ماں جائے

[۱]
کاغذ کا وہ ٹکڑا اس کے ہاتھ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور وہ پتھر کا بت بنا سامنے بیٹھے امی ابو کو دیکھ رہا تھا۔ کاغذ کے اس ٹکڑے کے ساتھ ایک عدد خط بھی تھا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ خط کھولا ایک ایک لفظ پڑھ کر وہ خود کو کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس کر رہا تھا۔خط پڑھ کر اس نے پیشانی پر آیا اپنا پسینہ صاف کیا اور اپنی سانسوں کو ترتیب دینے لگا۔ ’’کیا ہوا؟‘‘یہ شمائلہ کی آواز تھی۔ ’’بیٹا سب خیر ہے نا؟‘‘اس کی والدہ نے پوچھا۔ مگر اسے کسی کی کوئی بات نہیں سمجھ آرہی تھی۔ ’’آپ لوگ مجھے کچھ دیر اکیلا چھوڑ دیں۔‘‘وہ بمشکل اتنا ہی کہہ سکا اور سب کے کمرے سے جانے کے بعد اس نے صوفے کی پشت سے ٹیک لگا دی اور خود کو ماضی کے دھارےکے سنگ بہنے دیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

پہلا منظر:

سخت گرمی کے موسم میں گول مٹول سی آٹھ سالہ نادیہ ہانپتی کانپتی نہ صرف ایک کندھے پر اپنا بستہ اٹھائے ہوئی تھی بلکہ دوسرے کندھے پر اس نے عمیر کا بھاری بھرکم بستہ بھی اٹھایا ہوا تھا۔ یہ کوئی آج کی بات نہ تھی بلکہ یہ تو روزانہ کا ہی معمول تھا۔ جبکہ عین گھر کے سامنے پہنچ کر عمیر نادیہ سے اپنا بستہ لینا کبھی نہ بھولتا تاکہ گھر میں کسی کو اس بات کی خبر نہ ہو۔ ایک روز اقبال ماموں انہیں راستے میں مل گئے اور حیرانی سے انہیں دیکھتے ہوئے بولے: ’’ارے ارے۔۔ یہ کیا؟ عمیر!! چھوٹی بہن سے اتنا بھاری بستہ اٹھوایا ہوا ہے۔ دیکھو یہ کتنی مشکل سے چل رہی ہے۔‘‘ ابھی عمیر کچھ بولنے کے لیے پر ہی تول رہا تھا کہ نادیہ جلدی سے بولی: ’’وہ۔۔۔ ماموں جان!! بھائی کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں۔‘‘ ماموں جان بستے کو بھول بھال عمیر کی طبعیت کے بارے میں پوچھنے لگے۔ ’’اففف۔۔ بھائی دیکھیں آپ کی وجہ سے مجھے جھوٹ بولنا پڑا۔‘‘ گرمی سے ہلکان ہوتی نادیہ نے ماموں کے جانے کے بعد کہا اور ناراضی سے عمیر کی جانب دیکھنے لگی مگر وہاں پروا کسے تھی۔

دوسرا منظر:

’’تم کیا کرو گی بوٹیاں کھا کر، پہلے ہی اتنی موٹی ہو۔‘‘
عمیر نے نادیہ کی پلیٹ سے بوٹیاں اُچکتے ہوئے کہا۔چند لمحوں کے لیے ننھی نادیہ کے چہرے پر کئی رنگ آ کر گزر گئے مگر آنکھوں میں آئے چند آنسوؤں کو اس نے پرے دھکیلا اور مسکراتے ہوئے بولی:
’’ہاں بھیا۔۔ مجھے گوشت ویسے بھی زیادہ پسند نہیں۔‘‘
ایسے کئی منظر ایک کے بعد ایک اس کی آنکھوں کے سامنے سے کسی اسکرین کی طرح گزرنے لگے۔۔
بچپن گزرا اور لاپروا سا عمیر اور حساس سی نادیہ بڑے ہوگئے۔  بڑے ہونے پر بھی دونوں کی عادتیں نہ بدلیں۔ عمیر نادیہ کی ہر چیز کو اپنی ملکیت سمجھتا اور نادیہ اپنے بھائی کو بلا چوں چراں ہر چیز دے دیتی۔ وقت پر لگا کر اڑ گیا اور نادیہ کی شادی ہو گئی۔ ان کے والدین نے نادیہ کو تحفے میں ایک خوبصورت سا گھر دیا جس کے بارے میں انہوں نے پہلے سے کسی کو نہیں بتایا ہوا تھا۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عمیر خوش ہوتا مگر وہ سب سے ناراض ہوگیا۔ اس کا مطالبہ تھا کہ وہ گھر نادیہ کے بجائے اسے دیا جاتا۔ نادیہ تو بھائی کی خوشی کی خاطر گھر سے دستبرداری کے لیے تیار تھی مگر ان کے والد نے نادیہ کو سختی سے منع کردیا۔ نتیجتاً عمیر نے نادیہ سے ناطہ توڑ دیا اور بات اتنی بڑھی کہ نادیہ جب جب ملنے آتی عمیر گھر سے ہی غائب ہو جاتا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے نادیہ نے اپنے امی ابو کے گھر آنا ہی تقریبا چھوڑ دیا۔ امی ابو خود ہی نادیہ سے اس کے گھر جاکر مل آتے۔
وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ مگر عمیر کا دل اپنی اکلوتی بہن کے لیے نرم نہ ہوا۔ صلح کی کوششیں بے کار گئیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی عمیر چاہتا تھا کہ اس کی بہن اپنا حق چھوڑ دے مگر نادیہ کو اس کے والدین نے ایسا نہ کرنے دیا، اسی لیے عمیر اپنے والدین سے بھی ناراض ناراض رہتا۔ کچھ عرصے بعد عمیر کی شادی بھی ہو گئی۔ نادیہ کو اللہ نے ایک بیٹا اور دو بیٹیاں دیں جبکہ عمیر بھی ایک بیٹا اور ایک بیٹی کا باپ بن گیا۔ عمیر نے اس گھر کو اپنی ضد ہی بنا لیا تھا کہ اتنا عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس نے اپنا رویہ نہ بدلا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’مم۔۔مگر یہ کیسے۔۔۔؟ مطلب کیوں ہوا ایسا؟آپ دوبارہ چیک کریں شاید رپورٹ صحیح نہ بنی ہو۔‘‘
عمیر نے ایک ہی سانس میں کئی سوالات پوچھ لیے۔
’’عمیر صاحب! رپورٹ بالکل ٹھیک ہے۔ آپ کے بیٹے کو بلڈ کینسر ہے۔ مگر یہ ابھی پہلی اسٹیج کا ہے۔ لہذا پریشان نہ ہوں، مکمل علاج سے آپ کا بیٹا بالکل ٹھیک ہو جائے گا۔‘‘
ڈاکٹر نے تفصیل بتائی۔اس کا دماغ سائیں سائیں کررہا تھا۔ اس کے بارہ سالہ اکلوتے بیٹے کو کینسر تشخیص ہوا تھا۔ ذہنی پریشانی تو تھی ہی مگر علاج کے لیے لاکھوں روپے درکار تھے جو عمیر کے پاس نہیں تھے۔ آخرکار عمیر نے اپنا رہائشی مکان بیچنے کا فیصلہ کیا کیونکہ بچے کا علاج بہرحال ضروری تھا۔ اشعر کے روزانہ مختلف ٹیسٹ ہو رہے تھے۔ سب بےحد پریشان تھے۔ عمیر کرائے کا گھر ڈھونڈ رہا تھا تاکہ گھر بک جائے اور بچے کا اچھا علاج ہو سکے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’بیٹا یہ تمہاری ڈاک آئی ہے۔‘‘
عمیر گھر آیا تو اس کی والدہ نے ایک لفافہ عمیر کے ہاتھ میں تھمایا۔
’’یہ خط کس نے لکھ دیا آج کل کے دور میں؟‘‘عمیر بڑبڑایا۔
خط جب پڑھنا شروع کیا تو پڑھتا ہی چلا گیا۔ اس کا دماغ بالکل سُن ہونے لگا۔
[۲]
’’پیارے بھائی۔۔!!
السلام علیکم! کچھ وجوہات کی بنا پر ہم میں فاصلے پیدا ہو گئے۔ مگر یقین کرو تم ہمیشہ سے میری دعاؤں میں شامل رہے ہو۔ میرا دل سدا تمہاری خوشیوں کے لیے دعاگو رہا ہے۔ اپنے بھتیجے کی بیماری کا جو سنا تو دل اتنا پریشان ہے کہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت ہی گویا ختم ہوگئی ہے۔
پیارے بھائی! جس گھر کے لیے تم مجھ سے ناراض ہو میں نے اس میں رہنے کا بھی کبھی نہیں سوچا کہ مجھ سے ایسی جگہ کیسے رہا جائے گا جس کے لیے میرا پیارا بھائی مجھ سے ناراض ہو۔ مجھے تو اس گھر کی ضرورت ہی نہیں تھی میرے پاس تو گھر موجود ہے۔ اسی لیے میں نے وہ گھر بیچ دیا ہے اور اس کی رقم چیک کی صورت میں تمہیں بھیج رہی ہوں۔ چیک لفافے میں موجود ہے۔ تاکہ اشعر کا بہترین طریقے سے علاج ہوسکے۔ ان شاءاللہ وہ جلد ٹھیک ہو جائے گا۔دنیاوی چیزوں کی ان پیارے رشتوں کے آگے کوئی حیثیت نہیں بھیا۔
فقط تمھاری اکلوتی بہن،نادیہ۔‘‘
کاغذ کا وہ ٹکڑا اس کے ہاتھ میں پھڑپھڑا رہا تھا اور وہ پتھر کا بت بنا سامنے بیٹھے امی ابو کو دیکھ رہا تھا۔ کاغذ کے اس ٹکڑے کے ساتھ ایک عدد خط بھی تھا۔ اس نے کپکپاتے ہاتھوں سے وہ خط کھولا ایک ایک لفظ پڑھ کر وہ خود کو کسی گہری کھائی میں گرتا محسوس کر رہا تھا۔
خط پڑھ کر اس نے پیشانی پر آیا اپنا پسینہ صاف کیا اور اپنی سانسوں کو ترتیب دینے لگا۔
مادیت پرستی سے مغلوب ہو کر وہ جن رشتوں کی قدر نہ پہچان سکا تھا دراصل وہی احساس کے رشتے تو انسان کا مان ہوتے ہیں اور یہ بات اسے بہت دیر سے سمجھ آئی تھی۔

وقت کا پہیہ گھومتا رہا۔ مگر عمیر کا دل اپنی اکلوتی بہن کے لیے نرم نہ ہوا۔ صلح کی کوششیں بے کار گئیں۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی عمیر چاہتا تھا کہ اس کی بہن اپنا حق چھوڑ دے مگر نادیہ کو اس کے والدین نے ایسا نہ کرنے دیا، اسی لیے عمیر اپنے والدین سے بھی ناراض ناراض رہتا۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱