درس قرآن
زمرہ : النور
قرآن اور ماحولیات کا تحفظ
وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۖوَهُـمْ عَنْ اٰيَاتِـهَا مُعْرِضُوْنَ

’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، اور وہ آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے والے ہیں۔‘‘

(الأنبیاء۔32)

انسان کی تخلیق سے قبل باری تعالیٰ نے اس کے لئے یہ کائنات خلق کی اور اسے اس زمین کا خلیفہ بنایا۔پھر اس زمین میں پانی، ہوا، زندہ اور مردہ مخلوقات، شجر، حجر، پہاڑ، سمندر اور دیگر عجائبات پیدا کئے تاکہ وہ ان سے فائدہ اٹھائے،ان کو دیکھے،ان پر غور کرے اور ان کے ذریعے خدا کی نعمت اور قدرت کا شکر ادا کرے۔لیکن انسان کی سرشت میں ابتدا سے ہی ناشکری کا عنصر موجود تھا۔لہذا اس نے ان نعمتوں کا غیر ضروری استعمال کرکے اس جنت نما سیارے کو اپنے لئے نقصاندہ بنا لیا۔ہوا اور پانی کوآلودہ کردیا جبکہ شجر و حجر کو بلاضرورت نیست و نابود کرکے اپنے مستقبل کے ساتھ ظلم کیا۔فضائی آلودگی اس قدر بڑھ گئی کہ اوزون کی پرت میں سوراخ ہوگیا اور ماحول کا نظام درہم برہم ہونے لگا۔ اس موضوع پہ جب ہم قرآن کا مطالعہ کرتے ہیں تو پاتے ہیں کہ کم و بیش دوسو آیات ماحولیات سے متعلق ہیں۔ قرآن کی ایک سب سے عمومی مثال جو انسان کے سیارے پر پڑنے والے منفی اثرات کے امکانات پر گفتگو کرتی ہے۔
وَجَعَلْنَا السَّمَآءَ سَقْفًا مَّحْفُوْظًا ۖ وَهُـمْ عَنْ اٰيَاتِـهَا مُعْرِضُوْنَ (الأنبیاء۔32)
’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، اور وہ آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے والے ہیں۔‘‘
’’اور ہم نے آسمان کو ایک محفوظ چھت بنا دیا، اور وہ آسمان کی نشانیوں سے منہ موڑنے والے ہیں۔‘‘ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ’’زمین و آسمان سب ایک ساتھ تھے، نہ بارش برستی تھی نہ پیداوار اگتی تھی۔ جب اللہ تعالیٰ نے ذی روح مخلوق پیدا کی تو آسمان کو پھاڑ کر اس میں سے پانی برسایا اور زمین کو چیر کر اس میں پیداوار اگائی۔‏‘‘ اس آیت کو ماحولیات سے انسانیت کو پہنچنے والے نقصان کی پیش گوئی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ہم جانتے ہیں کہ اوزون کی پرت نہ صرف انسانی نسل بلکہ اس سیارے کی مکمل زندگی کی بقا کے لئے بہت اہم ہے۔یہ ہماری زمین اور سورج کے ذریعہ تیار کردہ نقصان دہ الٹرا وایلیٹ شعاعوں کے درمیان رکاوٹ کا کام کرتی ہے۔اس کے بغیر زمین پر موجود ہر جاندار کے ڈی این اے کی شناخت ناممکن ہوجائے گی۔نباتات مر جائیں گے اور ہمارے لئے غذائی اجناس کی فراہمی بند ہوجائے گی۔جانداروں کے خاتمے کے بعد نسلِ انسانی بھکمری سے زیادہ دور نہیں رہ جائے گی۔ گزشتہ چندبرسوں سے صاف پانی کا تحفظ بھی ایک اہم مسئلہ ہے۔قرآن میں پانی کے اسراف پہ مختلف جگہوں تنبیہہ کی گئی ہے۔ سورہ اعراف میں اللہ تعالی فرماتا ہے:
يا بَني آدَمَ خُذوا زينَتَكُم عِندَ كُلِّ مَسجِدٍ وَكُلوا وَاشرَبوا وَلا تُسرِفوا ۚ إِنَّهُ لا يُحِبُّ المُسرِفينَ (ا لأعراف۔31)
’’اے آدم کی اولاد تم مسجد کی حاضری کے وقت اپنا لباس پہن لیا کرو اور کھاؤ اور پیئو اور حد سے نہ نکلو،بے شک اللہ حد سے نکلنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
مذکورہ بالا عبارت میں،لفظ ’’ولاتسرفوا‘‘ کااستعمال عام طور پران لوگوں کے لئے کیا جاتا ہے جواشیا کا غیرضروری استعمال کرتے ہیں۔زیادہ سے زیادہ کھاتے یا پیتے ہیں یا جو اپنے کھانے اور پانی کو ضائع کرتے ہیں۔ لیکن قرآن مجید اعتدال سے پانی سے لطف اندوز ہونے کے لئے کیوں کہتا ہے؟اس سوال کا جواب قرآن کی دوسری آیت میں ملتا ہےجس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَاَنْزَلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً بِقَدَرٍ فَاَسْكَنَّاهُ فِى الْاَرْضِ ۖ وَاِنَّا عَلٰى ذَهَابٍ بِهٖ لَقَادِرُوْنَ (المؤمنون۔18)
’’اور ہم نے معین مقدار میں آسمان سے پانی نازل کیا پھر اسے زمین میں ٹھہرایا،اور ہم اس کے لے جانے پر بھی قادر ہیں۔‘‘
اس کےفورا بعد قرآن اگلی آیت میں کہتا ہے:
فَاَنْشَاْنَا لَكُمْ بِهٖ جَنَّاتٍ مِّنْ نَّخِيْلٍ وَّّاَعْنَابٍۘ لَّكُمْ فِيْـهَا فَوَاكِهُ كَثِيْـرَةٌ وَّّمِنْهَا تَاْكُلُوْنَ (المؤمنون۔19)
’’پھر ہم نے اس سے تمہارے لیے کھجور اور انگور کے باغ اگا دیے، جن میں تمہارے بہت سے میوے ہیں اور انہی میں سے کھاتے ہو۔‘‘

جب علیحدہ علیحدہ نظر ڈالی جائے تومذکورہ بالا دونوں آیتوں میں پانی کے تحفظ کی اہمیت کی واضح تصویر پیش کی گئی ہے۔ جب مجموعی طور پر غور کیا جائے تو یہ ہمیں ایک مضبوط اور جامع تفہیم فراہم کرتا ہے کہ اللہ رب العزت کیوں پانی کے مناسب استعمال کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔
جیسا کہ اس آیت میں تفصیل سے بتایا گیا ہے کہ ہمیں جو پانی ملتا ہے اس کا مقصد پھلوں اور سبزیوں کی نشوونما میں آسانیاں پیدا کرنا ہے جس سے انسانوں اور جانوروں کو بھی یکساں طور پر غذائیت بخش خوراک فراہم ہو سکتی ہے۔جب پانی کو لاپرواہی یا بلاجواز استعمال کیا جاتا ہے تو اس کا بڑا حصہ زمین میں جانے سے رہ جاتا ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ پودوں اور جانوروں کو جو زندگی کے لئے اس پر بھروسہ کرتے ہیں اس کے بغیر بھی رہناپڑ سکتا ہے تاکہ ہم جیسے فضول خرچ انسان اپنی گاڑیاں دھو سکیں اور برش کے دوران نل کھلا چھوڑ سکیں۔ہم سبھی اس بات سے واقف ہیں کہ زمین کا ستر فیصد حصہ پانی ہے لیکن اس کا بیشتر حصہ ناقابل استعمال اور پینے کے لائق نہیں ہے، صرف 0.03 فیصد حصہ میٹھے پانی کا ہے۔لہذا اس کے استعمال میں ہم سب کو احتیاط برتنی چاہئے اور قرآن پہ عمل کرتے ہوئے اسراف سے بچنا چاہئے۔
علامہ ابن کثیرؒ لکھتے ہیں:
’’زمین کی تین چوتھائیاں تو پانی میں ہیں اور صرف چوتھائی حصہ سورج اور ہوا کے لیے کھلا ہوا ہے۔ تاکہ لوگ آسمان کو اور اس کے عجائبات کو بچشم خود ملاحظہ کر سکیں۔ پھر زمین میں اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت کاملہ سے راہیں بنا دیں کہ لوگ باآسانی اپنے سفر طے کر سکیں اور دور دراز ملکوں میں بھی پہنچ سکیں۔‘‘
قرآن پاک واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اپنے ارادوں سے قطع نظرہرشخص ماحول کو ہونے والے کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرے چاہے وہ چھوٹا ہی ہو۔ اس کی وضاحت سورۃ الروم سے زیادہ کہیں نہیں ہوتی ہے۔جس کی اکتالیسویں آیت اس طرح ہے:

ظَهَرَ الْفَسَادُ فِى الْبَـرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَيْدِى النَّاسِ لِيُذِيْقَهُـمْ بَعْضَ الَّـذِىْ عَمِلُوْا لَعَلَّهُـمْ يَرْجِعُوْنَ (الرّوم.41)
’’خشکی اور تری میں لوگوں کے اعمال کے سبب سے فساد پھیل گیا ہے تاکہ اللہ انہیں ان کے بعض اعمال کا مزہ چکھائے تاکہ وہ باز آجائیں۔‘‘

علامہ ابن کثیر اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’خشکی کے فساد سے مراد بارش کا نہ ہونا، پیداوار کا نہ ہونا، قحط سالیوں کا آنا ہے۔ تری کے فساد سے مراد بارش کا رک جانا،جس سے پانی کے جانور اندھے ہو جاتے ہیں۔انسان کا قتل اور کشتیوں کا جبر چھین جھپٹ لینا یہ خشکی تری کا فساد ہے۔
پھلوں کااور اناج کا نقصان دراصل انسان کے گناہوں کی وجہ سے ہے اللہ کے نافرمان،زمین کے بگاڑنے والے ہیں۔آسمان و زمین کی اصلاح اللہ کی عبادت و اطاعت سے ہے۔‘‘
تیسویں سورۃ کے نام کے پیش نظر بہت سے لوگ اس عبارت کو رومیوں اور ان کی بداعمالیوں کے حوالے سے دیکھتے ہیں جو انہوں نے اپنے زمانے میں دنیا کی ممتاز تہذیب کے طور پر انجام دیئے تھے۔ تاہم اسے مجموعی طور پر مکمل انسانی نسل کی مذمت کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔
ہمارے ہاتھوں نے اپنی ترقی اور اپنی تفریح و آسائش کے لئے عملی طور پر زمین اور اس کے ہر دوسرے جاندار کو نقصان پہنچایا ہے۔یقینا جیسا کہ مذکورہ بالا تفسیر سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ افراتفری اور مشکلات ہمارے اعمال کے نتائج ہیں۔

قرآن پاک واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اپنے ارادوں سے قطع نظرہرشخص ماحول کو ہونے والے کسی بھی قسم کے نقصان کی ذمہ داری قبول کرے چاہے وہ چھوٹا ہی ہو۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱