مہرباں کیسے کیسے

’’مانو بیٹا کیا حال ہے،آج تم بہت خوش نظر آ رہی ہو‘‘امجد چاچا نے مونگ پھلیوں کا ٹھیلا لگاتے ہوئے ماہ بانو سے پوچھا۔
’’ہاں چاچا، آج میں بہت خوش ہوں،مجھے لگ رہا ہے آج میرا سپنا پورا ہو جائے گا‘‘
ماہ بانو نے اپنے ٹھیلے پر موتیے کی کلیاں اور سرخ سرخ گلاب قرینے سے رکھتے ہوئے کہا۔
’’کیسا سپنا مانو بیٹا؟‘‘ امجد چاچا نے محبت سے پوچھا۔
’’میرا پڑھنے کا سپنا چاچا،اسکول جانے کا سپنا۔‘‘ماہ بانو نے گجرے میں موتیے کی کلیاں پروتے ہوئے کہا۔
’’لیکن اس کے لئے تمہیں پیسے چاہئے اور گلاب کے پھول اور گجرے بیچنے سے اتنے پیسے کہاں سے آئیں گے‘‘؟؟چاچا نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ارے میرے پیارے چاچا، وہ جو سامنے والا میدان آپ دیکھ رہے ہیں نا،آج وہاں میڈم جی آ رہی ہیں،پتہ ہے وہ کہتی ہیں کہ یہ چھوٹے چھوٹے بچے تو پھول ہیں،ان سے کوئی گنداچھوٹاکام نہیں کروانا چاہئے،اورامیروں کو چاہئے کہ وہ ان غریب بچوں کو اسکول میں داخل کروائیں۔وہ خود بھی ایک بہت بڑا اسکول چلاتی ہیں۔‘‘ماہ بانو چمکتی آنکھوں سے کہہ رہی تھی۔
’’آج جب وہ یہاں آئیں گی تو میں ان سے کہوں گی کہ میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں،تو وہ ضرور میری مدد کریں گی۔‘‘
’’اور یہ سب باتیں تمہیں کس نے بتائیں؟‘‘امجد چاچا نے پوچھا۔
’’آروش نے چاچا‘‘،ماہ بانو نے گجرے میں آخری کلی پروتے ہوئے کہا۔
’’آروش؟کون آروش‘‘؟چاچا کو یاد نہ آیا۔
’’افوہ چاچا،آپ بھی نا،ارے وہی آروش جو روز اسکول واپسی پرمیرے پاس سے ایک گجرا خریدتا ہے‘‘،اس نے بتایا۔
’’اچھا! وہ بچہ جو اپنی پینٹ شرٹ والی ماں کے ساتھ آتا ہے،لیکن شاید بے چارے کو پتہ نہیں کہ پینٹ شرٹ والی عورتیں گجرا نہیں پہنتیں‘‘۔چاچا ہنسنے لگے تو وہ بھی ہنس پڑی۔
***
ماہ بانو بھوری آنکھوں والی ایک بارہ سالہ بچی تھی،وہ چوک پر ٹھیلا لگا کر گلاب کے پھول اور گجرے بیچتی تھی،اس کے باپ نے شراب کی لت لگا کرخود کو کینسر کی آخری اسٹیج پرپہنچا لیا تھا اور پچھلے سال اسے اور اس کی دو بہنوں کو ماں کے سہارے روتا سسکتا چھوڑ کر چل بسا تھا۔دونو بہنیں ابھی چھوٹی تھیں،ماں خود بھی نچلے طبقے کے کچھ گھروں میں جھاڑو برتن کرتی تھی اور بہت کم معاوضہ پاتی تھی،چونکہ اپر کلاس کو نوکرانیاں بھی پڑھی لکھی اور اسمارٹ مطلوب ہوتی ہیں،اس لئے بیچاری جھونپڑی میں رہنے والی ماں نچلے طبقے کے یہاں کام کرتی تھی۔بہرحال ماں کو اتنا ہی مل پاتاتھا کہ پیٹ کی آگ سرد ہو سکے،اس لئے ننھی ماہ بانو کوماں کا ہاتھ بٹانے کے لئے یہ کام کرنا پڑتا تھا۔ وہ واحد نہیں تھی جس کا بچپن دھوپ کی سختی سے کمھلا رہا تھا۔ اس کی بستی کا تقریبا ہربچہ ہوش سنبھالتے ہی ’’دھندے‘‘ پہ لگ جاتا۔ ان بچوں کا بچپن ان پر اترنے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ ماہ بانو بھی ان ہی بچوں میں سے تھی جو کھلونوں سے کھیلنے کی عمر میں ایک ایک روپئے کی خاطر تیز دھوپ،گرمی،سردی اور بارش میں اپنی ننھی سی جان سے مشقت کرتے ہیں۔ لیکن جب وہ اجلے یونیفارم پہن کر اسکول جاتے ہوئے بچوں کو دیکھتی تو ان گنت خواہشیں اس کی آنکھوں میں ستارے بھرنے لگتیں۔
امجد چاچا اس کے ٹھیلے کے پاس ہی اپنا مونگ پھلیوں کا ٹھیلا لگاتے تھے وہ ماہ بانو کو شارٹ کرکے صرف مانو بولتے تھے،اب تو ان کا سن سن کر اکثر خوانچہ فروش اسے مانو کے نام سے پکارنے لگے تھے،کبھی کبھی تو ماہ بانو چڑ جاتی تھی،شام کو جب سبھی ٹھیلے والے اور خوانچہ فروش اپنا کام ختم کرکے پیسے گننے بیٹھتے تو غبارے والا ننھا راجو پوچھتا’’مانو دیدی کتنے جمع ہوئے‘‘؟
’’تم سے کتنی بار کہا ہے کہ میرا نام ماہ بانو ہے،مانو نہیں‘‘وہ چیخ کے کہتی۔
’’مانو جب تک ہم تمہارا پورا نام ماہ بانو پکاریں گے تب تک تو ہوائی جہاز لکھنؤ سے دلی پہنچ جائے گا۔‘‘وہ سب ہنسنے لگتے۔
***
میدان میں رکھی کرسیوں پرمعزز افراد بیٹھ چکے تھے،کچھ ہی دیر میں قیمتی ساڑی زیب تن کئے ہوئے معروف این جی او کی میڈم بھی اسٹیج پہ آ گئیں اور انہوں نے تقریر شروع کی۔
’’میرے معزز ساتھیوں! ہم میں سے کون علم کی اہمیت سے واقف نہیں ہے،علم کے بغیر ہم کسی بھی طرح کی ترقی نہیں کر سکتے،لیکن کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ملک کے ننھے ننھے سے یہ بچے جو مستقبل کے معمار ہیں،یہ سڑکوں،گلیوں،ڈھابوں اور کارخانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ہم اور ہمارے دوست تو اپنے بچوں کو اعلی اسکولوں میں تعلیم دلواتے ہیں،لیکن یہ ننھے منے پھول کھلنے کی آس میں کمھلا کر رہ جاتے ہیں۔ ان ننھے بچوں کی جگہ سڑکوں اور ہوٹلوں میں نہیں بلکہ اسکول میں ہے۔ لہذا آج چائلڈ لیبر ڈے پر میری آپ سبھی اعلی حضرات سے گزارش ہے کہ اس کار خیر میں ہماری مدد کریں،چھوٹے بچوں سے کام لینا بند کریں،انہیں تعلیم حاصل کرنے میں مدد کریں،اور انہیں اسکولوں میں داخل کروائیں۔‘‘
سبھی لوگوں نے زوردار تالیاں بجائیں،میڈم نے ایک ادا سے ہاتھ ہلایا اور اسٹیج سے اتر آئیں،جلسہ ختم ہو چکا تھا،لوگ بکھر رہے تھے۔میڈم بھی اپنی کار کے پاس پہنچ چکی تھیں۔تبھی ماہ بانو دوڑتی ہوئی آئی اور اپنے ننھے سے میلے ہاتھوں سے ان کا قیمتی آنچل تھام لیا۔
’’کیا بات ہے کون ہو تم‘‘؟؟انہوں نے نخوت سے پوچھا۔
’’میڈم میرا نام مانو۔۔۔نہیں ماہ بانو ہے۔۔۔میں آپ سے کچھ مانگنے آئی ہوں‘‘وہ اٹکتے ہوئے بولی۔
’’چلو چلو۔۔۔ بھاگو یہاں سے پتا نہیں کہاں کہاں سے آ جاتے ہیں‘‘ انہوں نے نفرت سے اس کا ہاتھ جھٹکا۔
’’میڈم! میں بھی پڑھنا چاہتی ہوں،آپ ہی نے کہا تھا کہ۔۔۔ بچوں سے کام نہیں لینا چاہئے،میڈم میں بھی اسکول جانا چاہتی ہوں‘‘وہ ان کے سامنے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولی۔
’’ہونہہ،پڑھنا چاہتی ہوں۔‘‘وہ گھمنڈ سے اس کے میلے وجود کو دیکھتے ہوئے بولیں۔
’’اگر تم جیسے گندی نالی کے کیڑے بھی اسکول جانے لگیں تو ہما رے بچوں کا کیا ہوگا؟؟ڈرائیور گاڑی آگے بڑھاؤ‘‘۔
اور دکھ کی شدت سے ماہ بانو کی بھوری آنکھوں میں آنسو بھی نہ آ سکے،وہ شکستہ قدموں سے واپس چل دی کہ اسے ابھی ان ہی امیروں کو پھولوں کے گجرے بیچنے تھے۔

ماہ بانو بھوری آنکھوں والی ایک بارہ سالہ بچی تھی،وہ چوک پر ٹھیلا لگا کر گلاب کے پھول اور گجرے بیچتی تھی،اس کے باپ نے شراب کی لت لگا کرخود کو کینسر کی آخری اسٹیج پرپہنچا لیا تھا اور پچھلے سال اسے اور اس کی دو بہنوں کو ماں کے سہارے روتا سسکتا چھوڑ کر چل بسا تھا۔دونو بہنیں ابھی چھوٹی تھیں،ماں خود بھی نچلے طبقے کے کچھ گھروں میں جھاڑو برتن کرتی تھی
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱