سمیع اللہ خان صحافی تجزیہ نگار سماجی رضاکار

کہتےہیں کہ ماں کی گود انسان کا اولین مدرسہ ہے ۔

’’ اطلبوا العلم من المھد الی اللحد ‘‘

(ماں کی گود سے قبر کی پیٹ تک علم حاصل کرو۔)
ان دونوں ترغیبات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اسلام کی سب سے پہلی وحی کے نظریاتی خاکے کو یاد کیجیے۔ فرشتۂ جبرئیل، ایک بظاہر ناخواندہ اور بظاہر سہمے ہوئے انسان کے کانوں میں پکار رہا ہے: ’’ اقراء، اقراء (پڑھو، پڑھو )۔اس منظر اور اس کی روحانی اثرانگیزی میں اپنے وجود کو ڈھیلا چھوڑتے ہوئے اگلے عملی قدم کے طورپر اب آپ ماں کی گود کے مدرسہ والی ترغیب کو سنیے اور سمجھیے۔ اگر آپ انہیں مربوط کر سمجھ گئے تو آپ کے ہاتھوں میں جو یہ رسالہ ہے، اس کی افادیت، اہمیت اور تعمیری ضرورت کو آپ سمجھ سکیں گے۔
اس وقت میرے پیش نظر ھادیہ کا پانچواں رسالہ ہے۔ میں نے انہیں تقریباً مکمل پڑھ لیا ہے۔ بہت ساری دشواریوں کو سر کرتے ہوئے وقت نکال کر اس رسالے کے شائع شدہ نصف سے زائد بلکہ ۸۰ فیصد مواد کو پڑھ لیا تو اس کےمتعلق میری رائے مزید مثبت ہوگئی اور میں اس کی ضرورت و افادیت کا معترف ہوگیا ۔
یہ رسالہ نیا نیا شروع ہوا ہے۔ یہ ہماری خواتین اور بچیوں کی جانب سے مسلمانوں کی ’ھادیہ‘ہے۔ یہ ایک ایسی شروعات ہے جو آگے چل کر مسلم بچیوں کا ’ ہر لحاظ ‘سے گہوارہ بنے گی۔ رسالے میں شائع شدہ، تمام مضامین، تجزیے اور نفسیاتی رہنمائی کے کالم مفید ہیں۔ کوئی بھی غیرضروری یا اپنے عنوان کے لحاظ سے بھی غیرمتعلقہ کالم میری نظر سے نہیں گزرا۔

مارچ کے شمارہ میں:

مضمون’اٹھ کہ اب بزم جہاں کا اور ہی انداز ہے‘ پڑھنے کو ملا، مکمل مضمون افادیت سے بھرپور ہے۔ سیاسی حالات کا ایسا بھرپور تجزیہ کسی خاتون کے قلم سے بہت کم دیکھنے کو ملتاہے، بالخصوص اردو داں خاتون۔
آخری پیراگراف میں مردوں کی متعصبانہ احساس برتری پر تنقید کی ہے، جس سے میں بحیثیت مرد سوفیصد اتفاق کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ بہت ہی تلخ حقیقت ہے کہ آج خواتین کی بڑھتی سرگرمیوں کے سلسلے میں بیش تر مردوں کا حال مردانہ انانیت اور متعصبانہ احساس برتری کے زاویے سے حرکت میں آتاہے۔ اس کےبعد مختلف قالب میں ڈھل کر اس کی ناصحانہ تعبیریں سامنے آتی ہیں، جو کم از کم ہم سے چھپ نہیں پاتیں۔ جبکہ اگر کہیں روک لگانے کی ضرورت ہو یا کہیں حوصلہ افزائی کی، تو دونوں ہی صورتوں میں خاتون کو اپنی معاشرت کا دوسرا لازمی پہیہ تسلیم کرتے ہوئے رفاقت کے احساسات کےساتھ رائے دینا چاہیے۔
ادراک کے تحت، رسالے کی محنتی اور بیحد قلبی تعلق رکھنے والی ایڈیٹر، مبشرہ فردوس خان کے مضامین بالاستیعاب پڑھے۔
ان کے مضامین: تعمیرِ خودی کر، ہم پہ دروازے کھلیں گے دانش و ادارک کے، ہلاکت خیز دور میں باضمیر انسانوں کا کردار، ادبی فن پارے میں، میں روایت بدلوں گی، کے عزم سے ایک سچی کہانی پڑھ کر، تھپیڑے تلاطم اور طمانیت کے مراحل کا احساس ہوا۔
ایسے ہی سائبر اور شخصیت کےمتعلق ان کے مضامین پڑھے، قاری کی آراء کے جوابات پڑھے۔ مختلف موضوعات پر ایسی زبردست قدرت رکھتے ہوئے مربوط و مؤثر اظہار خیال کا ملکہ یقینًا صرف ذہانت سے نہیں بلکہ بہت جدوجہد کےبعد حاصل ہوتاہے۔ وہ اپنے کالمز میں بجا طورپر حقِّ ایڈیٹری اور انصاف کےساتھ خواتین کی نفسیاتی الجھنوں پر رہنمائی کرتی نظر آئیں۔
ڈاکٹر نازنین سعادت کا کم عمری کے عشق کے حوالے سے دو صفحات پر مشتمل مضمون پڑھا، جس کےمتعلق اگلے شمارے میں قاری کی رائے کے تحت ادیبہ مسکان ہاشمی نے منصفانہ رائے دی ہے۔ یہ مضمون بہت مفید اور ضروری ہے، یہ تمام بچیوں تک پہنچایا جانا چاہیے ۔
بشریٰ فردوس کا کالم پڑھے، سیاسی و ملی احوال پر ان کے کالمز بڑے ہی امید افزاء ہیں، اللہ برکت دے۔
گوشۂ مطالعہ میں مسفرہ مبشرہ کھوت کا مفید کالم تحریکِ مطالعہ کے لیے قابلِ مطالعہ ہے۔ سلمیٰ نسرین کے کالمز قیمتی مفید ہونے کےساتھ ساتھ اپنے موضوع پر بڑی کاوشوں کےساتھ یکجا کیے نظر آتےہیں۔ ان کے کالم کی جامعیت قابل ستائش ہے۔ انہیں مزید اور مستقل لکھنا چاہیے ۔ عمارہ رضوان کا مضمون، ام الدرداء کی معراج پر واقعی اپنے مرکزی عنوان کےمطابق راہ نمائے فوز و فلاح ہے۔
بریرہ ایمن کے قلم سے مظلومین کی کہانی زہرہ گداز ہے۔شہیمہ خان کا مضمون، جمہوریت فاش ازم کے نرغے میں، فکر انگیز ہے۔ام زمر فارس کا مضمون، بچوں کی صحت پر لاک ڈاؤن کا اثر، موجودہ حالات میں ایک ضروری رہنمائی ہے۔
عظمیٰ زینب کا کالم، جمہوریت محاصرے میں، امید کی کرن ہے۔تسنیم فرزانہ کا کالم عالمی یوم خواتین کے حوالے سے خواتین کے تئیں کئی قابلِ توجہ پہلوؤں کی جانب راہ نما ہے۔
شہمینہ سبحان کے کالمز، صلاح و صالحیت اور مطالعاتی سمت میں مفید ثابت ہوں گے۔بشری ناہید کی تحریر اپنے موضوع پر محیط اور افادیت کے لحاظ سے جامع ہے۔ڈاکٹر تنویر فاطمہ نے ترنم صدیقی کے ذریعے ایک مفید و قیمتی روشناسی کروائی ہے، شخصیت شناسی کا یہ جوہر بھی خوب ہے۔
سمیہ فرحین لاک ڈاؤن میں کمبھ کا میلا اور آئی پی ایل کا کھیل افغانستان میں امریکہ اور بھارت میں ویکسین فیل، یہ عناوین، مضمون نگار کی زبردست تخلیقی ذہنیت کا عکاس ہے۔
مولانارضی الاسلام ندوی صاحب کا کالم بہنیں پوچھتی ہیں اور ان کا اندازِ تفہیم شاندار ہے اور ان کی مقبولیت کے عین مطابق ہے۔
ایسے ہی، ای۔استاد، طنزومزاح، ادبی فن پارے، گوشۂ مطالعہ، خبر پر نظر، صحت، تعلیم و روزگار، تدابیر و ترکیب اور قارئین کی آراء جیسے کالمز میں خواتین کی اعلیٰ تخلیقی ذہانت، استدراکی صلاحیت، اخاذ رجحانات کی خوشگوار گواہیاں ہیں۔
میری رائے ابھی مکمل نہیں ہوئی ہے کیونکہ میں اس نوزائیدہ رسالے کے آج تک شائع شدہ تمام مطبوعات کا مطالعہ کرکے ان کا جائزہ لکھ رہ ہوں تاکہ اس نئے شمارے کا اچھا تعارف سامنے آجائے۔
لیکن میں اپنے ادھورے تاثرات کو یہیں روکتا ہوں، کیونکہ ابھی ایڈیٹر صاحبان و ادارتی بورڈ کے ذمہ داران کو زحمت ہوجائےگی۔ میں اب اپنے مشوروں کو صرف دو(۲ )شکلوں میں سمیٹ رہا ہوں :
۱۔رسالے کے ذمہ داران اردو زبان کی نوک و پلک، ترکیبِ جملہ بندی، عبارتوں کی ساخت، وقف و تکمیل کی ادائیگی کا خاص خیال رکھیں، اردو زبان کی چاشنی، عام فہم ادبی ستھرائی اور بلیغ ظرافت کو رسالے کا حصہ بن کر اس کے وجود کو کامل بنانا چاہیے۔ کیوں کہ یہ بہرحال ایک اردو رسالہ ہے۔ آنے والے دنوں میں ھادیہ کو ایک اردو معیاری رسالے کی نمائندگی کےطور پر تاریخ کے دستاویزات میں جگہ ملنی چاہیے۔
۲۔ بہت ضروری ہےکہ تحریک کے ذمہ داران، اس نظریاتی، و فکری رسالے کو زمین پر اتاریں، زمین پر اتار کر اسے آف لائن عام کرنا اس رسالے کے مشمولات کا اولین حق ہے، اس رسالے کی افادیت کا تقاضا ہے۔ اس پر اپنا وقت اور اپنی صلاحیت صرف کرکے محنت کرنے والی ہنرمند خواتین کےساتھ انصاف ہے۔
جب یہ رسالہ آف لائن عام ہوگا تو خواتین اور بچیوں میں تخلیقی و نظریاتی بیداری کا خوشگوار نظارہ ہوگا ۔
اس رسالے کا سرورق اور اس کے ہر کالم کی تزئین و آرائش کمال کی ہے، بہت شاندار ہے، ایسے ہی رسالے ذہن سازی کرتے ہیں اور ماضی میں کرچکے ہیں ۔
اس رسالے کو مرتب کرنے کے لیے اس میں تیاری کرنے کے لیے جدوجہد کرنے والی خواتین کی میں قدر کرتاہوں۔ کیوں کہ مجھے احساس اور تجربہ ہےکہ ایک رسالہ تیار کرنے میں کیسی ذہنی ورزش درکار ہوتی ہے ۔
جماعت اسلامی ہند کے ذمہ داران بہت مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اس ضرورت کو محسوس کیا اور اس جانب قدم بڑھایا۔ میری معلومات کےمطابق مسلمان بچیوں میں ایسا کوئی معیاری رسالہ نہیں ہے۔ جماعت اسلامی اور اس کی خواتین وِنگ کی جانب سے یہ رسالہ واقعی ایک ہر زاویے سے ’’تحریکی ھادیہ ‘‘ہے۔

وعلیکم السلام
محترم سمیع اللہ خان صاحب
ھادیہ ای میگزین سے متعلق آپ کی وقیع رائے پڑھ کر بے حد مسرت ہوئی۔
یہ نہ صرف ھادیہ ٹیم کےلیے بلکہ قلم کاروں کے لیے نہایت حوصلہ بخش اور اہم ہے ۔آپ کی دونوں تجاویز بہترین ہیں۔ اول الذکر پر فوراً عمل آواری کی کوشش کی جائے گی اور موخر الذکر تجویز پر ذمہ داران کو متوجہ کیا جائے گا ۔
امید ہے آپ آئندہ بھی ہمیں اپنی ذمہ داریوں پر متوجہ رکھنے میں تعاون فرمائیں گے ۔
جزاک اللہ خیرا کثیرا
ایڈیٹر ھادیہ ای۔میگزین

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱