اسوۂ ابراہیمی
خود سپردگی، جاں نثاری ، حنیفیت

یوں تو تمام انبیاء علیہم السلام کی زندگیاں پوری نسل انسانی کے لئے مشعل راہ اور اسوۂ حسنہ ہیں لیکن سرورِ کائنات کی ذات گرامی کے بعد قرآن مجید میں جس شخصیت کی زندگی اور کردار کو بطور خاص اسوۂ حسنہ کہا گیا ہے وہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ذات گرامی ہے۔ جن کے بارے میں اللہ نےسورہ الممتحنہ میں مسلمانوں سے خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ
’’ تمہارے لیے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے رفقاء کی زندگیوں میں اسوہء حسنہ ہے۔‘‘

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں ہر شخص کے لئے اسوہ اس وجہ سے ہے کہ انہوں نے توحید الٰہی کی ازلی اور ابدی صداقتوں پر سب سے پہلے لبیک کہا اور ہر طرف سے کٹ کر، سارے جہاں سے بیزار ہو کر، قول و عمل و نظر و فکر کی پوری حاضری کے ساتھ کلیۃ آپ کی زندگی رب العالمین کے لئے ہو گئی ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ’’ ہم نے انہیں مختلف آزمائشوں میں ڈالا، جب وہ ہر امتحان و آزمائش میں کامیاب ہوئے تو ہم نے انہیں نسل انسانی کا امام بنا دیا ۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سیرت میں ہمیں ہر قدم پر اللہ تعالیٰ کو راضی کرنے کے لئے خود سپردگی، جاں نثاری و دین کے لئے خالص ہونا نظر آتا ہے۔آزمائشوں کی کڑی میں سب سے بڑی آزمائش کہ ایک بت پرست قوم کے معزز شخص کے گھر میں پیدا ہو کر شرک، کفر وظلم پر قائم سوسائٹی کے خلاف تن تنہا کھڑے ہوئے اور اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے توحید خداوندی کا پرچم بلند کیا ۔ابراہیم علیہ السلام کی دعوت صرف سمجھانے کی حد تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ انہوں نے قوم کے اجتماعی کفر کو کھلے بندوں چیلنج کیااور خود اپنی قوم کے بت خانے میں گھس کر بتوں کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا۔قرآن کریم حضرت ابراہیمؑ کی اس بت شکنی کے بعد قوم کی پنچایت کے سامنے ان کی پیشی کا واقعہ بیان کرتا ہے کہ جب قوم کے سرداروں نے سوال کیا کہ’’ اے ابراہیم! ہمارے خداؤں کا یہ حشر تم نے کیا ہے؟‘‘ تو انہوں نے جواب دیا کہ’’ ان کے درمیان یہ بڑا بت سلامت کھڑا ہے اس نے کیا ہوگا‘‘، قوم کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا،حضرت ابراہیم ؑ نے فوراً کہا:
’’ افسوس ہے تم پر اور تمہارے ان معبودوں پر جو کچھ نہیں کر سکتے ۔‘‘
وہ وقت بھی حضرت ابراہیم علیہ السلام کی جاں نثاری کے امتحان کا تھا جب نمرود کے شاہی دربار میں ایک بڑے مجرم کی طرح حاضر کئے گئے تھے، اس کا دعویٰ تھا کہ خدائی اختیارات اس کے پاس ہیں اور وہ موت و حیات کا مالک ہے، مگرحضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا کہ’’ میرا رب سورج کو مشرق سے طلوع کرتا ہے، تیرے پاس اگر خدائی اختیارات ہیں تو سورج کو مغرب سے طلوع کر کے دکھا ۔‘‘نمرود سے مباحثے کے بعدقوم نے فیصلہ کیا کہ اسے ایسی سزا دو کہ دنیا یاد رکھے، کہ جو ہماری مخالفت کرتا ہے اس کا کیا حشر ہوتا ہے۔انہوں نےکہاآگ کا الاؤ تیار کرو اور ابراہیم کودہکتی ہوئی آگ میں پھینک دو ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے کہا میں اللہ کے دین کے لئے جان دے سکتا ہوں ،میں دین حنیف کا ماننے والا ہوں، اللہ واحد کے نام پر حرف آنے نہ دوں گا ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کا آگ میں پھینکے جانے پر صبر، وطن سے ہجرت، ان کی اولوالعزمی اور خود سپردگی و جاں نثاری کی بہترین مثال ہے ۔شرک کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں فطری سوجھ بوجھ اور حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کی خدا داد صلاحیت کی رہنمائی میں دنیاوی نظام اور کائناتی دستور کو دیکھتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کے دل کی گہرائیوں سے حنیفیت کا یہ نعرہ بلند ہوا ۔

اِنِّىۡ وَجَّهۡتُ وَجۡهِىَ لِلَّذِىۡ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ حَنِيۡفًا‌ وَّمَاۤ اَنَا مِنَ الۡمُشۡرِكِيۡنَ (سورۃ الأنعام:٧٩)

’’میں اپنا رخ اس کی طرف کرتا ہوں جس نے آسمان و زمین کو پیدا کیا یکسو ہو کر اور میں شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘
حضرت ابراہیم جب آگ سے باہر نکل آئے تو یہ ارادہ کیا کہ اب اس بستی کو چھوڑ دینا چاہیے ،یہ سر زمین میرے رہنے کے قابل نہیں رہی۔قارئین کرام! ہرآدمی کواپنے وطن سے محبت ہوتی ہے لیکن حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے وطن کو چھوڑ دیا۔ وہ جہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے اور پرورش پائی ، جہاں ان کا پورا خاندان رہتا تھا اس جگہ کو محض اللہ کے دین کی خاطر چھوڑ دیا۔وطن سے نکلتے ہوئے ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی کہ، اے اللہ! مجھے نیک و صالح اولاد عطا کر ۔ دعا قبول ہوئی ،حضرت اسماعیل علیہ السلام بڑھاپے میں پیدا ہوئے ۔ابھی وہ اپنی ماں حضرت ہاجرہؑ کی گود میں تھے کہ ایک اور آزمائش سے گزرنا پڑا ۔حکم ہوا کہ اپنی بیوی اور بچے کو جس کے لئے دعائیں کی تھیں ،مکہ کی بے آب و گیاہ صفا و مروہ کی وادی میں چھوڑ آؤ ۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ نہیں کہا کہ، اے اللہ! وہاں کیسے اپنے بیوی اور بچے کو چھوڑ آؤں جہاں کوئی ذی روح تک موجود نہیں، جہاں نہ گھاس ہے نہ پانی۔ قرآن نے اس تعلق سے کہا ہے کہ’’جب تمہارے رب نے اس سے کہا کہ میرے حکم کے سامنے جھک جاؤ تو اس نے کہا : میں رب العالمین کے لئے جھک گیا۔‘‘
یہ ایسی سپردگی تھی جسے دنیا آج تک یاد کرتی ہے۔ انہوں نے اپنی بیوی اور بڑھاپے کی اولاد کو ایک سنگلاخ زمین اور وادی غیر ذی زرع میں اللہ کے حوالے کر دیا اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئے ۔اس سے بھی بڑی ایک اور جاں نثاری کا امتحاں وہ ہے جب اسماعیل چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خواب دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں ۔تین مرتبہ یہی خواب دیکھا توخیال ہوا کہ یہ خواب جھوٹا نہیں ہو سکتا، اللہ تعالیٰ کی یہی مرضی ہے کہ میں اللہ کے نام پر اس بچے کو ذبح کردوں۔ اس سے بڑی قربانی اور خود سپردگی کا تصور اور کوئی نہیں ہو سکتا، بیٹے سے کہا ’’بیٹے! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہوں ،بتاؤ تمہارا کیا خیال ہے؟‘‘
معصوم بچہ جس کی تربیت بھی اسی نہج پر ہوئی تھی ،فوراً بول پڑا:

سَتَجِدُنِىۡۤ اِنۡ شَآءَ اللّٰهُ مِنَ الصّٰبِرِيۡنَ (سورۃ الصافات:102)

’’آ پ دیکھیں گے کہ میں گھبراؤں گا نہیں۔ آپ کے اس اقدام پر میں ثابت قدم رہوں گا۔‘‘
جب حضرت ابراہیمؑ نے حضرت اسماعیلؑ ذبح کرنے لٹایا تو آسمان سے آواز آئی :
’’بس خواب پورا ہوا ،تم امتحان میں کامیاب ہو گئے ۔‘‘ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے عمل سے ثابت کر دیا کہ اے اللہ! تیرا حکم ہو تو یہ چھری ہر تعلق پر چل سکتی ہے۔

قُلۡ اِنَّ صَلَاتِىۡ وَنُسُكِىۡ وَ مَحۡيَاىَ وَمَمَاتِىۡ لِلّٰهِ رَبِّ الۡعٰلَمِيۡنَۙ
لَا شَرِيۡكَ لَهٗ‌ۚ وَبِذٰلِكَ اُمِرۡتُ وَاَنَا اَوَّلُ الۡمُسۡلِمِيۡنَ (الانعام :۱۶۲ -١٦٣)

’’بے شک میری نماز، میری قربانی (میری تمام عبادات) میرا جینا، میرا مرنا، سب اللہ رب العالمین کے لئے ہے ۔کوئی اس کا شریک نہیں، اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں۔‘‘
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی میں اگر غور کیا جائے تویہ ہمیں خود سپردگی، جاں نثاری اور حنیفیت سے لبریز نظر آتی ہے۔یہی اصل میں اسوۂ ابراہیمی کا پیغام ہے کہ ا نصفا ت کو ہر مومن اپنی زندگی کا لازمی جز بنائےاور ان صفات کی روشنی میں اپنے اعمال و افکار کا جائزہ لے، محاسبہ کرے کہ یہ اعمال ان کی زندگیوں میں کس قدر موجود ہیں۔آج کے پر آشوب دور میں اسوۂ ابراہیمی کی معنویت مزیدبڑھ گئی ہے۔ضرورت ہے براہیمی نظر کو پیدا کرنے اور عام کرنے کی، جو مشکل سے پیدا ہوتی ہے ،مگر جب کسی کے اندر پیدا ہو جاتی ہے تو وہ امام بننے کا مستحق قرار پاتا ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام
کی زندگی میں اگر غور کیا جائے تو خود سپردگی، جاں نثاری اور حنیفیت سے لبریز نظر آتی ہے، یہی اصل میں اسوۂ ابراہیمی کا پیغام ہے کہ ان صفات کو ہر مومن اپنی زندگی کا لازمی جز بنائے۔‘‘

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۱