خاندان ابراہیم امۃ مسلمہ کے لئے نمونۂ عمل

انسان دنیا میں جتنی محبت اپنے والدین ‘ ،اولاد، ‘ بہنوں، بھائیوں، شوہر، بیوی اوررشتہ داروں سے کرتا ہے اتنی محبت کسی اور چیز سے نہیں کرتا ۔ حتی کہ ضرورت پڑھنے پر ان کے لئے اپنی جان تک قربان کر نے کے لئے تیار رہتا ہے ۔ انسانی تاریخ میں ایسی ان گنت مثالیں ملیں گی جس میں قریب ترین رشتہ داروں کے لئے لوگوں نے جانوں کی قربانیاں دی ہیں ۔ لیکن جو قربانیاں خاندان ابراہیم علیہ السلام نے دی ہیں اس کی مثال انسانی تاریخ میں نہیں ملتی کیونکہ ابراہیم علیہ السلام اور ان کے اہل خانہ کی قربانیاں خالص للہیت ‘ توحید ‘ ایمان اور اللہ کی بے پناہ محبت سے سرشار تھیں ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ میں قربانیوں کی عظیم الشان مثالیں ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی ہی قربانی هے اور قربانی ایسی نہیں جو زندگی کی تمام خواہشات و تمنائیں پوری کر لینے کے بعد دی گئی ہو بلکہ آپ کی قربانیوں کے سلسلے اس گھر سے شروع ہوتےہیں جو ان کا اپنا تھا، جس والد کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا وہی حق سے ناآشنا تھااور آپ نے اپنے غوروفکر و تدبر کی بنیاد پر اس خدائے واحد کو پا لیا تھا جو تمام کائنات کا واحد خالق و مالک هے۔اس خدا آشنائی نے ان کو حق کے لیے اپنے والد کے بالمقابل کھڑےہونے کی جرأت پیدا کی۔ یہ جہاد کوئی معمولی جہاد نہ تھا ۔دنیا پرستوں کی زبان میں یہ رشتہ داروں اور شہر کے لوگوں سے خواہ مخواہ کی دشمنی مول لینا تھا۔ یہ وہ میدان کارزار تھا جہاں تنہا هی جنگ لڑنی تھی۔ ار کی پوری آبادی ایک طرف اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ایک طرف۔
اپنے بت تراش والد اور دیگر لوگوں کو حق و باطل کا فرق سمجھانے کی انتہائی کوششیں ‘ عقیدہ ٔ توحید پر ایمان لانے کے بعد حق کے لیے ‘ ایمان کی حفاظت کے لئے ‘ یکے بعد دیگرے آپ نے بہت کچھ سہا، بہت کچھ برداشت کیا ۔ اپنے والدین ‘عزیز و اقارب اور اپنے ہی وطن کے لوگوں کی طرف سے خود پر هہونے والے ظلم کو سہنا ، اپنے وطن عزیزکو خیر آباد کہنا، حضرت سارہ علیہ السلام کی جدائی، حضرت ہاجرہ علیہ السلام اور ننھے اسماعیل علیہ السلام کے ساتھ تنہا ایک ویران و بے آب و گیاہ علاقے میں بسنا۔ تصور کیجئے اس تپتے ریگستانی صحرا میں جہاں دور دور تک زندگی کے آثار نظر نہ آتے ہوں، ایسی جگہ اپنے لخت جگر اور محبوب بیوی کے ساتھ سفر اور اس کے بعد اسی لخت جگر کو خواب میں اپنے ہی ہاتھوں قربان کرتا دیکھ کر اسے اپنے حبیب کا حکم، اپنے معبود برحق کا فرمان جان کر اس خواب کو حقیقت کا رنگ دینے کے لیے خود کو، بیوی کو، تیار کر لینا خالق حقیقی سے عشق کی انتہا کا ایک بے مثال و بے نظیر واقعہ ہے۔
  یہ حوصلہ وہمت ، یہ والہانہ جذبہ قربانی، صبر، ثبات یہ سب آپ کی پیغمبرانہ صفات کی کھلی دلیل ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام نے احکام الٰہی کی پیروی کی خاطر اپنی سب سے عزیز ترین چیز اپنی اولاد کی قربانی انجام دینے کی وہ اعلی ترین مثال قائم کی جس کی انسانی تاریخ میں کوئی نظیر نہیں۔اللہ تعالی قرآن مجید میں فرماتا ہے: 

قَدْ کَانَتْ لَکُمْ اُسْوَۃُٗ حَسَنَۃُٗ فِیٓ اِبْرَا ہِیْمَ وَالَّذِیْنَ مَعَہٗ

تم لوگوں کے لئے ابراہیم اور ان کے ساتھیوں میں ایک اچھا نمونہ ہے۔
( سورہ ممتحنہ، آیت 4)
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی جستجو، ‘ جدو جہد ، صبر، ‘ استقامت ،تسلیم و رضا اوربے چوں و چرا اطاعت کا عملی پیکر رہی ۔ا للہ تعالی کو ابراہیم علیہ السلام کے خاندان کو تمام انسانیت کے لئے نظیر بنانا تھا اس لئے وفا شعار بیوی کے ساتھ ساتھ فرمانبردار فر زند بھی عطا فرمایا۔
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آدابِ فرزندی؟
آپ علیہ السلام کی بیوی اور بیٹے نے ہر مرحلہ پر اپنے شوہر اور باپ ابراہیم علیہ السلام کا ساتھ دیا۔ بیٹے کی قربانی کے لئے ماں بھی تیار ہو گئی۔ عام خواتین کی طرح کسی چیز کا واسطہ دے کر نہیں روکا۔ ‘ اللہ کی فرمانبردار بندی نے سوچا اللہ کا حکم ہے اس کی اطاعت لازمی ہے اور اللہ تبارک تعالی نے ان کی ان بے غرض و بے لوث قربانیوں کو قیامت تک کے لیے یاد گار بنادیا ۔ رب تعالی نے ان قربانیوں کو بہت پسند فرمایا اور ا تنے خوبصورت انداز میں شرف قبولیت سے نوازا کہ اسے امت مسلمہ کی عبادت کا حصہ قرار دے دیا۔ حضرت ہاجرہ کی یاد گار دوران حج صفا و مروہ کی سعی اور حضرت ابراہیم و اسماعیل علیہم السلام کی یادگار ہر سال عید الاضحٰی کے موقع پر جانور کی قربانی ۔یہ اعزازات اللہ کی جانب سے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے گھر والوں کو یونہی نہیں مل گئے ۔ ابراہیم خلیل اللہ نے اپنی تمام زندگی معبود برحق کی خوشنودی و احکام آوری کے لیے وقف کر رکھی تھی اور ان کے بیٹے اور بیوی نے فرما نبر داری کو اپنا شعار بنایا لیا تھا ۔
ایک طرف حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ ہے اور دوسری طرف ہم امت مسلمہ کا طر ز زندگی ۔خود اپنا نفس ، فیملی اور فیملی کے لئے سامان دنیا کی محبت و فکر ‘ ہر آن اور ہر بات پر نفع و نقصان کا خوف ‘۔ حق بات کہوں تو کیا ہوگا؟ ‘ میری نوکری نا چلی جائے ۔ کہیں کاروبار ماند ہ نہ پڑجائے۔ رشتہ دار، دوست احباب ناراض تو نہیں ہوں گے ۔ لوگ کیا سوچیں گے ۔یہ بات فلاں کے حق میں کہوں تو فلاں کے خلاف ہو جائے گی اوران کی ناراضگی تو میں مول لے ہی نہیں سکتا بہت نقصان اٹھانا پڑے گا وغیرہ وغیرہ ۔ یہ بے بنیاد اندیشے انسان کو ہمت و جرات اور عدل و انصاف کے ساتھ صداقت و حق گوئی سے روکتے رہتے ہیں ۔ ہم جان لیں کہ محض صاحب نصاب و استطاعت ہوجانے پر فریضۂ حج و قربانی کی ادائیگی کر دینے سے رسم ابراہیمی ادا ہو جائےگی لیکن سنت ابراہیمی ادا کرنے کے لئے وہ خود سپردگی ، رجوع الی اللہ ، تقوی اور تسلیم و رضا کے ساتھ کامل ایمان کی ضرورت ہوگی ۔ سورہ الحج آیت 37میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے

 لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُـوْمُهَا وَلَا دِمَاۤؤُهَا وَلٰـكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْۗ ۔

نہ اُن کے گوشت اللہ کو پہنچتے ہیں نہ خون، مگر اُسے تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے ۔

ہر سال یہ موقع تذکیر ہے ہمارے لئے کہ اپنی ذات سے وابستہ ہر رشتے کے حقوق و فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی نہ کریں بلکہ ہماری حتی الامکان کوشش هہو کہ دنیاوی زندگی کے یہ خوبصورت، محبتوں بھرے رشتے راہ خدا میں کبھی بھی روکاوٹ نہ بننے پائیں۔ یہ رشتے تو آخرت کی کامیابی اور خوشنودی رب کے حصول کی ضمانت بن سکتے ہیں اگر ہر رشتہ کو اس کے حقوق دینے کے ساتھ ساتھ ان کی اسلامی خطوط پر تربیت بھی کی جائے۔ حق و باطل نیکی و بدی کا فرق بھی سمجھایا جائے ،ان کے دلوں میں گناہوں کا ڈر اور ثواب کی تمنا بھی پیدا کی جائے ۔جس طرح وقت اور زمانے کے ساتھ حالات اور ضرورتیں بدلتی ہیں اسی طرح اللہ کےدین کی اشاعت ، سر بلندی ، نفوذ و قیام کے لئے ضرورتیں اور جد و جہد کی نوعیت بھی بدلتی رہتی ہیں۔ وقت اور حالات جن وسائل و ذرائع کا ، صلاحیتوں و قابلیت کا تقاضہ کر رہے ہو ںاس کےلئے خود کو وقف کرنا اور عقیدہ و ایمان کے لئے رب کی رضا کے لئے ہر قسم کی، حتی کہ جان تک کی قربانی کے لئے تیار رہنا یہ نمونہ خاندان ابراہیم علیہ السلام سے ہم کو ملتا ہے ۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ معمول کے مطابق ہم ہر سال سنت ابراہیمی نبھاتے چلے جائیں اور خواہشوں کے کبھی نہ ختم هونے والے سلسلے ہمیں یہ سوچنے کی مہلت ہی نہ دیں کہ ہم جان سکیں کہ آخر ہمارا رب ہم سے کیا چاہتاہے اور وہ جو چاہتا ہے اس پر تو یقینا ہمارا ایمان تھا ہی، بس صرف عمل وہ نہیں تھا جو خدا کو مطلوب و محبوب تھا ۔
ہائے افسوس ہم غفلت میں پڑے رہے ۔اے کاش ! وقت رہتے جان لیا ہوتا اور ا پنے اعمال کی اصلاح کر لی ہوتی، خاندان کی تربیت کی ہوتی۔سیرت ابراہیمی اور ان کےخاندان میں ہمارے لیے یہ پیغام بہت واضح ہے کہ ہماری پوری زندگی اس آیت کی عملی تفسیر بن جانی چاہیے۔

قُل إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِلَّہِ رَبِّ العالَمينَ (الانعام 162) 

میری نماز،میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے هے۔

اللہ تبارک تعالی نے ان کی ان بے غرض و بے لوث قربانیوں کو قیامت تک کے لیے یاد گار بنادیا ۔رب تعالی نے ان قربانیوں کو بہت پسند فرمایا اور ا تنے خوبصورت انداز میں شرف قبولیت سے نوازا کہ اسے امۃ مسلمہ کی عبادت کا حصہ قرار دے دیا۔

ویڈیو :

آڈیو:

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۱