بدلتے وقت کے ساتھ جہاں معاشرہ میں لڑکیوں کی تعلیم کے تعلق سے بیداری آئی ہے وہیں معاشی حصہ داری نہ ہونے کے برابر ہے۔یو۔ این ڈیویلپمنٹ پروگرام کی 2015ء کی رپورٹ کے مطابق دیہی علاقوں میں 67فی صد ایسی گریجویٹ لڑکیاں ہیں جو کوئی کام نہیں کرتیں وہیں شہری علاقوں میں یہ تناسب 68.3فی صد ہے۔
ورلڈ بینک کی مارچ 2017ء کی رپورٹ کے مطابق ایف ۔ایل ۔ایف۔پی (Female Labour Force Participation ) کا تناسب 1990ء میں 34 فی صد تھا جو 2016ء میں گھٹ کر کل 23فی صد رہ گیا۔
حیرت انگیز طور پر یہ تناسب تب گھٹا ہے جب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ سال 2019ء کے سی بی ایس سی کے انٹر میڈیٹ کے نتائج کے مطابق پاس ہونے والی لڑکیوں کا تناسب 88.7فی صد تھا 2020میں یہ تناسب 92.15فی صد تھا۔
ایم۔سی۔کنسی عالمی ادارہ کی 2015ء کی اسٹڈی کے مطابق اگر خواتین ملک کی معاش میں حصہ لینا شروع کر دیں تو 2025ء تک ہندوستان کی جی ڈی پی 60فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔
خواتین کی معاش میں حصہ داری
زمرہ : حقائق مع اعداد و شمار
Comments From Facebook
جون ۲۰۲۱
0 Comments