دینی فرائض کی ادائیگی کے لیے شوہر کی اجازت؟

دین کے معاملے میں یہ قریبی تعلق اور ایک دوسرے کے تعاون کا جذبہ زوجین کے درمیان بھی مطلوب و محمود ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جوڑے پر رحم کرتا ہے جس میں سے کوئی رات میں اٹھتا ہے تو اپنے ساتھی کو بھی اٹھاتا ہے۔ پھر دونوں مل کر تہجد پڑھتے ہیں۔

سوال:دینی فرائض کی تکمیل میں کیا شوہر کی اجازت ضروری ہے؟

جواب:اسلام کا ایک مسلّمہ اصول یہ ہے کہ ہر شخص اپنے اعمال کا ذمہ دار ہے۔ نیک اعمال کرے گا تو روزِ قیامت اس کی جزا پائے گا اور بُرے اعمال کرے گا تو ان کی سزا جھیلنی پڑے گی اور یہ کہ کسی شخص کے اچھے یا برے اعمال کسی دوسرے شخص کو فائدہ یا نقصان نہ پہنچائیں گے۔ قرآن مجید میں ہے:

وَکُلُّہُمْ آتِیْہِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فَرْداً (مریم:۹۵)

’’سب قیامت کے روز فرداً فرداً اس کے سامنے حاضر ہوں گے۔‘‘

وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِزْرَ أُخْرَی(الانعام۱۶۴:)

’’کوئی بوجھ اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔‘‘
دوسری طرف اہلِ ایمان کو راہِ حق میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے، معروف کا حکم دینے اور منکر سے روکنے کی تلقین کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُہُمْ أَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَیَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ (التوبۃ:۷۱)

’’ مومن مرد اور مومن عورتیں، یہ سب ایک دوسرے کے رفیق ہیں، بھلائی کا حکم دیتے ہیں اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
دین کے معاملے میں یہ قریبی تعلق اور ایک دوسرے کے تعاون کا جذبہ زوجین کے درمیان بھی مطلوب و محمود ہے۔ ایک حدیث میں اللہ کے رسول ؐ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس جوڑے پر رحم کرتا ہے جس میں سے کوئی رات میں اٹھتا ہے تو اپنے ساتھی کو بھی اٹھاتا ہے۔ پھر دونوں مل کر تہجد پڑھتے ہیں۔
(ابو داؤد ۱۳۰۸، نسائی:۱۶۱۰، ابن ماجہ ۱۳۳۶:)
دینی فرائض کی ادائیگی ہر مسلمان مرد اور عورت پر لازم ہے۔ اس میں کوتاہی ہوگی تو روز قیامت باز پُرس ہوگی۔ اس لیے ان کے معاملے میں بیوی کو شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے اور اگر شوہر ان کی ادائیگی سے روکے تو اس کی بات ماننا ضروری نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:

لَاطَاعَۃَ لِمَخلُوقِ فِي مَعصِیَۃِ الخَالِقِ۔

شرح السنۃ للبغوی:۲۴۵۵ (خالق کی نافرمانی میں کسی مخلوق کی اطاعت نہیں۔)
مثال کے طور پر نماز اور روزہ ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے۔ اس لیے ان کی ادائیگی کے لیے عورت کو اپنے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اوراگر کوئی شخص اپنی بیوی کو نماز پڑھنے اور روزہ رکھنے سے منع کرے تو بیوی کو حق ہے کہ اس کی بات نہ مانے۔ اسی طرح زکوٰۃ ہر مال دار مسلمان پر فرض ہے۔ اگر کسی عورت پر زکوٰۃ عائد ہو تو اس کی ادائیگی کے لیے اسے شوہر سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں۔
البتہ جن معاملات سے شوہر کا کوئی حق متعلق ہو ان میں اس سے اجازت لینا ضروری ہے۔ اسی وجہ سے عورت کو شوہر کی اجازت کے بغیر نفل روزہ رکھنے سے منع کیا گیا ہے۔ اللہ کے رسول ؐ کا ارشاد ہے:

لَایَحِلُّ لِلمَرأۃِ أن تَصُومَ وَ زَوجُھَا شَاہِدٌ اِلّا بِأِذنِہٖ (بخاری: ۵۱۹۵، مسلم:۱۰۲۶)

’’شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر بیوی کے لیے (نفل) روزہ رکھنا جائز نہیں۔‘‘
اسی طرح عورت کے لیے جائز نہیں ہے کہ شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکلے۔ چنانچہ کسی دینی اجتماع میں شرکت کرنی ہو یا ،دین کے تعلق سے کسی کے گھر جانا اور ملاقات کرنی ہو، یا گھر سے باہر کا کوئی کام ہو، عورت کا شوہر سے اجازت لینا ضروری ہے۔

شوہر اور بیوی کا بہت قریبی تعلق ہوتا ہے۔ دین پر چلنے کے معاملے میں دونوں کو ایک دوسرے کا مددگار بننا چاہیے۔ اگر دین پر عمل کرنے میں بیوی سے کوتاہی ہو تو شوہرکو بہت خوب صورتی، نرمی اور پیار و محبت کے ساتھ ترغیب دینی چاہیے۔ اسی طرح اگر عورت دینی فرائض کی انجام دہی میں شوہر کی طرف سے کچھ رکاوٹ محسوس کرے تو اس پر سخت ردِّ عمل کا اظہار کرنے کے بجائے نرمی کے ساتھ اور شوہر کا ادب و احترام ملحوظ رکھتے ہوئے اس کے سامنے اپنی بات کہے اور اپنا حق منوائے۔ 

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جولائی ۲۰۲۱