ترانہ
تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

حق کی آواز زمانے میں اٹھانے کے لیے
جبر کو ظلم کو دنیا سے مٹانے کے لیے
دل میں انساں کے محبت کو جگانے کے لیے

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

تم تو غازی بھی ہو شاہد بھی مبشر بھی تم
تم نمازی بھی مجاہد بھی غضنفر بھی تم
حق کی اواز، زمانے کے سکندر بھی تم

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

جھوٹ سے ظلم سے بس تم ہی تو لڑسکتے ہو
ہاتھ ظالم کا بس اک تم ہی پکڑ سکتے ہو
تم ہر اک آندھی کو مٹھی میں جکڑ سکتے ہو

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

آگے آنے کے لیے، ہاتھ ملانے کے لیے
متحد ہو کے زمانے کو دکھانے کے لیے
اب لڑائی ہے یہ دستور بچانے کے لیے

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

آبرو بیٹیوں کی بہنوں کی محفوظ نہیں
ہر طرف تیرگی ہے روشنی محفوظ نہیں
کوئی مذہب، کوئی آئین بھی محفوظ نہیں

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

بعد مدت کے سنبھلنے کا ہے آیا موقع
ظلم کے سر کو کچلنے کا ہے آیا موقع
اٹھو دن رات بدلنے کا ہے آیا موقع

تم نہ اٹھو گے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

اے نظیر آؤ کہ آئین کو نافذ کردیں
پھر سے جمہوری قوانین کو نافذ کردیں
حق پہ مبنی ہے جو اس دین کو نافذ کردیں

تم نہ اٹھوگے تو اب کون یہاں اٹھے گا
انقلاب آئیگا تو تم سے ہی بس آئے گا

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱