کارکنوں کے باہمی تعلقات

مفکر اسلام اور مصنف خرم مراد ۳ نومبر ۱۹۳۲ کو بھوپال میں پیدا ہوئےاور ۱۹ دسمبر ۱۹۹۶ کو اس دنیا سے رخصت ہوئے۔اس طرح آپ نے ۶۴ سال کی عمرپائی۔آپ جماعت اسلامی پاکستان کے نائب امیر رہے ہیں ۔بہ حیثیت داعی آپ کے خطبات نے ساری دنیا کو متاثر کیا اور بہ حیثیت مربیّ آپ نے نئی نسل کی کردار سازی اورذہن سازی میں نمایا ں کردار اداکیا ہے۔آپ کی یہ کتاب ۱۰۱ صفحات پر مشتمل ہے۔کتاب کے سرورق پر جوتصویر پیش کی گئی ہے وہ نہایت بامعنی ہے۔کثرت میں وحدت کا جو تاثر دیا گیا ہے وہی کتاب کا مدّعا ہے۔اس میں انقلاب،اخوت،تنظیم،تربیت اور دعوت کے عنوان سے پانچ ہاتھ ایک دوسرے کو مضبوطی سےتھامے ہوئے ہیں جو یوں ہم آہنگ ہیں کہ انہیں ذرائع سےکارکنوں کے باہمی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر کئے جاسکتے ہیں۔اس کتاب کامطالعہ بہ حیثیت مسلمان عمومی اور بہ حیثیت رکن جماعت خصوصی طور پر ناگزیر ہے بلکہ اولین شرط ہے۔کتاب کیا ہے گویا دریا کوکوزے میں بند کردیا ہے۔سورۃ آل عمران کی اس آیت کو مرکزی مقام حاصل ہے۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو(مجتمع ہوجاؤ) اور پھوٹ نہ ڈالو۔‘‘
پھر اس کی تشریح و تفصیل کے لئے قرآن پاک کی مختلف آیتوںاور احادیث سے مدد لی گئی ہے۔پھر یہ کہ اس میں محترم مصنف کےجذبات و احساسات کی چنگاریاں بھی شامل ہیں۔لہذا جذب و کیف میں ڈوبی یہ تحریر ہم میں نہ صرف احساس ذمہ داری پیدا کرتی ہے بلکہ حسن عمل پر بھی ابھارتی ہے کہ ہم ،جو راہ حق کے مسافرہیں۔ہم، جو تمام رنگوں سے کٹ کر صرف اللہ کے رنگ کو اختیارکرنے کا دعوی کرتےہیں۔ہم، جو یکسو ہو کر اللہ کی اطاعت کرنے والے ہیں۔جن کا مقصد و منزل صرف ایک ہےاور راستہ بھی ایک ہے اگر وہ بھی ایک دوسرے کے قریب نہ آئیں،ایک دوسرے کے دکھ دردکو نہ سمجھیں ،ایک دوسرے سے محبت نہ کریں توپھر کس سے یہ توقع کی جاسکتی ہے؟کو ن ہمارے دکھ کامداوا بن سکتا ہے؟لہذا وہ نعمت عظمیٰ جو جماعت اسلامی کی شکل میں ہمیں ملی ہے، جو ہم  سے دل سوزی اور جاں سازی کاتقاضا کرتی ہے،جو آپسی محبت و خلوص کو پروان چڑھانا چاہتی ہے، جو ہمیں بنیان مرصوص یعنی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنانا چاہتی ہے،ہمیں چاہئے کہ اسی دیوار کاسہارا لے لیں ۔اسی کے سائبان تلے آجائیں ۔آپس میں ٹوٹ کر محبت و دوستی کریں اوریہ باہمی دوستی و محبت صرف اور صرف اللہ کی خاطر ہو۔جس کو اللہ نے اپنی نظر میں سب سے محبوب عمل قرار دیاہے اور آخرت کے دن جب دوستی کی تمام حقیقتیں کھل جائیں گیاور دوست دوست کا دشمن ہو جائے گا،تو صرف متقی لو گ ہوں گے جن کی دوستی قائم رہےگی اور اس وقت اندازہ ہوگا کہ دنیا میں ان دوستیوں نےکیا کچھ بخشا جو آج کام آرہاہے۔اللہ تعالیٰ کی محبت کے عوض جو اللہ تعالیٰ کے انعام ہیں اسے علامہ اقبال نے یوں بیان ک
یا ہے۔ ؎

ہاتھ ہے اللہ کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وکارآفریں کارکشا وکارساز
محترم مصنف نے ان باتوں کا تفصیل سے ذکر کیا ہے جو آپسی تعلقات کو کمزور کرتی ہیں،جو فتنہ و فساد برپا کرتی ہیں ،جو رشتوں کو کاٹنے میںقینچی کا کام انجام دیتی ہیں یعنی منہیات۔ تاکہ ہم ان سے بچنے اور پرہیز کرنے کی شعوری کوشش کریں۔وہ اس طرح ہیں:
• زبان کا غلط استعمال(بدکلامی) کرنا
• دوسروں کا مذاق اڑانا ،انہیں حقیر سمجھنا
• غیبت،چغل خوری،،تجسس،بدظنی،عیب جوئی،تکبر،بدگمانی،بہتان،دھوکہ دہی،حسد ،بغض،ضرر رسانی،ایذا رسانی،دل آزاری۔
اسی طرح جناب نے ان باتوں پربھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے جوہمارے باہمی تعلقات کو مضوط و خوش گوار بناتے ہیں یعنی موجبات۔تاکہ ہم انہیںاپنانے اور اختیار کرنے کی شعوری کوشش کریں۔انہیں اپنی سیرت و شخصیت کا حصہ بنالیں۔وہ اس طرح ہیں:
ے خیر خواہی،ایثار

وَيُؤْثِرُونَ عَلَىٰ أَنفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ (سورۃ الحشر : 9)

’’اور اپنے نفس پر دوسروں کو مقدم رکھتے ہیں اگرچہ ان پرتنگی کیوں نہ ہو۔‘‘
• عدل اگر باہمی تعلقات کی اساس ہے تو احسان اس کا جمال وکمال ہے۔
• عفودرگذر۔حضرت موسی ؑ نے اللہ تعالی سے پوچھا کہ ’’تیرےنزدیک تیرے بندوں میں سے زیادہ عزیز کون ہے؟ ‘‘اللہ تعالی نے فرمایا:
’’وہ شخص جو انتقام کی قدرت رکھنے کے باوجود معاف کردے۔
(عن ابوہریرہؓ)

• باہمی اعتماد،باہمی قدروقیمت کا احساس،باہم عزت و آبرو کی حفاظت کرنا ہوگی۔
• ایک دوسرے کے درد کو بانٹنا،باہم تقویت کا باعث ہوتا ہے۔
• ایک دوسرے کا احتساب اور نصیحت کرنا۔کیونکہ دنیا کا احتساب،آخرت کے احتساب سے بہتر ہے۔
• ’’تم میں سے ہر ایک اپنے بھائی کا آئینہ ہے،یعنی اگر وہ اپنے بھائی میں کوئی خرابی دیکھے تو دور کرے۔‘‘
• دوآدمیوں کی ملاقات ،جس کی بنیاد اخوت و محبت پر ہو۔حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ایسے شخص کا ٹھکانہ جنت میں یاقوت کے ستون اور زمرد کےبالاخانے اور تاروں جیسے چمک دار دروازوں میں ہوگا۔یہ عظیم الشان اجر خوش اخلاقی اور خندہ پیشانی کی ملاقاتوں پر ہے،جو سیرت کی تعمیر اور کردار کے ارتقا میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔
• بیماری کی عیادت کے متعلق یہ حدیث ،کہ اللہ  کے رسول نے فرمایا:اللہ تعالی پوچھے گا: ’’ اے آدم کے بیٹے،میں بیمار پڑا تونے میری عیادت نہ کی۔وہ کہے گا :’’ اے میرے رب تو سارے جہاں کا ر ب تھا میں تیری عیادت کیوں کر کرتا؟‘‘ فرمائے گا: کیا تجھے خبر نہ ہوئی کہ میرا بندہ بیمار ہوا مگر تو نے اس کی عیادت نہ کی ،اگر کرتا تو مجھے اس کےپاس پاتا۔‘‘
• ایک حدیث اس تعلق سے بھی ہے کہ اللہ کے رسول  نے فرمایا کہ:’’ جب کوئی اپنے بھائی سے محبت کرے گا تو اس کو چاہئے کہ وہ اسے خبر کردے کہ وہ اس سے محبت رکھتا ہے۔‘‘
یہ نہ ہو کہ دل میں تو محبت اور جذبات کا طوفان ہو اور اسے ہم اپنے ہی دل میںسمیٹے ہوں۔
• ایک حدیث یوں بھی ہے کہ آپ ؐنے فرمایا کہ:’’ اپنے بھائی کو دیکھ کرمسکرادینا بھی صدقہ ہے۔‘‘
• سلام اور مصافحہ کو بھی نبی اکرم ؐنے عام کرنے کی تاکیدفرمائی ہے۔جس طرح اچھے ناموں سے پکارنا،ایک دوسرے کے ذاتی امور میںدلچسپی لینا،محبت کا اظہار کرنا زبان کے ہدیے ہیں اسی طرح حسب استطاعت مادی ہدیے بھی ایک دل کو دوسرے سے مربوط کرتے ہیں۔
• ایک دوسرے کو اپنے گھر کھانے پرمدعو کرنا اور دعاؤں میں یاد رکھنا بھی خوبصورت تعلقات کے لئےایک خوبصورت طریقہ ہے۔
محترم مصنف نے ایک اہم بات یہ بھی کہی ہے کہ ہمارے دلوں کو شیطان کی اکساہٹوں اور وسوسوں سے محفوظ رکھناچاہئے۔کیونکہ شیطان ہمارے دلوں کا ملاپ نہیں چاہتا۔وہ ہمارے دل میلے رکھنا چاہتاہے۔اگر ہمارے دلوں میں کسی کے متعلق میل ہو،ناراضگی و خفگی ہو تو اوّلین فرصت میںہمیں اپنے دلوں کی صفائی کرلینی چاہئے۔وسیع القلبی کا ثبوت دیتے ہوئے معاف کرنے میںپہل کرنی چاہئے کیونکہ اصلاح پر ہی تعلقات کا انحصار ہے اور یہ تعلقات ہی معاشرےکی روح اور زندگی ہیں۔
میں سمجھتی ہوں کہ اس کتاب کا حاصل ایک لفظ ’’محبت‘‘ ہے۔اگر ہم محبت کا چشمہ پہن لیں ،محبت کی گھٹی بنا کر اپنے اندراتار لیں،محبت اپنی سانسوں میں بسا لیں،محبت کا شکنجہ اپنے اطراف کس لیں تو ہمارےاندر اور باہر یہ محبت کا حصار نہ صرف کارکن بلکہ سارے معاشرے اور ساری دنیا کوایک اکائی بنا دے گا۔محفوظ و مضبوط بنا دے گا انشااللہ تعالی۔
اختلاط رنگ و بو سے بات بنتی ہے
تم ہی تم ہو تو کیا تم ہو،ہم ہی ہم ہیں تو کیا ہم ہیں
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ وہ ہماراعلمی و فکری ارتقا فرمائے اور عمل کی توفیق سے نوازے۔آمین!

کثرت میں وحدت
کا جو تاثر دیا گیا ہے وہی کتاب کا مدّعا ہے۔
اس میں انقلاب،اخوت،تنظیم،تربیت اور دعوت کے عنوان سے پانچ ہاتھ ایک دوسرے کو مضبوطی سےتھامے ہوئے ہیں جو یوں ہم آہنگ ہیں کہ انہیں ذرائع سےکارکنوں کے باہمی تعلقات مضبوط سے مضبوط تر کئے جاسکتے ہیں۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۱