جولائی ۲۰۲۴
زمرہ : النور

عن حفص بن عاصم قال : قال رسول اللٰہ صلی اللہ علیہ وسلم: ‘‘کفی بالمرء کذبا أن یحدث بکل ما سمع .’’

(رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کے جھوٹا ہونے کے لیےیہی کافی ہے کہ وہ ہر سنی ہوئی بات بیان کردے ۔‘‘)(صحیح مسلم)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ تعلیم واضح کرتی ہے کہ جو آدمی ہر سنی سنائی بات بغیر تحقیق کے بیان کرنے لگے وہ خود کو جھوٹ میں مبتلا کرتا ہے ،اور جھوٹ بولنے کے گناہ کے ساتھ اس بلا تحقیق بات کے نتیجے میں اگر کوئی مسئلہ یا اختلاف لڑائی وغیرہ پھوٹ پڑے تو اس کا وبال بولنے والے پر ہوگا، وہ یہ کہہ کر بری نہیں ہوسکتا کہ میں نے فلاں جگہ، فلاں سے سنا تھا۔ سنی ہوئی بات آگے بیان کرنے سے پہلے اس کی تحقیق ضروری ہے۔
اس معاملے میں ہم کوتاہ واقع ہوئے ہیں، کوئی بات سنی اور فوراً اسے دوسرے سے بیان کردی، خاص کر جس فرد کے متعلق یہ بات ہوتی ہے اس کے مخالفین تک پہنچانے میں بلا کی پھرتی کا مظاہرہ ہوتا ہے۔ اسی طرح اسے طعنہ دینے میں تھوڑی بھی تاخیر پسند نہیں ہوتی،بلکہ مبالغہ آرائی اور ملاوٹ کے ساتھ اس بات کو آگے بڑھانے میں ہر ایک اپنا رول بہت خوبی کے ساتھ ادا کرتا رہتا ہے ،اور اس وقت وہ بھول جاتا ہے کہ وہ کتنے بڑے گناہ میں اپنے آپ کو مبتلا کر رہا ہے ۔
واٹس ایپ کے دور میں یہ مزاج زیادہ تیز ی سےپروان چڑھ رہا ہے۔جس کے نتیجے میں لوگوں میں دشمنیاں ،عداوتیں ، لڑائیاں ، بغض و حسد اور ناراضگی بڑھ جاتی ہے۔یہ مزاج سخت ناپسندیدہ اور گھر ،سماج ،دوست ،احباب بلکہ ہر رشتے کے درمیان مہلک کردار ادا کرتا ہے، اس لیےقرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں بیش تر مقامات پر سنی سنائی بات کو بغیر تحقیق کے پھیلانے سے روکا گیا ہے ۔
سورۂ حجرات آیت نمبر 6 میں فرمایا :

یا أیھا الذین آمنوا ان جاءکم فاسق بنبإ فتبینوا أن تصیبوا قوما بجھالۃ فتصبحوا علی ما فعلتم نادمین

(اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی سی خبر لائے تو اس کی تحقیق کر لیا کرو، کہیں کسی قوم پر بے خبری سے نہ جا پڑو پھر اپنی کیے پر پشیمان ہونے لگو۔)
سورۃ النساء آیت نمبر 83 میں فرمایا:
’’اور جب ان کو کوئی بات امن یا خطرے کی پہنچتی ہے تو وہ اسے پھیلا دیتے ہیں ،اور اگر یہ اس کو رسول اور اپنے اولو الامر کے سامنے پیش کرتے تو جو لوگ ان میں سے بات کی تہہ کو پہنچنے والے ہیں وہ اس کو اچھی طرح سمجھ لیتے۔‘‘
سورۂ اسراء آیت نمبر 36میں ہےکہ:
’’جس بات کا یقینی علم نہ ہو اس کے پیچھے نہ پڑو، کیوں کہ کان ، آنکھ ، دل ان سب سے قیامت کے دن پوچھ گچھ ہوگی۔‘‘
قرآن کریم کی یہ آیتیں ہم کو یہ سبق دے رہی ہیں کہ یہ زبان جو اللہ تعالیٰ نے تمھیں دی ہے ۔ یہ اس لیے نہیں دی کہ اس کے ذریعہ تم جھوٹی افواہیں پھیلاؤ، اور اس کے ذریعہ تم لوگوں پر الزام عائد کرو اور خود کو گناہ گاروں میں شامل کرو، بلکہ تمھارا فرض ہے کہ جب تک کسی بات کی مکمل تحقیق نہ ہو جائے اس کو زبان سے ہرگز نہ نکالو، کیوں کہ اس کے نقصان دہ اور مہلک نتائج بہت زیادہ ہیں۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
’’ جو آدمی کوئی ایسی بات بیان کرے جس کے بارے میں وہ جانتا ہےکہ یہ جھوٹی ہے، تو دو جھوٹوں میں سے ایک جھوٹا وہ بھی ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے خبر ملی کہ حضور اکرم صلّی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ازواج مطہرات کو طلاق دے دی ،تو اس بری خبر کو سن کر میں بہت زیادہ پریشان ہوگیا۔ جب مسجد پہنچا تو وہاں بھی لوگ یہی باتیں کر رہے تھے۔ میں نے پیارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم سے اس خبر کا ذکر کیا تو پتہ چلا کہ خبر غلط ہے ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوراً مسجد کے دروازے پر کھڑے ہوکر بلند آواز میں اعلان کیا کہ یہ خبر غلط ہے اور اس کو پھیلانے والے گناہ گاروں میں شامل ہوں گے۔
اس لیے ہم کو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بلا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔چاہے ہم کسی پروگرام   میں تقریر کر رہے ہوں،یا آپس کی باتیں کر رہے ہوں، یا کسی کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوں،یا کسی میگزین وغیرہ کے لئے آرٹیکل لکھ رہے ہوں،کیوں کہ تحریر ایک باقی رہنے والی چیز ہے ۔مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے اور لوگوں پر اس کے اچھے یا برے اثرات پڑتے ہیں۔اس لیے زبان کے ساتھ ہم کو بغیر تحقیق کے اپنا قلم چلانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

اور بات بات پر فیس بک ، واٹس ایپ، انسٹاگرام، یوٹیوب، ڈراموں پر آنے والے ویڈیوز کو سن کر اور دیکھ کر بلا تحقیق باتیں آگے نہیں بڑھانی چاہئیں اور نہ ہی ان کا حوالہ دینا چاہیے۔اگر ہم سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جو ہم نہیں جانتےیا جس کی مکمل تفصیل سے ہم آگاہ نہ ہوں تو صاف لفظوں میں بول دینا چاہیے:مجھے نہیں معلوم۔واللہ اعلم بالصواب (اور اللہ تعالیٰ ہی زیادہ بہتر جاننے والا ہے ۔)
اکابر صحابۂ کرام سے جب کوئی ایسا مسئلہ دریافت کیا جاتا جس کا انھیں یقینی علم نہ ہو تو وہ برملا کہتے کہ میں نہیں جانتا ،فلاں سے دریافت کرلیں۔
امام احمد بن حنبلؒ کے فتووں کا مطالعہ کریں گے تو جگہ جگہ آپ امام کو یہ کہتے پائیں گے :
’’میں نہیں جانتا۔‘‘
’’مجھے اس کا علم نہیں۔‘‘
’’میرے پاس اس کا جواب نہیں۔‘‘
’’دیگر علماء سے دریافت کرو۔‘‘
’’جواب دینے سے میں قاصر ہوں۔‘‘
امت مسلمہ کے درمیان امام ابن حنبلؒ کا علمی مقام مسلم ہے اور آپ کا یہ رویہ تھا، تو ہمیں کس قدر احتیاط اور تحقیق سے کام لینا ہوگا؟ ذرا سوچیں!
اللہ پاک ہم سب کو سنی سنائی بات پھیلانے سے بچائے۔ آمین یا رب العالمین !

٭ ٭ ٭

ویڈیو :


 ہم کو اس بات کا ہمیشہ دھیان رکھنا چاہیے کہ ہم بلا تحقیق کوئی بات آگے نہ بڑھائیں۔چاہے ہم کسی پروگرام میں تقریر کر رہے ہوں،یا آپس کی باتیں کر رہے ہوں، یا کسی کے سوالوں کا جواب دے رہے ہوں،یا کسی میگزین وغیرہ کے لئے آرٹیکل لکھ رہے ہوں،کیوں کہ تحریر ایک باقی رہنے والی چیز ہے ۔
مدتوں تک لوگوں کی نظر سے گزرتی رہتی ہے اور لوگوں پر اس کے اچھے یا برے اثرات پڑتے ہیں۔اس لیے زبان کے ساتھ ہم کو بغیر تحقیق کے اپنا قلم چلانے سے بھی گریز کرنا چاہیے۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے