درس قرآن
زمرہ : النور

أعوذ بالله من الشيطان الرجيم
بسم الله الرحمن الرحيم
إِنَّ عِدَّةَ الشُّهورِ عِندَ اللهِ اثنا عَشَرَ شَهرًا في كِتابِ اللهِ يَومَ خَلَقَ السَّماواتِ وَالأَرضَ مِنها أَربَعَةٌ حُرُمٌ ۚ ذٰلِكَ الدّينُ القَيِّمُ ۚ فَلا تَظلِموا فيهِنَّ أَنفُسَكُم ۚ وَقاتِلُوا المُشرِكينَ كافَّةً كَما يُقاتِلونَكُم كافَّة ۚ
وَاعلَموا أَنَّ اللهَ مَعَ المُتَّقينَ

حقیقت یہ ہے کہ مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین کو پیدا کیا ہے اللہ کے نوشتہ میں بارہ ہی ہے، اور ان میں سے چار مہینے حرام ہیں یہی ٹھیک ضابطہ ہے لہٰذا ان چار مہینوں میں اپنے اوپر ظلم نہ کرو اور مشرکوں سے سب مل کر لڑو جس طرح وہ سب مل کر تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ متقیوں ہی کے ساتھ ہے ۔ ان آیات میں قمری مہینوں کی عظمت و اہمیت واضح کی گئی کہ سال کے بارہ مہینے ہونا اللہ تعالیٰ کے نوشتہ میں اس دن سے موجود ہے جس دن خالق کائنات نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی،اور اس کی تعین کے لیے بھی الله تعالیٰ خود ایک آفاقی نظام قائم کردیا ہے جس کا ثبوت اس آیت سے ملتا ہے۔ (التوبۃ:36)

هُوَ الَّذي جَعَلَ الشَّمسَ ضِياءًوَالقَمَرَ نورًا وَقَدَّرَهُ مَنازِلَ لِتَعلَموا عَدَدَ السِّنينَ وَالحِسابَ ۚ ما خَلَقَ اللَّهُ ذٰلِكَ إِلّا بِالحَقِّ ۚ يُفَصِّلُ الآياتِ لِقَومٍ يَعلَمونَ(یونس:05)

وہی ہے جس نے سُورج کو اجالا بنایا اور چاند کو چمک دی اور چاند کے گھٹنے بڑھنے کی منزلیں ٹھیک ٹھیک مقرر کر دیں تاکہ تم اُس سے برسوں اور تاریخوں کے حساب معلوم کرو۔

وَٱلۡقَمَرَ قَدَّرۡنَـٰهُ مَنَازِلَ حَتَّىٰ عَادَ كَٱلۡعُرۡجُونِ ٱلۡقَدِیمِ (یاسین:39)

اور چاند، اُس کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ پھر کھجور کی سوکھی شاخ کے مانند رہ جاتا ہے۔
یہ آیتیں ثابت کررہی ہیں کہ خالق کائنات نے ابتداء آفرینش سے ہی افق میں ایک کیلنڈر نمایاں کردیا ہے جو اپنی گھٹتی بڑھتی صورتوں سے مہینے کا آغاز و اختتام اور سالوں کا حساب و کتاب بتاتا رہتا ہے۔
شھر کے معنی مہینہ کے ہیں ،یعنی وہ مدت جو چاند کے ظہور سے شروع ہوتی ہے ۔سال کے بارہ مہینے ہونے کی تعیین بھی قرآن ہی نے کردی ہے اور اس میں چار مہینے حرمت کے ٹھہرائے۔ منھا اربعۃ حرم،عربی لغت میں الحرام، ح رم سے مشتق ہے الحرام وہ ہے جس سے روک دیا گیا ہو یہ روکنا جبری بھی ہوسکتا ہے تسخیری بھی،عقل اور شرع کی رو سے بھی ہوسکتاہے۔

منھا اربعۃ حرم

یعنی بارہ ماہ میں چار حرمت کے مہینے ہیں جن میں ایک رجب اور تین بالترتیب ذیقعدہ ذی الحجہ اور محرم ہیں جن میں لڑائی جھگڑا اور جنگ و جدال حرام ہے اگرچہ ضرورت اس کی متقاضی ہو، البتہ دفاعی جنگ کی سورۃ البقرۃ آیت 193میں اجازت دی گئی ہےکہ اگر مشرکین خود آگے بڑھ کر جنگ کرتے اور اہل ایمان کو لڑنے پر مجبور کرتے ہیں تو ایسی صورت میں مسلمانوں پر جواب دینا لازم ہوگا۔

ذالک الدین القیم

یہی راست دین ہےکہہ کرمسلمانوں کو متنبہ کردیا گیا ہے کہ اسلام کی بتائی ہوئی سیدھی راہ کے خلاف کو ئی اور راستہ اختیار کرنا بے دینی ہوگی۔
امام رازی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت پر تفصیلی گفتگو کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عربوں کے یہاں حضرت ابراہیم و حضرت اسماعیل علیہما السلام کے وقت سے ہی سنہ قمری رائج تھا جس کی بناء پر حج کا مہینہ الگ الگ موسم میں آتا تھا،عربوں نے محسوس کیا کہ اس سے تجارت وغیرہ میں نقصان پہنچ رہا ہے تو انہوں نے مصالح دین کو ترجیح نہ دے کر مصالح دنیا کو ترجیح دی اور یہود ونصاریٰ سے حساب کبیسہ سیکھ لیا اور اپنے مہینوں میں کچھ کچھ روز کے بعد ایک مہینہ بڑھاکر حج وغیرہ کا زمانہ حساب شمسی کے مطابق کردیا اور یہ صریح طور پر مصالح شریعت میں دست اندازی تھی،جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔
علماء سلف نے اس آیت سے یہ حکم مستنبط کیا ہے کہ مسلمانوں پر اپنے معاملات و عبادات میں سنہ قمری (عربی مہینے) کی پابندی واجب ہے،سنہ شمسی کی پابندی جائز نہیں (الکبیر)عبادات و دیگر احکام شرعیہ عربی ماہ و تاریخ پر ہی مبنی ہیں اس لیے اس کی حفاظت فرض کفایہ ہے اگر امت دوسری اصطلاح کو معمول بنالے جس سے قمری حساب ضائع ہوجائے تو سبھی گنہگار ہوں گے۔اگر یہ محفوظ رہے تو دوسرے حساب کا استعمال بھی مباح ہے لیکن عربی سنہ کا استعمال افضل و احسن ہے۔
( تفسیر ماجدی بحوالہ اشرف علی تھانوی)

فلا تظلموا فیھن انفسکم

ان مہینوں میں تم اپنی جانوں پر ظلم نہ ڈھانا کہہ کر عمومی حکم دیا گیا۔
امام راغب اصفہانی نے ظلم کی تین قسمیں ذکر کی ہیں۔
1 ۔بینہ و بین اللہ، اللہ تعالیٰ کے حقوق کی ادائیگی نہ کرنا۔
2۔بینہ و بین الناس ،بندوں کا ایک دوسرے پر ظلم و تعدی اور حقوق کی عدم ادائیگی۔
3۔بینہ وبین نفسہ،خود اپنے اوپر ظلم کرنا۔یعنی حرمت کی پرواہ نہ کرتے ہوئےان مہینوں میں قتل وقتال اور لوٹ مار کی تو اپنے آپ کو نقصان پہنچاؤ گے ۔
محمد بن اسحاق نے کہا کہ حلال مہینوں کو حرام اور حرام مہینوں کو حلال نہ بناؤ جیسے مشرکین کرتے تھے جس کونَسْیٌٔ کہا جاتاہے ۔
مثلاً :محرم کے مہینے کو حلال بناکر صفر کے مہینے کو حرام قرار دے لینا۔
امام قتادہ نے کہا ہے کہ محترم مہینوں میں جس طرح نیک کاموں کا اجرو ثواب زیادہ ہے اسی طرح گناہ کا عذاب بھی زیادہ ہےاگرچہ ہر زمانے میں گناہ برائی کے لحاظ سے بڑا ہی ہوتا ہے۔

وقاتلوا المشرکین کافۃ

کے ذریعے مشرکین سے من حیث الجماعت اعلان جنگ ہے اس لیے کہ بلا کسی قرابت داری و عہد کی پاسداری کے ان کا رویہ بھی تمھارے ساتھ ایسا ہی ہے۔واعلموا ان الله مع المتقین کہہ کر متقیوں کو الله سے قریب ہونے کی بشارت دی گئی ، الله کی معیت جسمانی نہیں بلکہ معنوی ہے،تقویٰ راہ راست پر قائم رکھے گا تو نصرت وتائید اللہ تعالیٰ کی جانب سے حاصل ہوگی۔

إِنَّمَا النَّسيءُ زِيادَةٌ فِي الكُفرِ ۖ يُضَلُّ بِهِ الَّذينَ كَفَروا يُحِلّونَهُ عامًا وَيُحَرِّمونَهُ عامًا لِيُواطِئوا عِدَّةَ ما حَرَّمَ اللَهُ فَيُحِلّوا ما حَرَّمَ اللَه ۚ زُيِّنَ لَهُم سوءُ أَعمالِهِم ۗ وَاللَهُ لا يَهدِي القَومَ الكافِرينَ (التوبہ:37)

نسی تو کفر میں ایک مزید کافرانہ حرکت ہے جس سے یہ کافر لوگ گمراہی میں مبتلا کیے جاتے ہیں کسی سال ایک مہینے کو حلال کر لیتے ہیں اور کسی سال اُس کو حرام کر دیتے ہیں، تاکہ اللہ کے حرام کیے ہوئے مہینوں کی تعداد پوری بھی کر دیں اور اللہ کا حرام کیا ہوا حلال بھی کر لیں ان کے برے اعمال ان کے لیے خوشنما بنا دیے گئے ہیں اور اللہ منکرین حق کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔
یہ آیت خود اپنی اگلی آیت کی تشریح کررہی ہے۔
نسیٌٔ فعیل کے وزن پر مصدر ہے، جس کے معنی ٹالنا،مؤخر کرنا،امام بغوی نے بھی کچھ اسی طرح کی بات لکھی ہےکہ عرب ماہ حرام کی حرمت کا عقیدہ رکھتے تھے جو انہوں نے دین ابراہیمی سے ہی سیکھا تھا اور اس ہر مضبوطی سے قائم تھے لیکن ان کی روزی روٹی شکار اور لوٹ مار پر موقوف تھی،تین ماہ مسلسل رکناان کے لیے مشکل تھا،لڑائی واقع ہو تو ٹالنا گوارا نہ تھا لہٰذا وہ صفر کو محرم،محرم کو صفر بنالیتے،صفر میں بھی ضرورت ہوئی تو قتل و غارتگری کے لیے حلال کرکے جواز نکالتےاور ربیع الاول کو حرام کرلیتے۔
(تفسیر مظہری جلد 5)
اسلام نے ان کےاس فاسد عمل پر سخت سرزنش کی اور اس کو کفر میں اضافی قرار دیااور فرمایا،ان کے برے اعمال ان کے لیے مزین کردیے گئے ہیں۔
زُیّن زان یزین سے مشتق ہے
زینت حقیقی وہ ہوتی ہے جو انسان کے لیے کسی حیثیت سے معیوب نہ ہو نہ دنیاوی حیثیت سے نہ اخروی حیثیت سے، جو چیز ایک حیثیت سے موجب زینت ہو، دوسری حیثیت سے موجب زینت نہ ہو وہ غیر حقیقی زینت ہے بلکہ وہ شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ معصیت و بدعملی کو انسان کی نظر میں ایک نیک عمل باور کراتا ہےاور اسے خوشنما بناکر پیش کرتا ہے جس سے انسان دھوکہ کھا کر اپنی عاقبت کو خطرناکی کے موڑ پر لاکھڑا کرتاہے جو شیطان کی آرزو کے عین مطابق ہے،اسی لیے الله تعالیٰ نے بندوں کو متنبہ کیا ہے۔

إِنَّ الشَّيْطَانَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوهُ عَدُوًّ

بیشک شیطان تمھارا دشمن ہے پس تم اس کو دشمن ہی سمجھو،

وَقُلْ رَّبِّ اَعُوۡذُ بِكَ مِنۡ هَمَزٰتِ الشَّيٰطِيۡنِۙ وَاَعُوۡذُ بِكَ رَبِّ اَنۡ يَّحۡضُرُوۡنِ ۞

اور دعا کرو کہ ’’پروردگار، میں شیاطین کی اکساہٹوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔
بلکہ اے میرے ربّ، میں تو اِس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آئیں۔‘‘

قمری مہینوں کی عظمت و اہمیت واضح کی گئی کہ سال کے بارہ مہینے ہونا اللہ تعالیٰ کے نوشتہ میں اس دن سے موجود ہے جس دن خالق کائنات نے آسمانوں اور زمین کی تخلیق کی،اور اس کی تعین کے لیے بھی الله تعالیٰ خود ایک آفاقی نظام قائم کردیا ہے

شیطان کا دھوکہ ہے کہ وہ معصیت و بدعملی کو انسان کی نظر میں ایک نیک عمل باور کراتا ہےاور اسے خوشنما بناکر پیش کرتا ہے جس سے انسان دھوکہ کھا کر اپنی عاقبت کو خطرناکی کے موڑ پر لاکھڑا کرتاہے جو شیطان کی آرزو کے عین مطابق ہے۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اگست ۲۰۲۱