گرمیوں کی تعطیلات اختتام پذیر ہوئیں، اور ہم نے اپنے گھر کا رخ کیا ۔
دو ماہ مائکےمیں آرام سے مزے کیے ،اب کیا ؟گھر پہنچے تو دیکھا کہ باقاعدہ مکڑ یوں نے ہر طرف جال بچھا کر ہمارے گھر کو اپنا مسکن بنارکھا ہے اور تو اور،دیوارودر دھول سے اٹے پڑےہیں۔
او ہو ! ایک تو سفر کی تھکان،دوسرا یہ عذاب!
ہم نے بھی فوراً اپنی کام والی خالہ کو کال کیا، تاکہ ہمارے لیے آسانی ہو جائے۔
لو !یہ خالہ بھی کیا؟ جو آئیں تو سنانے لگیں:
’’ بی بی جی! محرم کا مہینہ لگ چکا ہے،ان دنوں نہ جالے نکالےجاتے ہیں اور نہ کوئی صفائی کی جاتی ہے۔‘‘
ہمارے کان کھڑے ہوئے۔ ہم نے پوچھا کہ اچھا؟ خالہ !اور کیا کیا نہیں کیا جاتا اس ماہ میں؟ کہنے لگیں کہ بی بی جی !نہ سل پتھر پر مسالہ پسا جاتا اور نہ کوئی خوشی کے کام کیے جاتےہیں، کیوں کہ یہ مہینہ خاص طور پر غم کا مہینہ ہوتا ہے، خوشی کے کام نہیں کیے جاتے، دسویں تاریخ تک تو بالکل بھی نہیں۔
ہمارے ساتھ بچے بھی تھے ،انھیں بھی بڑی تجسس ہوا۔ پوچھنے لگے:
’’ مما بتائیے ناں !ایسا کیوں کیا جاتا ہے؟ پلیز بتائیے ناں!‘‘
موقع اچھا تھا۔ہم سب کےساتھ بیٹھ گئے اور لگےمحرم کی اہمیت بتانے۔ شروع تو ہم نے قرآن مجید کی سورۂ توبہ کی آیت نمبر: 36 سے کیا کہ قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
’’بے شک شریعت میں مہینوں کی تعداد ابتداء آفرینش سے ہی اللہ تعالیٰ کے یہاں بارہ ہے۔ ان میں چار حرمت کے مہینے ہیں۔ یہی مشعل ضابطہ ہے تو ان مہینوں میں ناحق قتل سے اپنی جانوں پر ظلم نہ کرو۔‘‘
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایام تشریق میں منیٰ میں حجۃ الوداع کے موقع پر خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:
’’لوگو! زمانہ گھوم پھر کر آج پھر اسی نقطے پر آگیا ہے جیسا کہ اس دن تھا جب کہ اللہ نے زمین و آسمان کی تخلیق فرمائی تھی۔ سن لو! سال میں 12 مہینے ہیں جن میں چار حرمت والے ہیں :ذوالقعدہ،ذوالحجہ ،رجب،محرم ۔‘‘
حضرت قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ ان مہینوں میں عمل صالح بہت ثواب رکھتا ہے اور ان مہینوں میں ظلم و زیادتی بہت بڑا گناہ ہے۔
ماہ محرم میں تو عبادت اور روزوں کی فضیلت صحیح حدیث سے ثابت ہیں لیکن خصوصی طور پر یوم عاشورہ یعنی 10 محرم کے روزے کے متعلق کثرت سے احادیث آئی ہیں۔
قتادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عاشورہ کے روزے کی فضیلت کے متعلق دریافت کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے ایک سال گذشتہ کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (مسلم)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ منورہ تشریف لائے تو قوم یہود کو عاشورے کے دن کا روزہ رکھے ہوئے پایا ۔جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ یہ کون سا دن ہے جس کا تم روزہ رکھتے ہو؟ انھوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم دن ہے، اس میں اللہ تعالی ٰنے موسی علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات دی تھی اور فرعون اور اس کی قوم کو غرق کیا تھا، اس پر موسیٰ علیہ السلام نے اس دن شکر کا روزہ رکھا، بس ہم بھی ان کی اتباع میں اس دن کا روزہ رکھتے ہیں۔ یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہم تمھاری نسبت حضرت موسیٰ علیہ السلام کے زیادہ قریب اور حق دار ہیں، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔
( مشکوٰۃ )
ایک روایت میں ذکر ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہود دس محرم کا روزہ رکھتے ہیں، تم ان کی مخالفت کرو اور اس کے ساتھ نو تاریخ کا روزہ بھی رکھو۔
یوم عاشورہ سے متعلق اور بہت سے تاریخی پہلو ہیں۔یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول کی۔اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت ادریس علیہ السلام کو بلند درجات عطا فرمائے۔اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتش نمرود سے نجات دی۔ یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی پر سےاتارا۔یہی وہ دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر تورات نازل کی۔اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت یوسف علیہ السلام کو جیل سے چھٹکارا دلایا تھا۔اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت ایوب علیہ السلام سے مصیبتیں اور پریشانیاں دور کی تھیں۔یہی وہ دن ہے جس میں حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نکالا گیا تھا۔اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کو توبہ قبول کرنے کی توفیق ہوئی تھی۔ اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسی ٰعلیہ السلام کو دریا عبور کروایا تھا۔
ماہ محرم اور عاشورہ بہت ہی بابر کت اور مقدس ہیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے اس بابرکت مہینے میں زیادہ سے زیادہ عبادت میں مشغول ہو کر خدا تعالیٰ کی خاص رحمت کا اپنے اپ کو مستحق بنائیں ،مگر ہم نے اس مبارک مہینے کو خصوصاً یوم عاشورہ کو طرح طرح کی خود تراشیدہ رسومات و بدعت کا مجموعہ بنا کر اس کے تقدس کو پامال کردیا۔
چند خرافات کا پابند بن کر بجائے ثواب حاصل کرنے کے الٹا معصیت اور گناہ میں مبتلا ہونے کا سامان کر لیا۔ یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ جس طرح اس مہینے میں عبادات کا ثواب زیادہ ہو جاتا ہے، اسی طرح اس ماہ کے اندر معصیات کے وبال وعتاب کےبڑھ جانے کا بھی اندیشہ ہے، اس لیے ہر مسلمان نے اس مہینے میں خرافات سے احتراز کرنا چاہیے۔جیسے کہ ماتم کی مجلس اور تعزیے کے جلوس میں شرکت،دسویں محرم کو حلیم پکانا،ایصال ثواب کے لیے کھانا پکانا، پانی یا شربت کی سبیل لگانا ،مٹھائی تقسیم کرنا،محرم میں نکاح نہ کرنا، اصل میں شیعہ حضرات اس ماہ کو منحوس سمجھتے ہیں، وہ اس وجہ سے کہ ان کے نظرمیں شہادت بری چیز ہے، اور اس دن حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ کی شہادت ہوئی تھی اس لیے کوئی خوشی کا کام یا تقریب ،شادی بیاہ وہ نہیں کرتے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کا صحیح فہم عطا فرمائے اور ہر قسم کے گناہوں اور معصیتوں سے محفوظ رکھے، آمین ثم آمین!
٭ ٭ ٭
0 Comments