نند اور بھابھی کے رشتے کو کیسے مضبوط کریں؟
السلام علیکم ورحمۃ اللہ
میں اپنے شوہر اور بچوں کے ساتھ ایسی فیملی میں رہتی ہوں، جہاں ساس سسر اور دو دیور بھی ہیں۔ چوں کہ اس گھر میں، میںاکیلی بہو ہوں، اس لیے سبھی ممبران کا کام میرے ذمہ ہے۔ میرے اپنے بھی تین چھوٹے بچے ہیں ۔ ذمہ داریاں مجھ پر زیادہ ہیں۔ علاوہ ازیں تحریکی کام بھی ان مصروفیات کے ساتھ انجام دیتی ہوں اور کسی حد تک تحریکی زندگی اور خاندانی زندگی میں تال میل بنانے کی بھی کوشش کرتی ہوں ۔
مسئلہ یہ ہے کہ میری شادی شدہ نندیں دو دو تین تین ماہ کے لیے پوری فیملی کے ساتھ گھر پر آجاتی ہیں ۔ساس ضعیف ہیں، وہ کام میں تعاون نہیں کرسکتیں اور نہ میں کروانا چاہتی ہوں۔ لیکن نندوں کا اتنے دن رکنا اور پھر کام کو ہاتھ نہ لگانا، باعثِ تکلیف ہے۔
دوران حمل بیڈ ریسٹ کے وقت بھی اہلِ خانہ کا مجھ پر منحصر رہنا، بہت جھنجلاہٹ طاری کردیتا ہے۔کبھی جھنجلاہٹ کا شکار ہوکر میرا رویہ تبدیل ہوجائے تو نندیں ردعمل کے طور پربات نہیں کرتی ہیں ۔میں گھر کاماحول خراب کرنا نہیں چاہتی ۔ میں پورےگھر کا کام سنبھالتے ہوئے اپنے بچوں پر بھی توجہ نہیں دے پارہی ہوں ۔
میری رہ نمائی فرمائیں کہ میں کیسے ساس اور نندوں کو سمجھاؤں کہ وہ بھی گھر کے کاموں میں تعاون کریں ۔
ڈاکٹر خان مبشرہ فردوس سے رہ نمائی حاصل کرنے کے لیے نیچے کلک کریں۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

4 Comments

  1. Nusrathjahan

    Assalamualaikum wrwb Meri bahen àapnay sirf ek..hi rukh pesh Kiya hai duniya mein nand Kay rishtay ku naqabil e qabool samjha jaraha hai nanad ka wajood bardasth nahi karray nanad bhi bahen ki tarha huthi hai mufeed mashwarun say nawazay bhi tu galath fahmiyan paida huthi Hein Bhai bahen Kay rishtay ku hi qatam Kiya jaraha hai Allah Swt say dua hai Kay har bahen har rishtay ki ahmiyath samjhay Allahhafiz

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      بہن آپ دوسرے رخ پر اپنا سوال ہمیں لکھ بھیجں ان شاء اللہ وہ بھی جواب دیا جائے گا

      Reply
  2. ڈاکٹر زیبائش فردوس

    مشورہ سوال کی روشنی اورمسلہ کے پیش نظردیا گیا ہے کسی سے بد گمانی یا تنفر مقصود نہیں معاشرے کا رجحان یی بتاتا ہے کہ یہ ایک عام مسلہ ہے اور وہ خاص حالات ہوتے ہیں جب نند اور بھابی کا رشتہ دوستانہ اور مشفقانہ ہوتا ہے ۔یہاں بات صرف کاموں میں ہاتھ نہ بٹانے کی کی گئی ہے یہ حقیقت پر مبنی ہے انصاف کا تقاضہ ہے البتہ اگرنندوں کے الفاظ و انداز سے بد گمانیاں پیدا ہو رہی ہوں تو وہاں بہو یا بھابھی کو بھی محطاط رہنے کی ضرورت ہے خواہ مخواہ کی غلط فہمیاں اور بدگمانیاں نہ پالیں ہر ایک کے لئے مٹبت سوچ رکھیں تو دل مطمئن رہے گا وگرنہ وسوسے اور اندیشے دکھانا شیطان کا کام ہے تجسس اور ٹوہ میں نہ رہنا ہر ایک کے مشورے کو مخلصانہ قبول کرنا لیکن عمل کرنے میں اپنے فیصلے اختیار کرنا مفید لگے تو مان بھی لینا بے جا بیل حجت نہ کرنا ہر ایک کو خیر خواہ ہی تصور کرنا جو کوششیں آپ کی ذاتی سے تعلق رکھتی ہیں ان کا بھرپور خیال رکھنا اللہ سے پناہ مانگنا کہ اللہ انسانوں کے شر سے ان کی چالوں سے محفوظ رکھے جب کہ وہ ایسا کریں ہر فرد اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اسے اس کا حساب دینا ہوگا گھر میں اختلافات ختم کرکے معافی و درگزر سے کام لیتے ہوئے وعظ و تزکیر کی فضا قائم کریں احسن طریقے سے موقع بہ موقع قرآن و سنت کی نہ صرف مثالیں پیش کریں بلکہ اس کے ڈسکن میں سب کو شامل کریں امید ہے اللہ ہر ایک کے دلوں کی کدورتیں اپننی رحمت و برکت سے دور فرمائیں گے دوسروں کے دل بھی آپ کے لئے شفاف اور ہمدردی سے لبریز ہونگے وہ آپ کے بلند اخلاق کے قائل ہونگے گھر اقامت دین کی پہلی سیڑھی ہےاسے عبور کرنے میں اور دین قائم نافذ کرنے میں اللہ ہمارا حامی و ناصر ہو۔

    Reply
    • مبشرہ فردوس

      بہترین جواب یہ واقعہ ہے کہ یہاں جو بات پوچھی گئی اتنا ہی جواب دیا گیا ۔۔۔دوسرا رخ نند کا بے جا مداخلت کا بھی ہے جس سے انکار نہیں اور ایک رخ بھابی کو نند کو مطلق نفرت سے دیکھنا بھی ہے ۔۔۔آپ مے درست بات کہی کہ. تعلق کو بہتر رکھنے کی شعوری کوشش کرنی ہوتی ہے

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے