موت کے فیصلے
فوجی افسر نے (سید مودودی سے)کہا :
’’آپ کو ’’قادیانی مسئلہ ‘‘تصنیف کرنے کی وجہ سے موت کی سزادی جاتی ہے ، جس کے خلاف آپ کو اپیل کا کوئی حق نہیں ۔ آپ صرف رحم کی درخواست سات روز کے اندر کر سکتے ہیں اور مارشل لا کے دوران آپ نے پریس میں جو بیان دیا تھا اس جرم میں آپ کوسات سال قید با مشقت کی سزا دی جاتی ہے ۔‘‘
مولانا مودودیؒ صاحب نے موت کی سزا کا حکم سنتے ہی فرمایا کہ ’’موت کے فیصلے زمین پر نہیں، آسمان پر ہوتے ہیں۔ اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ ہو گیا ہے تو دنیا کی کوئی طاقت مجھے موت سے نہیں بچا سکتی اور اگر آسمان پر میری موت کا فیصلہ نہیں ہوا تو آپ لوگ اُلٹے بھی لٹک جائیں تو میرا بال بھی بیکا نہیں کر سکتے ۔ مجھے کسی سے کوئی درخواست وغیرہ نہیں کرنا ہے، آپ لوگ اپنا کام کریں۔‘‘
کتاب: اہل پاکستان کےلیے راہ نجات
تبادلۂ خیال
معروف امریکی سیاست داں اور عہد ساز حکم راں ابراہام لنکن نے کہا تھا: ’’اگر میرے پاس ایک ڈالر ہو،اور تمھارے پاس بھی ایک ڈالر ہو، پھر یہ ڈالر ہم ایک دوسرے سے تبدیل کر لیں تو ہم دونوں کے پاس ایک ایک ڈالر ہی ہوگا، لیکن اگر میرے پاس ایک خیال ہواور آپ کے پاس بھی ایک خیال ہو۔ پھر وہ خیال ہم ایک دوسرے سے تبدیل کر لیں ،تو ہم دونوں کے پاس دو دو خیال ہو جائیں گے۔‘‘
زندگی کے حوالے سے اپنے تجربات، مشاہدات اور خیالات شیئر کرتے رہا کریں ! ہو سکتا ہے کہ آپ کا آئیڈ یا کسی انسان کی فکر میں جان ڈال دے اور اس کو وہ فائدہ حاصل ہو جائے، جو شاید آپ کو حاصل نہ ہو سکے۔
کتوں کا مشاعرہ
کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گد گدائی انھوں نے باہر سڑک پر آکر’’ طرح‘‘ کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کر دیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔
اس پر شمال مشرق کی طرف سے ایک قدر شناس کتے نے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہوا کہ کچھ نہ پوچھیے۔ کم بخت بعض تو دو غزلے، سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے۔ وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ ہم نے کھڑ کی میں سے ہزاروں دفعہ ’’آرڈر آرڈر !‘‘ پکارا، لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھے کہ میاں تمھیںکوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جا کر طبع آزمائی کرتے ۔ یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے؟
پطرس بخاری
اندازِکرم
ایک ایرانی فلم ساز نے عوامی آگہی کے لیے یہ ایک منٹ کی مختصر سی فلم بنائی ہے۔جس کی کہانی یہ ہے کہ غریب باپ نے دوکان سے روٹی چرالی لیکن جیسے ہی باہر کی طرف مڑا تو جاتے ہوئے اُس کو دکان دار روک لیتا ہے۔
بیٹی جو ناسمجھ ہے، باپ سے پُوچھتی ہے کہ کیا ہوا؟
باپ پریشان ہوتا ہے اور معافی مانگنے کےلیے لب کھولتا ہی ہے کہ اتنے میں دکان دار کہتا ہے کہ بیٹی! تمھارا باپ بقایا پیسے بھول گیا تھا، اس کے ساتھ ہی وہ کچھ رقم گن کر اسے پکڑا دیتا ہے۔
باہر جاتے ہوئے باپ ندامت اور مجبوری کے مارے لاچار دکھائی دیتا ہے تو دکان میں موجود دوسرا شخص آواز لگا کر کہتا ہے کہ تم چاول کا تھیلا بھی بھول رہے ہو۔
اگر آپ لوگوں کا پردہ رکھتے ہوئے ان کی مدد کریں گے تو قیامت کے دن اللہ بھی آپ کا پردہ رکھتے ہوئے اپنا کرم اور انعامات آپ پر نچھاور کرے گا۔
خلوص وسادگی
مفتی محمد تقی عثمانی صاحب ایک دن درس دے کر نکلے کہ پیچھے ایک چھوٹی کلاس کا پٹھان طالب علم دوڑتا ہوا آیا،کہنے لگا:
’’تقی صیب ! دل چاہتا اے آپ کو چائے پلائے، لیکن تم مصروف آدمی اے اور وقت امارے پاس بھی کوئی نئی۔ یہ دس روپے لے لو، سات روپے کا چائے اور تین روپے کا بسکٹ اماری طرف سے۔‘‘
مفتی صاحب فرماتے ہیں:
’’اس سے زیادہ پر خلوص تحفہ مجھے کبھی کسی نے نہیں دیا۔‘‘ فرماتے ہیں کہ وہ نوٹ آج بھی میرے پاس محفوظ ہے۔
مکھی
خلیفہ منصور عباسی کی ناک پر مکھی بار بار بیٹھتی اور اڑتی رہی ۔ منصور نے تنگ آکر مقاتل بن سلیمان سے کہا کہ معلوم نہیں اللہ تعالیٰ نے مکھی کو کیوں پیدا کیا؟
مقاتل بن سلیمان نے کہا :
’’اللہ تعالیٰ نے اس لیے اس کو پیدا فرمایا کہ یہ تمھارے جیسوں کے تکبر کو ختم کردے۔‘‘
کتاب: تاریخ الاسلام ،از:شمس الدین الذہبی
دیوانے کا خطبہ
خطیب صاحب ذرا لیٹ ہو گئے تو ایک دیوانہ منبر پر خطبہ دینے پہنچ گیا۔ لوگوں نے اسے نیچےاتارنے کی کوشش کی، مگر ایک ذمہ دار شخص نے انھیں منع کر دیا۔ مجنون منبر پرچڑھا اور خطبہ دینے لگا:
’’ تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جس نے سب کو دو (ماں اور باپ )سے پیدا کیا اور دو جنسوں( مرد و عورت) میں تقسیم کیا۔ پھر ان میں سے کچھ کو مال دار بنایا تاکہ وہ خدا کا شکر بجا لائیں اور کچھ کو فقیر چھوڑا تاکہ وہ صبر کریں، مگر نہ تو امیر لوگ شکر کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی فقیر صبر کرتے دکھائی دیتے ہیں، سب پر خدا کی لعنت ہو۔ نماز کے لیے صفیں سیدھی کر لو منافقو!‘‘
عربی سے ترجمہ
لیڈر کیسے بنتے ہیں؟
ہمارے ہاں لیڈر بنتے ہیں دولت کی فراوانی سے سرکار کی خوشنودی سے، وزارت کے راستے سے، کرسی کے فضل سے، غنڈوں کی رفاقت سے، اخباروں کی پبلسٹی سے، ورکنگ جرنلسٹوں کے قلم سے، حکام کی جاسوسی سے، اکابر کی ذریت سے، بادہ خواروں کی چوکھٹ سے…جب کہ دوسرے ملکوں میں لیڈر بنتے ہیں نفس کی قربانی سے، دولت کے ایثار سے، جان کے زیاں سے، خدمت کی راہ سے، علم کے کمال سے،نگاہ کی بصیرت سے، عوام کی رفاقت سے، عقائد کی پختگی سے، اصول کی پیروی سے، نصب العین کی محبت سے اور قید خانوں کی ضرب سے۔
شورش کاشمیری
ناقدری
اپنی وفات سے کچھ عرصہ قبل دانشور شاعر احسان دانش نے اپنا پورا کتب خانہ ایک لاکھ روپے میں بیچ ڈالا۔
ایک سینیئر صحافی نے حیرت اور تعجب سے پوچھا:
’’آپ نے اتنا قیمتی خزینہ کیوں فروخت کر دیا؟‘‘
احسان دانش افسوس سے بولے:
’’چند روز قبل میں نے اپنی بہو کو دیکھا، بیٹھی چائے بنا رہی ہے،اس حالت میں کہ ایک کتاب پاس رکھی ہے اور اسے ورق ورق کر کے چولہے کی نذر کرتی جا رہی ہے۔یہ دیکھ کر میرا دل دکھ سے بھر گیا، میں نے سوچا، میرے ہوتے ہوئے یہ حال ہے تو میرے بعد نہ جانے ان کتابوں سے کیا سلوک ہو،سو ذہن میں اسی دن سے سوچنا شروع کر دیا تھا کہ اپنی کتابیں کسی ٹھکانے لگ جائیں، یہی اچھا ہے۔
میری ذاتی لائبریری کی کتابوں کے کئی خواہش مند تھے، جو زیادہ موزوں نظر آیا،اسے سب بیچ ڈالیں۔‘‘
ڈاکٹر فوزیہ تبسم(صوفی تبسم کی پوتی)
پچیس لفظوں کی کہانی
بلاک
ینے کا پانی ختم تھا، فون کیا تو جواب ملا:
’’سر! محرم کے جلوس کی وجہ سے سارے راستے بلاک ہیں، گاڑی نہیں پہنچ سکتی، سوری!‘‘
احمد بن نذر
٭ ٭ ٭
0 Comments