایسا نہیں ہونے دیتیں زائنہ!‘‘ آپی ہولے سے اس کا شانہ تھپکتی کہہ رہی تھیں۔
’’میں نے ظلم کیا تم پر میری گڑیا! مجھے معاف کردینا۔میں بہت بُری بہن ہوں۔میں چاہ کر بھی تمھارے لیے کچھ نہیں کرسکی۔‘‘وہ اس کے کاندھے سے لگی بہت دھیمی آواز میں کہتی آنسو بہا رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد وہ آہستہ سے اس سے الگ ہوئی۔ وہ رو نہیں رہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے سارے آنسو جیسے ختم ہوگئے تھے۔انھوں نے اس کے ماتھے کوبوسہ دیا۔اس کا ہاتھ تھاما۔زائنہ کے سامنے کا منظر کسی فلم کی طرح چل رہا تھا۔ ہر چیز سلو موشن میں ہورہی تھی۔اس کے قدم بابا کے کمرے کی طرف جانے لگے۔وہ قاضی صاحب کے سامنے پردہ کیے ہوئے بیٹھی تھی۔وہ اس سے کچھ پوچھ رہے تھے۔شاید وہ تین لفظ جس سے عورت کی ساری دنیا ہی بدل جاتی ہے۔وہ مخمور سی حالت میں جواب دے رہی تھی۔ایسی حالت ،جس میں جذبات مر چکے ہوتے ہیں،اور بنا جذبات کا جسم، مردہ جسم کہلاتا ہے۔سب دعا کے لیے ہاتھ اٹھارہے تھے۔بابا اس کے سر پر پیار کرکے اپنے آنسو چھپائے باہر نکل گئے تھے۔آپی نے روتے ہوئے اس کا سر اپنے سینے سے لگایا۔اس کے بعد اسے کچھ یاد نہیں رہا۔ اسے کس نے مبارک باد دی؟کس نے اسے گلے لگایا؟ اسے کچھ یاد نہیں تھا۔

وہ رخصتی سے پہلے، بس پھر ایک دفعہ روئی تھی۔اسے گھر سے جاتے ہوئے دیکھ کر اس کے بابا کی کم زور آنکھوں میں آنسو دیکھ کر۔اس نے بابا کو آخری بارمما کی تدفین کے بعد خاموشی سے اپنی کمرے میں دروازہ لگائے ان کے دوپٹے کو سینے سے لگاکر روتے دیکھا تھا۔وہ آج اسی طرح اپنی بیٹی کو سینے سے لگائے رورہے تھے۔
اپنوں کو خود سے دور جاتے ہوئے دیکھنے کا غم دنیا کا سب سے بڑا غم ہوتا ہے،جہاں ہم چاہ کر بھی اپنے عزیز کو اپنے پاس روک نہیں سکتے۔یہ غم اللہ نے دنیامیں اس مضبوط مرد کے حصے میں لکھا ہے جو فولاد کو بھی پگھلا سکتا ہے،لیکن اپنی بیٹی کی رخصتی میں آنکھوں کو اشک بار کیے بنا نہیں رہ سکتا۔
آج یہ غم اس کے بابا کے حصے میں دوسری دفعہ آیا تھا،لیکن دوسری دفعہ انھیں اس غم کی شدت اپنے سینے میں زیادہ محسوس ہورہی تھی۔شاید بیوی کی یاد تھی یا بیٹیوں کو چھوڑکر جانے کا احساس تھا،جو انھیں اندر ہی اندر کھائے جارہا تھا۔بڑی مشکل سے آپی اپنے بہتے اشکوں کو چھپانےکی ہر کوشش سے ہارتی ہوئی انھیں ہمت دے رہی تھیں۔ہر آنسو پیا نہیں جاتا۔کچھ آنسوؤں کی قسمت میں بہنا ہی لکھا ہوتاہے۔انھیں اس بات کاآج احساس ہوگیا تھا۔
’’وہ کل واپس آجائےگی بابا!پھر ان شاء اللہ سرجری تک آپ کے پاس ہی رہےگی۔‘‘اس کے ہمت کے الفاظ سن کر بابا بڑی مشکل سے اپنی بیٹی سے الگ ہوئے۔انھوں نے اس کا ماتھا چومااور اس کے دونوں ہاتھوں کو تھامتے ہوئےانھیں پیار کیا،پھر ساتھ کھڑے دولہا بنے عیان کے ہاتھ میں دیا۔عیان آہستہ سے ان کے گلے لگا۔وہ اسے زیر لب کوئی دعا دے رہے تھے۔پھر عیان نے زائنہ کا ہاتھ تھامے کار کا بیک ڈور کھولتے ہوئےاسے اندر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔شہد رنگ کی آنکھوں نے آخری نگاہ اپنے بابا پر ڈالی۔وہ آج اسے بہت کم زور لگ رہے تھے۔پھر زیر لب ’’خداحافظ‘‘ کہتی اندر بیٹھ گئی۔عیان بھی اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔گاڑی آہستہ سے چلنے لگی۔بابا اسے دور جاتا دیکھ رہے تھے۔وہ من ہی من میں اپنی بیوی سےہم کلام تھے۔
’’آج میں نے اپنےسارے فرائض پورے کردیے صائمہ بیگم!‘‘آپی انھیں سنبھالتی اندر لے جارہی تھیں۔
’’…لیکن میں بیٹی کا خواب پورا نہیں کرسکا۔‘‘ آپی نے ان کے کمرے کا دروازہ کھولا۔
’’اس بیٹی کا خواب،جس نے میری خاطر اپنے آپ کو،خواب پورا کرنے سے دست بردار کرلیا۔‘‘ آپی نے انھیں پلنگ پر بٹھایا اور پیچھے سہارے کے لیے تکیہ برابر کیا۔
’’وہ مجھے کہیں نہ کہیں اپنے خواب کے پورا نہ ہونے کی وجہ سمجھےگی۔‘‘ آپی نے پانی سے بھرا کانچ کا گلاس ان کے آگے کیا،جسے انھوں نے تھوڑا سا پی کر ٹیبل پر رکھ دیا۔
’’کیا میں اپنی بیٹی کے خوابوں کے پورا نہ ہونے کی وجہ بن سکتا ہوں صائمہ؟‘‘آپی نےان کےدونوں پیروں کواٹھاکر کرآہستہ سے پلنگ پر رکھا۔
’’بابا !آپ تھوڑا آرام کرلیں۔آج آپ کوبہت تھکاوٹ ہوگئی ہوگی۔‘‘ ان کے اندر چلتے خیالات سے ان جان بیٹی نے فکر سے کہا،جسے سن کر انھوں نے آنکھوںکےاشارےسے ہی’’ٹھیک ہے۔‘‘ کہا اور آنکھیں موندلیں۔انھیں سکون سے لیٹا دیکھ کر آپی کو مہمانوں کا خیال آیا۔وہ کمرے سے باہر چلی گئیں۔
’’آج مجھے احساس ہواہے صائمہ کہ انسان کے ہاتھ کتنے خالی ہوتے ہیں۔ہم اس خدا کےسامنے کتنے بے بس ہوتے ہیں۔‘‘وہ رو نہیں رہے تھے۔انھیں لگا ان کی آنکھیں خالی ہوگئی ہیں۔ہر آنسو سے پاک،ہر امید سے خالی،ہر جذبے سے عاری،اور وہ ان ہی خیالوں میں نیند کی آغوش میں جارہے تھے۔دھیرے دھیرے ان کی بند آنکھیں مزید بند ہوگئیںاور دھڑکتے ہوئے دل کو قرار نصیب ہوگیا۔

٭ ٭ ٭

یہ رات عالیانہ کے لیے ممبئی کی سڑکوں کی طرح خطرناک گزر رہی تھی۔ اس نے بیڈ پر کروٹ بدل کر سامنے لگی گھڑی کو دیکھا۔وہاں رات کے چار بج رہے تھے اور نیند اس کی آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔باہر سے مدھم سی روشنی کمرے میں آرہی تھیں۔ اسے رہ رہ کر کل کا خیال آرہا تھا۔
’’پتہ نہیں ممی سے کل کیسے نگاہ ملاؤں گی؟‘‘ اس خیال سے اس کی حالت خراب ہورہی تھی۔ اس کی ساری رات کروٹیں بدلتی گزرنے لگی۔
دوسرے دن صبح ہی صبح ابرار صاحب کےکمرے کا دروازہ کھٹکھٹانے کی آواز سے جاگ اٹھی تھی۔
’’کیا ہوا بابا؟سب ٹھیک ہے ناں؟‘‘ اس نے نیند سے پُر آنکھوں کو مسلتےہوئے حیرانی سے کہا۔ابھی تو صرف سات بجے تھے اور بابا نو بجے تک اٹھتے تھے۔ پھر آج کیا ہوا ؟
’’بیٹا! وہ تمہاری ماں کو رات سے بہت تیز بخار ہے۔ میں انھیں لے جارہا ہوں ہاسپیٹل۔ تم بھی ساتھ چلو۔‘‘ وہ ہڑبڑائے سے لگ رہے تھے۔ اسے اپنے گردن میں گلٹی سی ڈوبتی محسوس ہوئی۔ نیند کی وجہ سے جو بات اس کے ذہن سے کچھ دیر کے لیے محو ہوگئی تھی، وہ پھر یاد آنے لگی۔
’’بابا! آپ فکرنہ کریں۔ میں بس ابھی برقع پہن کر آتی ہوں۔‘‘ وہ کہہ کر واپس کمرے کی طرف مڑ گئی۔
کچھ دیر بعد وہ زارا بیگم کے ساتھ کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ابرار صاحب ڈروائیو کررہے تھے۔زارا بیگم ایک رات میں کافی نحیف سی لگنے لگی تھیں۔ انھوں نے ایک دفعہ بھی اس کی طرف نہیں دیکھا تھا۔ بخار سے ان کا بدن تپ رہا تھا۔ اس نے ہولے سے اپنا ہاتھ ان کے ہاتھ پر رکھنا چاہا،جسے انھوں نے جھٹک کر الگ کردیا۔ اس کے گلے میں آنسوؤں کا گولا اٹکا۔زندگی میں پہلی بار ممی اس سے کسی بات پر اس حد تک ناراض ہوئی تھیں۔ وہ آنسوؤں کو حلق میں روکے، کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔باہر ہر طرف صبح کی سفید ی پھیلی ہوئی تھی۔ ان ماں بیٹی کی رنجشوں سے ان جان ابرار صاحب نے گاڑی ہاسپیٹل کے پاس کھڑی کی۔
’’عالیانہ! ممی کا ہاتھ تھام کر نیچے اتارو بیٹی۔ میں گاڑی پارک کرکے آتا ہوں۔‘‘ وہ بابا کی آواز پر چونکی، اور ایک نگاہ ماں کے ناراض چہرے پر ڈالی۔ زارا بیگم دوسری طرف سے خود ہی اترنے لگیں۔ وہ بھی گاڑی سے اتر کر گھومتی ہوئی ماں کی طرف بڑھی۔
’’امی پلیز! مجھے معاف کردیں۔‘‘ اس نےان کاہاتھ زبردستی پکڑ رکھا تھا۔اس کا اندازمنت کرنے والا تھا۔ زارا بیگم نے اس کی سیاہ آنکھوں میں دیکھا۔جو رات بھر جاگنے سے سرخ ہوچکی تھیں۔
’’عالیانہ چھوڑو میرا ہاتھ! باہر تماشہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘ وہ اس سے ناگواری سے اپنا ہاتھ چھڑانے لگیں۔
’’ممی پلیز! آپ مجھے اپنی صفائی میں کہنے کا موقع تو دیں۔ آپ جیسا سمجھ رہی ہیں ویسا کچھ نہیں ہے۔‘‘ہاسپیٹل کے سامنے وہ دونوں کھڑی دھیمی آواز میں بات کررہی تھیں۔ اطراف میں اکا دکا لوگ چلتے جارہے تھے۔ ہاسپیٹل کی پارکنگ شاید کچھ دور بنی تھی۔ اس لیے ابرار صاحب ابھی تک نہیں پہنچے تھے۔ اس کی بات سن کر زارا بیگم اس کی طرف غصے سے گھومیں۔
’’کیا غلط سمجھ رہی ہوں میں عالیانہ؟ وہ لڑکا تمہارا نام اتنے استحقاق سے لے رہاتھا۔ آخر کیوں؟ کیا لگتی ہو تم اس کی؟‘‘ ان کا صدمہ اب غصے میں بدل رہا تھا۔ وہ دبی دبی آواز میں اس پر چیخ رہی تھیں۔
’’امی !وہ…وہ بس…دوست ہے…اور کچھ نہیں۔‘‘ اس کی آواز کانپ رہی تھی۔ عالیانہ کی سمجھ میںنہیں آیا کہ وہ اپنی ماں کے سامنے فاخر سے جڑے اپنے رشتےکاکیانام سے بتائے؟ اس رشتے کا تو کوئی نام ہی نہیں تھا، اور جو نام اس رشتے کو لوگوں نے دیا کیا تھا وہ اتنا عزت دار نہیں تھا کہ وہ اپنی ماں کے سامنے اسے لے پاتی۔
’’دوست ہے!‘‘ زارا بیگم نے ناپسندہ لہجے سے اس کے الفاظ دہرائے۔
’’ہمارے خاندان میں اس طرح لڑکوں سے کب سے دوستی کی جانے لگی ہے عالیانہ؟ بتاؤ مجھے تم۔‘‘ وہ صدمے سے بلند آواز سے بولی۔
’’ اور تم ابھی بھی مجھ سے جھوٹ بول رہی ہو۔‘‘ انھوں نے غصے سے اس کابازو پکڑ کر زور سے جھٹکا دیا۔
’’وہ لڑکا تم کو اتنے دھڑلے سے بیوی بنانے کی باتیں کررہا تھا اور تم کہہ رہی ہو کہ وہ صرف دوست ہے! ‘‘ اسے ان کے لہجے میں خود کے لیے حقارت، ناپسندیدگی اور پتہ نہیں کیا کیا محسوس ہورہا تھا ،وہ بتا نہیں سکتی تھی۔
جن آنکھوں میں اس نے ہمیشہ محبت اور اپنائیت دیکھی تھی،آج وہ آنکھیں اسے ناگواری کے ساتھ دیکھنے سے بھی انکاری تھیں۔فاخرکے لیے ان کےمنہ سے یہ الفاظ اسے بری طرح چبھے تھے۔
’’امی !وہ…وہ ایسا نہیں ہے جیسا آپ سمجھ رہی ہیں۔ وہ بہت اچھا ہے۔ بہت زیادہ اچھا۔وہ مجھ سے بہت محبت کرتا ہے ممی! بس آپ…آپ میرا… ‘‘وہ کہتے کہتے اٹکنے لگی۔ زارا بیگم حیرانی سے اسے دیکھ رہی تھیں۔
’’تم اتنی…(انھوں نے ’’اتنی‘‘ پر زور دے کر کہا۔)اتنی زیادہ بے حیا کب ہوگئیں عالیانہ؟ ابھی بھی تمھیں اس لڑکے کی فکر ہے، اس کے بارے مجھے بتارہی ہو۔ اتنی بے حیا کیسے ہوسکتی ہوتم؟ ‘‘ انھیں یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ کس طرح اس اجنبی لڑکے کا ذکر ان کے سامنے کررہی تھی۔ یہ اتنا آگے کیسے بڑھ گئی تھی ؟ وہ سمجھ بھی نہیں پارہی تھیں۔اس کا یہ انداز انھیں حیران کررہا تھا۔ وہ سمجھی تھی کہ وہ شرمندہ ہوگی۔ معافی مانگے گی۔ اس لڑکے سے کبھی نہ تعلق رکھنے کے وعدے کرےگی لیکن یہ تو…یہ تو اس کا نام لیتی نہیں تھک رہی تھی۔ بخار سے سرخ ہوتی ان کی آنکھیںبھیگنے لگی تھیں۔
’’ عالیانہ ! تم اگر چاہتی ہوکہ میں زندہ رہو ںاور تم میری بیٹی بنی رہو تو عالیانہ!تمھیں قسم ہے میری، تم اس لڑکے سے کبھی رابطہ نہیں کروگی۔‘‘ انھوں نے بھیگتی آنکھوں کو صاف کرکر غصے سے اس کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔عالیانہ کو لگا کسی نے پورا پہاڑ اس کے سر پر پھینک دیا ہو۔ان لفظوں کی تکلیف پہاڑ پھینکےجانے والی تکلیف سے کہیں زیادہ تھی۔
’’امی…‘‘ وہ گنگ ہوگئی۔ کیا وہ اس کے بغیر بھی زندہ رہ سکتی تھی؟کیا جسم روح کے بغیر بھی زندہ رہتے ہیں بھلا۔ اس کے دل کی حالت پر لعنت بھیجتی زارا بیگم کہے جارہی تھیں۔
’’اور اگر تم نے میری بات نہیں مانی تو عالیانہ تم ابھی اپنے بابا کو جانتی نہیں ہو۔‘‘ بابا کے نام پر عالیانہ کا سانس رکنے لگا۔ اس کے سارے الفاظ ختم ہوگئے تھے۔
’’وہ تمھیں نہیں ماریں گے۔ جن ہاتھوں سے رو رو کر تم کو اللہ سے دعاؤں میں مانگا تھا۔ ان ہی ہاتھوں سے وہ تم کو نہیں ماریں گے عالیانہ!‘‘ زارا بیگم بلند آواز سے کہہ رہی تھیں۔ وہ ہوش میں نہیں لگتی تھیں۔اپنی بیٹی کے صدمے نے انھیں پاگل سا کردیا تھا۔وہاں ان کے علاوہ کوئی نہیں تھا۔پرندہ بھی نہیں۔
’’وہ پتہ ہے کیا کریں گے؟وہ …وہ خود کو ماریں گے۔‘‘ انھوں نے دونوں ہاتھوں کی مٹھیاں بنا کر اپنے سینے پر ماری۔
’’ہر قصور کے لیے۔ تھوڑا تھوڑا روز خود کو ماریں گے۔‘‘ وہ چپ سی کسی میکانیکی کیفیت کے زیر اثر ان کو ہونقوں کی طرح دیکھ رہی تھی۔
’’ تمھیں دعاؤں میں کیوں مانگا؟ اس قصور پر ماریں گے۔‘‘ زارا بیگم کی سانس بولتے بولتے چڑھنے لگی تھی۔
’’تمھیں اتنا پیار کیوں دیا؟ اس قصور پر ماریں گے۔ ‘‘ لیکن وہ پھر بھی کہے جارہی تھی۔
’’ تم پر اتنا اعتبار کیوں کیا ؟اس قصور پر ماریں گے۔‘‘ عالیانہ کی نیلی آنکھیں نیلے پانی سے خالی تھیں۔ ایسی جیسے اس میں کبھی نیلا پانی ٹھہرا ہی نہیںتھا۔
’’ تمھاری خوشی کو کیوں خود کی خوشی پر مقدم رکھا؟ اس قصور پر وہ خود کو روز ماریں گے عالیانہ!‘‘ زارا بیگم نے اس کوکندھوں سے پکڑ کر جھنجوڑا۔
’’اور ایک دن… دھیرے دھیرے خود کو مارتے مارتے وہ…وہ مر جائیں گے،اور ساتھ میں بھی…‘‘ نیلے آنکھوں نے کرب سے ماں کی ڈوبتی آنکھوں میں دیکھا۔کیا ان الفاظ سے زیادہ تکلیف بھی کوئی اور الفاظ دے سکتے تھے؟
’’پھر خوش رہوگی تم اس لڑکے کے ساتھ ؟ ہمارے بغیر خوش رہ لوگی تم؟ ‘‘ انھوں نے بہتے آنسوؤں کے ساتھ اس کاکندھا چھوڑا۔ وہ جھٹکے سے دو قدم پیچھے گرتے گرتے سنبھلی۔
زارا بیگم کو ابرار صاحب دور سے آتے دکھائی دینےلگے۔ انھوں نے اس پر آخری نگاہ ڈالی اور مڑکر اپنے آنسو صاف کیے،اور لمبی لمبی سانسیں لے کر خود کو نارمل کرنے کی کوشش کرنے لگیں۔ وہ کسی بھی حال میں ابرارصاحب کویہ بات نہیں بتا سکتی تھیں۔ وہ اتنا بڑا صدمہ اس عمر میں نہیں سہہ سکتے تھے۔ اگر انھیں کچھ ہوجاتا توَ پھر وہ کیا کریں گی؟ وہ پیچھے سے ان کے قریب آتے کہنےلگے:
’’سوری! کچھ دیر ہوگئی۔ بہت سی گاڑیاں تھیں پارکنگ میں۔ اس لیے دیر ہوگئی۔ چلو چلتے ہیں۔ آرام سے آئیے بیگم!‘‘ وہ زارا بیگم کا ہاتھ پکڑے ہاسپیٹل کے اندر جانے لگے۔ وہ بھی ان کے پیچھے میکانیکی انداز میں چل رہی تھی۔
نامحرم سے محبت لڑکیوں کو بانٹ کر رکھ دیتی ہے۔ خود کے اور والدین کے درمیان۔ وہ نہ کسی طرف جھک سکتی ہیں نہ کسی کا مکمل بن سکتی ہیں۔ یہ محبت دھیرے دھیرے ان کے لیے موت کا روگ بنتی جاتی ہے، کیوں کہ موت کے علاوہ کوئی چیز انھیں سکون نہیں دے سکتی،اور کم بخت موت ہی پر ان کا کوئی بس نہیں ہوتا۔

(جاری…)

٭ ٭ ٭

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Sadaf

    Mashallah
    Zeberdest
    Bhtt aala jaarahi hai story

    Reply
  2. Adrees jahan

    Mashallah acchi lagi ye qistt

    Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے