سفرنامہ آذر با یئجان (کوہِ قاف)
فردوسِ بریں
خیر کمرے میں جا کر سستی نے گھیرا تو بھوک نے بھی اوپر کھانے کے ہال میں پہنچا کر دم لیا۔کھانا پیسوں سے لینا تھا۔کمرے کے اخراجات میں صرف ناشتہ تھااور تین عدد چائے وائے تھی۔مینیو بالکل پسند نہ آیا کہ یہی کچھ تو باکو میں بھی دستیاب تھا۔ہم کچھ نیا چاہتے تھے لیکن کوہ قاف میں تو نظارے ہوتے ہیں،کھانے کا کوئی بندوبست نہیں۔خیر کسی طرح معمول کے مینیو میں سے کھانے چننے پڑے تو انتخابی پرچی یاد آئی کہ کس طرح برے امیدواروں میں سےکم برے کو چنا جاتا ہے۔کوہ قاف کے بازوؤں میں نیندکی وادی میں گم ہوناذہن سےغم کوکیسے نکال باہر کرتا ہےیہ اس دن معلوم ہوا۔تو کیا کوہ قاف غم کا علاج ہے؟بالکل ہے!دل سے صدا آئی۔اگلی صبح ہوئی تو ناشتے کی میز پر پہنچے،جہاں ہم سے پہلے چند عرب سفارتکاروں کے خاندان اور بدتمیز بچے اودھم مچائے ہوئے تھے۔ اور اپنی قابوں میں وسعت اور بھوک سے زیادہ اشیاء چن لائے تھے۔ ہم نے قطار میں لگ کر اپنا ناشتہ وصول کیا جن میں چند دانے زیتون،انڈے کا مینیمن جو آذربائیجان کے لوگوں کو بالکل بنانانہیں آتا، اور کچھ کھیرے، ٹماٹراور پیدےکاسلائس اور چائے اور پھر بعد میں ایک میٹھا لے کر تناول اور نوش کیا۔
بعد ازاں باہر کی سیر کو تیار ہوئے۔پہلے تو ہوٹل کے باہر بنے سکیننگ ریزارٹ دیکھنے نکلے۔یہ 1900 میٹرز کی بلندی پر واقع ہے۔جہاں کیبل کار کے ذریعے ٹکٹ لے کر آیا جایا جا سکتا ہے مگر کیا کہتے ہیں اس بلندی کے لئے۔قابل دید اور ناقابل فراموش۔اس بلندی پر چڑھتے ہوئے بے شک کان بند ہوجائیں لیکن آنکھیں کھل جاتی ہیں۔ اس قدر حسین نظارے ہوتے ہیں۔برف میں دبا جنگل، جہاں آج کل برف کا راج تھا ہر ڈال پر۔اوپر پہنچے تو ایک ریسٹورنٹ تھاجہاں دھند سے اٹے پس منظر میں بیٹھ کر چائے پینا تو لذت ہائے دو جہاں سے افضل ہے۔دھند بھی ایسی جیسے کہ کوہ قاف کے شایان شان ہوتی ہے۔جیسے ہوا میں کسی نے سلیمانی سفوف چھڑک کر ان پہاڑوں کے درد کا مداوا کرنا چاہا ہو۔وہاں میں نے تھائم اور لیموں والی چائے منگوائیاور چیز کیک کے ساتھ پی۔اس دوران مجھے ترجمہ کرنا تھا۔یہ بھی شاید نہیں بلکہ یقیناورلڈ ریکارڈ ہوگاکہ اس بلندی پر میں ترجمہ کرنے والی واحد خاتون مترجم ہوں گی۔ کیا ہے کہ مترجم وہ قابل رحم انسان ہوتا ہے جسے جہاں کے کار دراز ومختصرعمر سے چند پل بھی چرانے نہیں دیا جاتا۔چند لمحات مزیدمناظر کوعکس بند کرنے اور لطف اندوز ہونے کے بعد واپسی کی راہ لی کہ نیچے تو آنا تھا۔عروج کا لطف لیا تو پستی کی طرف بھی بخوشی جانا تھا۔وہ پستی بھی کیا پستی تھی۔خوش نما اور دلفریب برفانی رازوں کی امین۔یہ برف کا جنگل نیچے برف کے صحرا میں بدلتا ہوا ہمیں نیچے بلا رہا تھا۔نیچے گرما گرم آلو کے اسپائرل طرز والے چپس کھائےاور جمی ہوئی جھیل کا نظارہ کیا جو ہمارے کمرےکی کھڑی سے نظر آتی تھی۔میں نے سوچا جب اتنے بہترین نظارے ہیں تو پھر ہمارے کمرے میں دو عدد ٹیلی وژن رکھنے سے ہوٹل والوں کی کیا مراد ہے؟انھی خیالات کے ساتھ تیار ہوکر باہر نکلی تو میرے قدموں میں ایک انتہائی خوبصورت پرندہ مرا ہوا پڑا تھا،اس کے پر ادھر ادھر بکھرے ہوئے تھے۔وہ پرندہ جو مرگیا تھا اسے برف کو بدن سونپتے وقت اندازہ نہ تھا کہ اتنی حسین جگہ موت واقع ہوگی۔اگر اس کے بال و پرکو اندازہ ہوتا کہ وہ اتنے حسین خطے میں مرے گا تو وہ دیوانہ وار پرواز کرتا اور سرما پر کئی بہاریں قربان کر دیتا۔ہم نے قطار میں لگ کر اپنا ناشتہ وصول کیا جن میں چند دانے زیتون،انڈے کا مینیمن جو آذربائیجان کے لوگوں کو بالکل بنانانہیں آتا، اور کچھ کھیرے، ٹماٹراور پیدےکاسلائس اور چائے اور پھر بعد میں ایک میٹھا لے کر تناول اور نوش کیا۔
گاڑی میں اینٹی فریز ڈلوا کر سفر شروع ہوا۔ ہماری منزل ’ ییدی گوزیل شالالہ‘ یعنی ’سات خوبصورت آبشاریں‘تھی۔ وہاں پہنچے تو راستے میں دو گایوں کو دست و سینگ دیکھا۔یعنی لڑتے ہوئے۔اوپر تین پرچم لٹک رہے تھے پاکستان، ترکی اور آذربائیجان۔اب ہم کو یہ غم تھا کہ تصویر کس کی لیں۔ پرچموں کی یا الجھتی ہوئی گایوں کی۔ہم آگے بڑھے اور آبشار تک پہنچ گئے مگرداخلی دروازے پرہاتھ میں بندر لئے ہوئے ایک لڑکے سے سامنا ہوا۔وہ چاہتا تھا کہ ہم اس کے ساتھ تصاویر لے کر اس کو مالا مال کر دیں۔میری آنکھ میں زخم تھا جو چھپائے نہ چھپ رہا تھا۔میں بھی اپنے زخم چھپانے کے حق میں نہیں ہوں۔اگر بیماری ہے تو ہے۔اسے شفایابی ہونے تک شرمندگی کے ساتھ نہیں بلکہ عزم اور حوصلے کے ساتھ لئے چلتی ہوں۔سو لڑکاغریب کچھ ششدر ہوا۔اس کی نگاہ میرے شوہر پر پڑی کچھ سوچ کر اس نے سر جھٹکا کیونکہ وہ میرے گرد بازو حمائل کر چکے تھے۔لڑکا سوچ رہا ہوگا کہ صاحب نے تو نہیں ان کو زخمی کیا۔لیکن خود ہی ان کے مہربان چہرے اور رویے سے اس خیال کی گویا نفی کی۔میری آنکھ کا زخم میری اپنی بے احتیاطی اور استطاعت سے زیادہ کام کرنے اور بوجھ کی وجہ سے بنا تھا۔جو خون کے موٹے قطرے کی صورت آنکھ میں جما ہوا تھا۔ بندر اس سمے مجھے اپناباوا ہی لگا تھا۔کیونکہ میں بھی فرکی ٹوپی والا کوٹ پہنے ہوئی تھی۔آگے شہد و شربت فروش نے گھیر لیا کہ ہم سے بھی کچھ سودا طے کرو۔اسے واپسی تک ٹالا لیکن تابکے۔ یہ آبشار کیا تھی کسی ہالی وڈ فلم کا مصنوعی منظر یا سیٹ لگ رہی تھی۔ گاڑی میں اینٹی فریز ڈلوا کر سفر شروع ہوا۔ ہماری منزل ’ ییدی گوزیل شالالہ‘ یعنی ’سات خوبصورت آبشاریں‘تھی۔ وہاں پہنچے تو راستے میں دو گایوں کو دست و سینگ دیکھا۔یعنی لڑتے ہوئے۔اوپر تین پرچم لٹک رہے تھے پاکستان، ترکی اور آذربائیجان۔اب ہم کو یہ غم تھا کہ تصویر کس کی لیں۔ پرچموں کی یا الجھتی ہوئی گایوں کی۔ہم آگے بڑھے اور آبشار تک پہنچ گئے مگرداخلی دروازے پرہاتھ میں بندر لئے ہوئے ایک لڑکے سے سامنا ہوا۔وہ چاہتا تھا کہ ہم اس کے ساتھ تصاویر لے کر اس کو مالا مال کر دیں۔میری آنکھ میں زخم تھا جو چھپائے نہ چھپ رہا تھا۔میں بھی اپنے زخم چھپانے کے حق میں نہیں ہوں۔اگر بیماری ہے تو ہے۔اسے شفایابی ہونے تک شرمندگی کے ساتھ نہیں بلکہ عزم اور حوصلے کے ساتھ لئے چلتی ہوں۔سو لڑکاغریب کچھ ششدر ہوا۔اس کی نگاہ میرے شوہر پر پڑی کچھ سوچ کر اس نے سر جھٹکا کیونکہ وہ میرے گرد بازو حمائل کر چکے تھے۔لڑکا سوچ رہا ہوگا کہ صاحب نے تو نہیں ان کو زخمی کیا۔لیکن خود ہی ان کے مہربان چہرے اور رویے سے اس خیال کی گویا نفی کی۔میری آنکھ کا زخم میری اپنی بے احتیاطی اور استطاعت سے زیادہ کام کرنے اور بوجھ کی وجہ سے بنا تھا۔جو خون کے موٹے قطرے کی صورت آنکھ میں جما ہوا تھا۔ بندر اس سمے مجھے اپناباوا ہی لگا تھا۔کیونکہ میں بھی فرکی ٹوپی والا کوٹ پہنے ہوئی تھی۔آگے شہد و شربت فروش نے گھیر لیا کہ ہم سے بھی کچھ سودا طے کرو۔اسے واپسی تک ٹالا لیکن تابکے۔ یہ آبشار کیا تھی کسی ہالی وڈ فلم کا مصنوعی منظر یا سیٹ لگ رہی تھی۔ اتنا حسین کہ too good to be true والی بات صادق آئے۔ اس کو اوپر تک دیکھنے کے لئے فلک بوس سیڑھیاں بنی تھیں جنھیں شیکسپیئر نے sky kissing stairs کہاتھا۔اب ہم اوپر جا رہے تھے اور پانی نیچے بہتا جا رہا تھا۔ میرا دل تو دھڑکن دھڑکن اس خوب صورتی پر فدا ہوا جا رہا تھا۔درخت اتنے اونچے تھے جتنے کہ میرے حوصلےاور زمین اتنی نیچے رہ گئی تھی جتنا کسی حاسد کا ظرف۔تصاویر بناتی،سیڑھیوں پر پھسلتی، سنبھلتی، چلتی، میں اوپر پہنچی تو مجھےلگاکہ ایک قلم ہواورکاغذوں کا انبار ہو اور بس میں ہوں اور لکھتی جاؤں۔جنت کاکچھ بھی تصور ہی سہی۔ہر شخص کے جنت کا تصور انفرادی اور جدا گانہ ہو تا ہے۔کسی کے خیال میں بسی جنت میں سکون و عافیت،کسی میں خوش رنگ پھول،خوش الحان پرندے،پیڑ،پھول ہوتے ہیں۔تو کسی کی جنت زمردیں پتھر والی ہوتی ہے اور کسی کی جنت کو محض محبوب کی موجودگی کافی و شافی ہوتی ہے۔میرے اپنے خیال میں جنت مختلف ہونی چاہیے۔جنت کا اجتماعی خیال میرے نزدیک حس جمال کی اہانت ہے۔ آپ کی جنت کے ساتھ مسئلہ تب ہوتا ہے جہاں جھیل تو ہو لیکن بطخ نہ تیرتے ہوں۔ آڑو کے پیڑ بنا شگوفوں کے اداس کھڑے ہوں۔
ایک جنت کا تصور دس سال قبل میں نے نوعمری میں مدینہ کی مسجد نبوی والی لائبریری میں تحریر کیا تھا۔ مجھے آج بھی اس فنی اعتبار سے کمزور لیکن حوالہ جات سے بھرپور تحریر پرناز ہے۔کیونکہ کچھ راز کسی سے شریک نہیں کئے جاتےکہ وہ آپ کی الماری اور آپ کے راز ہوتے ہیں۔اور رازوں پر سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے ورنہ کوئی بھی کم ظرف انھیں بیچ چوراہے میں آپ کے منہ پر مار کرآپ کو بے وقعت کر سکتا ہے۔میں کتنی ہی دیر اس منظر کے سحر میں رہی۔مجھے لگا جیسے یہاں جادو چلتا ہے،فسوں بولتا ہے۔پرندے سردی سے مر بھی سکتے ہیں لیکن یہاں کی خاموشی اثر رکھتی ہے یہ بہتا پانی اثر رکھتا ہے۔ وہ گیلے پیڑ جن پر سبز کائی جمی تھی جسے میں نے مخملیں گھاس قرار دیا تھا۔جسے ترک زبان میں’یوصون‘کہا جاتا ہے وہ درختوں پر مالک پر بن کر سوار تھی۔انھی بلند و بالا پیڑوں سے کچھ ڈھیٹ لیکن خوب رو بیلیں بھی لپٹی تھیں یوں جیسے عہد و پیماں کسی عاشق کے دل کے گرد لپٹے ہوتے ہیں۔ان پیڑوں کی بالائی شاخوں کے بازوؤں میں برف بھری تھی۔ وہ درخت جنھوں نے بیلوں کے ہار پہنے تھےکتنے معتبر سے کھڑے تھے۔پانی کوراستہ دے رہے تھے۔آپ نے برف کا جنگل دیکھا ہے؟ جہاں تخیل آگ جلائے آتش تاپ رہا ہوتا ہے۔دیو،جن ،پری کو چھوڑیئے آپ تتلی کے خاندان کو لڑی میں پرو کر یہاں لٹکائیں۔ یہ ہے کوہ قاف۔ گیلی مٹی کی خوشبو میرے نتھنوں سے ٹکرا کر مجھے سرشارکررہی تھی۔ شام ہونے کو آئی لیکن میرا دل نہ کیا یہاں سے جانے کو۔لیکن جیسے ہر کمالے را زوالے،مجھے وقت کی تنگی کے باعث نیچے آنا پڑاکہ کسی اور جگہ بھی جانا تھا۔کیسی بے بسی تھی۔ابھی تواس پھپھوندی کو بھی محسوس کرنا تھا جو درختوں کی اوٹ میں جم رہی تھی۔کیسے کیسے رنگ بکھرے تھے کہ برف ان رنگوں کو ڈھک نہ پائی تھی۔
کیا کہتے ہیں اس بلندی کے لئے۔قابل دید اور ناقابل فراموش۔اس بلندی پر چڑھتے ہوئے بے شک کان بند ہوجائیں لیکن آنکھیں کھل جاتی ہیں۔اس قدر حسین نظارے ہوتے ہیں۔برف میں دبا جنگل جہاں آج کل برف کا راج تھا ہرشاخ پر۔اوپر پہنچے تو ایک ریسٹورنٹ تھا جہاں دھند سے اٹے پس منظر میں بیٹھ کر چائے پینا تو لذت ہائے دو جہاں سے افضل ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱