مگر کبھی ایسا ہو کہ والدین کی نرمی کے باوجود بھی بچے نافرمانی پر آمادہ ہوجائیں تو ایسی صورت میں جتنی بچے کی غلطی ہے اتنی ہی سزا دی جائے۔اس پر حد سے زیادہ تشدد نہ کیا جائے۔
تشدد کیا ہے؟
زیادتی کرنا،اپنے عہدے اور پاور کا غلط استعمال کرنا۔
تشدد کی قسمیں
جنسی تشدد،نفسیاتی تشدد،جذباتی تشدد،جسمانی تشدد
جنسی تشدد
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت ساری جگہوں پربچوں کے ساتھ جنسی تشدد کہیں لڑکوں کے ساتھ کہیں لڑکیوں کے ساتھ اس طرح کے واقعات اور معاملات کی خبریں ہم آئے دن دیکھتے اور سنتے ہیں اور اس طرح کی شرمناک حرکتوں میں باہر کے افراد کے علاوہ گھروں کے محرم رشتے بھی ملوث ہوتے نظر آتے ہیں۔مگر الحمدللہ مسلم سماج میں اسلامی گھرانے جنسی تشدد سے مبرا ہیں اور اس کی وجہ بالکل صاف ہے کہ اسلامی گھرانوں میں سنت نبوی پہ عمل ہوتا ہے۔بچوں کو اسلامی ابتدائی تعلیمات سے آگاہی کرائی جاتی ہے۔انہیں اسلامی آداب کے ساتھ محرم اور نامحرم کے فرق سے آشنا کرایا جاتا ہے۔جب وہ سن بلوغت کو پہنچتے ہیں تو آپ ؐ کے قول کے مطابق ان کا بستر الگ کردیا جاتا ہے۔لڑکیوں کو ساتر لباس پہننے کی ترغیب دی جاتی ہے۔
مگر افسوس کہ آج کچھ اسلامی گھرانے مغربی تہذیب کی کرب انگیز اور شرمناک رنگینیوں سے نظر آتے ہیں اور وجہ بالکل صاف ہے۔ اپنے آپ کو سماج میں اعلی اور موڈرن کہلوانے کے لئے اسلامی تعلیمات سے دوری اور موبائل اور نیٹ کی فحاشی اور عریانیت سے نزدیکی۔
مگر الحمدللہ ہمارے مسلم سماج میں جنسی تشدد تونہیں ہے۔لیکن بچوں کے ساتھ نفسیاتی،جذباتی اور جسمانی تشدد بہت زیادہ پایا جاتا ہے جس کی اسلام سختی سے مذمت کرتا ہے۔
جذباتی،نفسیاتی اور جسمانی تشدد یہ کہ انہیں torchureکرنا۔مثلا تم تو بہت سست ہو،تم تو کوئی کام ڈھنگ سے نہیں کرتے،ان کا موازنہ کسی دوسرے بچے سے کرنا،ان کے جسمانی نقص کو لے کر ان کی نفسیات کو ٹھیس پہنچانا،انہیں بہت برے القاب سے نوازنا وغیرہ۔اس سلسلے میں آپ ؐ نے فرمایاکہ ’’عکرمہ اولادکم‘‘یعنی ’’تم اپنی اولاد کوعزت دو۔‘‘انہیں عزت دو گے تو یہ ہمیں عزت دیں گے۔
اگر بچے تھوڑی غلطی کرے تو بہت مارنا،چھوٹی چھوٹی غلطیوں پر مارنا، بار بار ٹوکنا، جھڑکیاں دینا، اپنی گھریلو پریشانیاں اور غصہ ان پہ نکالنا، ان پر پڑھائی کے لئے اول درجے کا دباؤ ڈالنا،والدین کا خود ٹی وی اور موبائل میں مصروف رہنا اور انہیں یہ کہنا کہ پڑھائی کرو اور بااصول وکامیاب بنو،تویہ بھی تشدد ہے۔والدین کو ان چیزوں کو مائنس کرنا ہوگا۔اگر اس طرح سے اصلاح کی کوشش ہوگی تو بچوں میں اصلاح کے بجائے بگاڑ پیدا ہوگا۔
سختی اور تشدد کے ساتھ تربیت کرنا بچوں کے بگاڑ کا پہلا reasonہے۔جب والدین بچوں پر تشدد کرتے ہیں تو وہ بچوں کو indirectlyایک پیغام دے رہے ہوتے ہیں کہ وہ ان سے محبت نہیں کرتے۔اس سے وہ اپنے آپ کو غیر محفوظ سمجھنے لگتے ہیں اور غیروں کو اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں۔
والدین کو بچوں کو اتنا یقین دلانا چاہیے کہ ساری دنیا ایک طرف اور آپ ایک طرف۔آپ ان سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔اس اعتماد میں کمی نہیں آنی چاہیے۔بے اعتمادی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ جو بچے تشدد کا شکار ہوتے ہیں وہ بھی دوسروں پر تشدد کرنا سیکھ جاتے ہیں۔
ان کے اندر انتقامی جذبات اور غصہ پیدا ہوجاتا ہے۔ان کے آپسی تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ یا پھر کوئی تعلقات ہوتے ہی نہیں۔ انھیں ایسا لگتا ہے کہ ہم اپنی بات صرف تشدد،مارپیٹ اور جذبات سے منواسکتے ہیں۔اسلئے اپنے ہی action کے بارے میں والدین کو بہت احتیاط برتنی چاہیے۔
والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے اور بچے کے درمیان تبادلہ خیال اور گفتگو کو مضبوط کریں۔ اس کی وجہ سے آپ کو جو تکلیف ہورہی ہے اسے سمجھائیں۔ نہ اسے ماریں پیٹیں نہ اس پر تشدد کریں ۔ پھر اس کا اثر الگ طرح بلکہ اصلاح کی شکل میں ہوگا۔ لیکن اگر اسے بتایا ہی نہیں گیا کہ آپ کو کیا تکلیف ہورہی ہے۔آپ صرف اس پر تشدد کررہے ہیں تو اس سے اصلاح نہیں ہوگی۔
اس سلسلے میں ایک حدیث کا پہلو ہمارے سامنے آتا ہے کہ نبی ؐ بچوں پر اور اپنے اہل و عیال پر سب سے زیادہ مشفق تھے۔ آپ ؐ کی زندگی اور ان کا محبت و نرمی کا برتاؤ ہمارے لئے مشعل راہ ہے کہ نماز جیسے اہم رکن کو بھی ادا کرنے کے دوران اگر کسی بچے کے رونے کی آواز آتی تو آپؐ اپنی نماز میں تخفیف کردیتے۔
دوران نماز جب بچے آکے آپ ؐ کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے تو آپ ؐ اپنی نماز طویل کردیتے۔
اور آپؐ سے زیادہ تو ہم مصروف نہیں۔آپؐ جب بھی گھر میں داخل ہوتے تو اپنی نبوت کی ساری پریشانیوں کو بالائے طاق رکھ کر مسکراتے اور اپنے نواسوں کے ساتھ کھیلتے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ بہترین رویہ رکھتے۔
بچوں کے ساتھ حتی الامکان نرمی،شفقت اور پیار و محبت کا رویہ اپنایا جائے۔ ان پر تشدد فائدہ مند کے بجائے نقصان دہ ثابت ہوتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ جو لوگ اپنے بچوں پر تشدد کے عادی ہوتے ہیں عام طور پر وہ بڑھاپے میں تنہائی اور بے بسی کا شکار ہوتے ہیں۔اس لیے بچوں کی تربیت میں شفقت اور محبت و نرمی کا پہلو غائب رہنا چاہیے تاکہ وہ بڑے ہوکر معاشرے کا اچھا فرد بن سکے۔
0 Comments