اسلامی علوم میں خواتین کی خدمات

زیر نظر کتاب عالم اسلام کے معروف عالم دین ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی کی ایک علمی تصنیف ہے، جس میںعالم اسلام کی معروف خواتین کی علمی خدمات اور ان کا امتیازی کردار پیش کیا گیا ہے ۔اس کتابچہ میں ان معترضین کا جواب بھی ، جو یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اسلام میں خواتین کو دبایا جاتا ہے اور انھیں اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھانے کے مواقو نہیں دیے جاتے۔
اس کتابچے میں جملہ گیارہ عناوین کے تحت خواتین کے علمی کارناموں کو اختصار اور جامعیت کے ساتھ ذکر کیا گیاہے۔اس میں خواتین کے ذریعہ علوم کی سرپرستی کرنے والی عالمی شہرت یافتہ خواتین کا تذکرہ موجود ہے، جن میں عباسی خلیفہ ہارون رشید کی بیوی زبیدہ بنت جعفر نے رفاہی کاموں کو انجام دیاانہیں قران مجید سے دلچسپی تھی۔ ابن خلکان نے لکھا ہے کہ اس نے اپنی 100سو باندیوں کو تلاوت قران کے لیے فارغ کررکھا تھا ۔ اسی طرح زمرد خاتون کے دمشق کے مدرسے کا ذکر ہے۔ عائشہ ہانم کے مسافر خانہ تعمیر کرنے پر تفصیل ہے۔ مریم بنت شمس کے مدرسے کا اور فاطمہ الفھری کی قائم کردہ مراکش کی یونیورسٹی کا تذکرہ ۔صحابیات و تابعیات کی علمی خدمات میں تقریبا چھ(6) محدثات کا اختصار کے ساتھ ذکر اور تفصیلی مطالعے کے لیے حواشی میں دیگر کتابوں کا حوالہ موجود ہے ۔
علوم اسلامیہ کی اشاعت و ترویج کا کام عہد نبوی اور عہد صحابہ ہی سے شروع ہوگیا تھا اور خواتین نے اس میں سرگرمی سے حصہ لیا تھا۔مساجد میں خواتین کے حلقے سے متعلق مولانا لکھتے ہیں:
’’آج اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کاداخلہ جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی محفلیں منعقد ہونا عام بات تھی۔ وہ اپنے گھروں میں، دوسروں کے گھروں میں، مسجدوں میں،  مدارس اور رباطات ، باغات اور دیگر مقامات میں مسند پر تدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد وخواتین دونوں شامل تھے۔‘‘
ان خواتین کا بھی تذکرہ موجود ہے جو ماضی میں اکابر ِامت کی معلمات رہیں ہیں:
’’ اسلام کے دور عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔‘‘
فاضل مصنف نے کئی کتابوں کا ذکر کیا ہے جس میں اکابرین کی خواتین معلمات پر تفصیل موجودہے۔ مثلا :’’اسلام کے دور عروج میں خواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میں پیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور تابعین نے نکیر کی اور نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہاء نے کبھی اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ ‘‘
علامہ سخاویؒ(م902ھ) نے اپنی کتاب’’ الضوء اللامع لاء ھل القرن التاسع‘ ‘کی ایک جلد خواتین کے لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستّر (1070) خواتین کا تذکرہ کیا ہے، جن میں سے زیادہ تر محدثات و فقیہات تھیں۔
تاریخ اسلام میں ایسی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشرواشاعت میں خواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کر رہا ہے۔فاطمہ بنت محمد بن احمد السمر قندی (م 581ھ) فقہ حنفی میں بہت شہرت رکھتی تھیں۔ ان کے والد مشہور محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اس میں کمال پیدا کیا۔ انہیں اپنے والد کی کتاب تحفہ الفقہاء‘ پوری ازبر تھی۔ فقہ میں ان کی مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان کے والد کے پاس کوئی استفتا آتا تو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے، پھر وہ جواب تیار کرتیں اور اس پر باپ بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز شاگرد علاؤالدین ابوبکر بن مسعود الکا سانی (م 587ھ) سے کردیا تھا۔ کاسانی کو ان کی تصنیف بدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع‘ کی وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ خواتین کی تصنیف و تالیف قرآنیات اور سیرت نگاری کے میدان میں بیسویں صدی کی خواتین میں ڈاکٹر عائشہ بنت الشاطی (1330-1419ھ /1913-1998ء) کا نام بہت نمایاں ہے۔ بنت الشاطی کی تصانیف کی تعداد چالیس (40) سے زائد ہے۔زینب الغزالی، محترمہ نائلہ ہاشمی صبری ان کی تصنیف کواکب النساء‘ جس میں پانچ سو (500) سے زائد خواتین کے تذکرے جمع کیے ہیں۔
اس کتاب کے مطالعے سے ایک طرف جہاں خواتین کی علمی خدمات کا علم ہوتا ہے، وہیں حوصلہ بھی ملتا ہے کہ موجودہ وقت میں بھی خواتین علمی میدانوں میں اپنا لوہا منوا سکتی ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

2 Comments

  1. Saleeq Ahmad naik

    مطالعہ کتب کی ضرورت ہے

    Reply
    • سلیق احمد نایک

      که ظ

      Reply

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱