تعمیرِ ذات
کاعملی منصوبہ
خودی کے معنی خود شناسی اور معرفتِ نفس کے ہیں۔ اس کو ہمیشہ افزائش کے مراحل سے گزارتے رہنا چاہیے اور مزید نکھارنے اور بہتر بنانے کے لیے کوشاں رہنا چاہیے ۔عروج و بلندی کے لیے یہی شئے مطلوب ہے کہ شخصیت ہمیشہ مثبت رخ کی جانب ہمیشہ متحرک رہے ۔ خودی کی افزائش
(growth and groom) کی صحیح سمت ( direction ) کے لحاظ سے دو چیزیں بہت اہم ہیں1:۔پیمانہ ، 2۔ احتساب
ہمارا پیمانہ کیا ہے؟ آئیڈیل نقطہ نظر کیا ہے؟ کس سانچےمیں ہم اپنی خودی کو ڈھالنا چاہتے ہیں؟ اور جواب ایک ہی ہے قرآن و سنت ۔ ہماری اساس ان دونوں ہی سے شروع ہوتی ہے اور انھیں پر ختم۔ ان دونوں کے پیمانہ میں جس نے اپنی ذات کی تشکیل کی وہی ہمارے لیے آئیڈیل ہے ۔ دوسری چیز احتساب ہے ۔ ہر لمحہ اور ہر قدم اپنے آپ کو ہر جانب سے جانچنا ہے کہ ہم صحیح رخ پر جارہے ہیں یا نہیں۔
پیمانہ اور احتساب تبھی ممکن ہو پاتا ہے جب ہمارے پاس علم و عمل، یعنی سیکھنے اور اپنانے کا جذبہ ہو۔ علم حاصل کریں گے تبھی پیمانہ متعین کر پائیں گے اور عمل کرسکیں گے۔ صرف علم معرفت کی منزلیں طے نہیں کرواتا۔ بلکہ یہ تو عمل ہوتا ہے جو آپ کو آگے کی جانب حرکت دیتا ہے۔ علم کے حصول کے لیے کچھ عادتیں اور طریق ہیں، جن کو اپنے اندر پیدا کرنا بہت اہم ہے۔
1 ) قلم سے سیکھنا :
سورۂ العلق میں قلم سے علم سیکھنے کی طرف توجہ دلائی گئی ہے۔ قلم سے علم دو طریقوں سے سیکھا جاتا ہے۔ ایک تو کسی تحریر سے استفادہ حاصل کرکے، دوسرے خود لکھ کر۔ مضمون نگار کو متعینہ موضوع پر لکھتے وقت مواد حاصل کرنے کے لیے حکمت و منطق کی بصیرت سے گزرنا پڑتا ہے اور یہ مرحلے اس کے علم کو اور واضح کردیتے ہیں۔علم کے حصول کے لیے ان دونوں چیزوں کو اپنانا ضروری ہے۔
2 ) غور و فکر کی عادت :
حدیثِ قدسی ہے :تمہاری خاموشی غور و فکر کی خاموشی ہو اور تمہاری نگاہ عبرت کی نگاہ ہو ۔ ان دونوں حکایتوں کا آپس میں ایک نہایت ہی لطیف سا تعلق ہے۔اپنی ذات میں خاموشی کی عادت پیدا کیے بغیر ہماری نگاہ ،عبرت کی نگاہ نہیں بن سکتی۔ ظاہر و باطن کا سکوت ہی اُس نظر کو پیدا کرسکتا ہے۔ ہر منظر، ہر شئے، ہر معاملہ،ہر بات کو عبرت کی نگاہ سے دیکھنا چاہیے اور ساتھ ہی اپنے پیمانہ میں جانچنا کہ یہ صحیح ہے یا غلط۔ ایک عبرت کی نگاہ قدرت کی جانب بھی ہوتی ہے جو کہ سبق آموز ہوتی ہے۔ جب نگاہیں قدرت کی خوبصورتی و نقش ونین سے لڑ جاتی ہیں تو ہر جانب اللہ حکمت و دانائی کے جلوے نظر آنے لگتے ہیں۔اور اللہ کی ذات و صفات سے آگاہی اس کے قرب کا باعث بنتی ہیں۔ جب اللہ کی صفات کا علم ہم پر آشکار ہوتا ہے تو اُس کی وحدانیت و قدرت کا یقین پختہ تر ہوتا ہے۔ یہ غور و فکر اور نگاہِ عبرت ہمیں عام نظریوں اور فلسفوں سے بالاتر کرتی ہے۔ہر معاملہ میں غور و فکر کی عادت بہت سی کمیوں، خامیوں اور لرزشوں سے پاک کردیتی ہے۔ فہم و فراست کو جِلا ملتی ہےاور نگاہ منطقی ہوجاتی ہے۔ معاملہ فہمی اور بصیرت اس کا شعار بن جاتے ہیں۔ان سب کے مجموعہ سے اللہ کی جانب سے الہام کی صورت میں علم کا عرفان ہوتا ہے۔
بےشک اس دنیا میں علم تو موجود و محفوظ ہے،مگر دل و ذہن اس کو قبول کریں گے جب اللہ تعالی ہمارے دل و دماغ کے دریچوں کو کھول دے، نظروبصیرت پہ سیل کی گئی مہر ہٹادے اور عقل پہ پڑے ہوئے پردوں کو نکال دے ۔ تبھی علم کی کرنیں قلب میں اترتی ہیں اور بے شک یہ اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے۔
3) تقوی و مدد طلبی :
علم اللہ کا نور ہے اور وہ نافرمانوں کو حاصل نہیں ہوتا۔ علم کے حصول کے لیے تقوی لازمی جُز ہے۔ تقوی یعنی کھُلے اور چھُپے ہر حال میں اللہ سے ڈرنا۔ جو ہدایتیں ہم پر واضح ہوچکی ہوں، ان کا جان بوجھ کر عملی انکار نا فرمانوں کی صف میں لا کھڑا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ کی نافرمانی سے بچیں۔ کیونکہ جب بندہ نافرمانی کو اپنا شعار بنا لیتا ہے تو دھیرے دھیرے اللہ تعالیٰ اس کے دل کو مہر بند کردیتے ہیں اور دل اس نور سے ویران ہوجاتے ہیں اور عمل بنجر۔
تقوی کے تھ جو چیز نا گزیر ہے، وہ ہے دعائیں اور تہجد کی پابندی ۔ اللہ کی نصرت کے بغیر ہم کچھ بھی نہیں پاسکتے اور جو چیز مانگی جاتی ہے وہ نوازی بھی جاتی ہے۔ مانگنے کا جذبہ یہ دکھاتا ہے کہ طالب کو طلب کی بےقراری نےہاتھ اُٹھانے پر مجبور کردیا ہے۔ اسی لیے علمی سفر میں ہر قدم ہر پہر اللہ سے فضل و کرم اور نافع علم کی دعا مانگنی چاہیے۔
4) عمل کرنا :
علم کی افزائش کے لیے عمل بہت ضروری ہے۔جس چیز کا علم ہم تک پہنچ گیا ہو اس پر عمل درآور ہونا ۔ حکمت اور بصیرت کے در تب وا ہوتے ہیں جب ہم عمل کرتے ہیں۔ کچھ حکمتیں اور پوشیدہ مصلحتیں تب تک خرد سے پرے ہوتی ہیں جب تک ہم اُسے عملی تجربہ سے نا سمجھیں۔عملی تجربہ بہترین اور انمٹ سبق دے جاتا ہے۔
5) گناہوں اور لغویات سے پرہیز:
گناہوں[صغیرہ و کبیرہ ] سے پرہیز انسان کو اللہ کے غضب سے بچاتا ہے۔ انسان جب گناہوں کرتا ہے تو اس کے دل میں اللہ کی رحمت نہیں ہوتی، قلب تاریک ہوجاتاہےاور اس صورت میں علم کا اترنا یا فائدہ ہونا ناممکن ہے۔ گناہوں کے بعد کی شرمندگی اور پشیمانی بھی علم کی نعمت سے دور کردیتی ہے۔ ایک گناہ دوسرے کئی گناہوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔یہ لمبی گم راہی اور تاریک قلبی ذہن و قلب کو علم کے نور سے یکسر کنگال کردیتی ہے۔
لغویات کا جہاں تک تعلق ہے، اس میں لغو بحث و مباحثے اور غیر ضروری محفلوں کا انعقادوغیرہ شامل ہیں۔ ان چیزوںسے فائدہ پہنچنا تو دور، نقصان ہی پہنچتا ہے، جو اللہ سے دوری اور نافرمانی کا باعث بنتی ہیں۔ ہمارے دلوں میں بیک وقت اللہ کا نور اور لغویات نہیں سما سکتیں۔ اس لیے ہر طالب علم کو چاہیے کہ وہ اپنی زندگی سے جڑی ہر لغو شئے اور مصروفیت کو نکال پھینکے۔ یہ عمل وقت میں وسعت و کشادگی اور ذہن میں سکون و اطمینان بھی پیدا کرے گا۔
6)اعتدال پسندی:
نبیؐنے زندگی کے ہر پہلو و معاملے میں اعتدال کو اختیار کرنے کی تلقین کی ہے۔اعتدال پسندی با حکمت عمل ہے۔ زندگی کے ہر معاملہ میں اسے قائم کیا جائے تو علم و حکمت کے ایسے ایسے دروازے انسان پہ کھلتے ہیں، جن کا ادراک شاید ہی کبھی ہوا ہو۔ ہر علم کے طالب کو کھانے پینے، لکھنے پڑھنے، ملنے جلنے، گفت و شنید وخاموشی میں اور ہر امور میں اعتدال و میانہ روی کو اختیار کرنا چاہیے۔اس سے انسان وقت کے ضیاع، عمل میں غلو، سستی و کاہلی ،ذہنی و جسمانی کم زوریوں سے بچ جاتا ہے۔ اعتدال کو اختیار کرنے والا انسان خوش و خرم، مطمئن اور پر امید ہوتا ہے۔
یہ چند عادتیں، جنہیں کوئی اپنا شعار بنالے تو علم کے عرفان سے استفادہ کرسکتا ہے۔ صحیح اور بر حق علم ہمیں پیمانہ متعین کرنے میں بہت مدد دیتا ہے۔ علم کے حصول کے بہت سے ذرائع ہیں جیسے کتابیں، استاد، علمی محفلیں اور ہر انسان بھی ہمیں کچھ نا کچھ ضرور سکھا دیتا ہے، بشرط ہے کہ ہماری نگاہ اس سبق کے لیے اتنی ہی لطیف و عبرت خیز ہو۔ ان علمی ذرائع کی عزت و قدر بہت ضروری ہے۔ خودی کی افزائش میں جس کو بالکل نظر انداز نہیں کیا جاسکتا وہ عمل ہے۔بے عمل خودی اپنی افزائش کے آئینہ کو دھندلا کردیتی ہے۔علم و حکمت کے باوجود بے عمل انسان دھرتی پر اور دوسرے نفوس پر بوجھ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا کیونکہ حقیقی علم تو وہ ہوتا ہے جو دوسروں کو فائدہ دے ۔
علّامہ اقبال نے خودی کی اہمیت اور قوّت کو چار مصروعوں میں کچھ اسطرح سے سمیٹ دیا جیسے سمندر کو کوزے میں بند کردیا ہو۔
زندگانی ہے صدف،قطرہِ نیساں ہے خودی
وہ صدف کیا کہ جو قطرہ کو گہر کر نہ سکے
ہو اگر خود نِگر و خود گر و خود گیر خودی
یہ بھی ممکن ہے کہ تو موت سے بھی مر نہ سکے
زندگی ایک سیپ کی مانند ہے، اور سیپ کا مقصد ہی موتی کے بنانے کا ہوتا ہے۔ اگر اس کا مقصد ہی فوت ہوجائے تو سیپ کے وجود کی کیا اہمیت رہ جاتی ہے۔علّامہ اقبال نے خودی کو قطرہ نیساں سے تعبیر کیا ہے۔نیساں وہ مخصوص موسم کی بارش ہوتی ہے جس میں موتی کو بنانے کی خصوصیت ہوتی ہے۔ہمارے اندر وہ قطرہ نیساں ، یعنی خودی موجود ہے،مگر اسے پانی کے قطرے سے موتی بنانے کا سفر ہی سیپ یعنی ہماری زندگی کو اہمیت بخشتا ہے۔
اسی خودی کی تفسیر آگے چل کر علامہ یوں بیان کرتے ہیں کہ اگر ہماری خودی خود کی نگران، خود کی ناصح و مددگار اور خود کی مالک بن جائے جو دوسرے اذہان، فلسفوں، رسموں کی زنجیروں سے آزاد ہوجائے تو وہ اپنی مثال اذخود قائم کردیتی ہے، جسے بھُلانا نا ممکن بن جاتا ہے۔وہ اپنا مقام لوگوں کے دلوں میں، تاریخ کے صفحات پر اور مقدس اوراق میں اُن ناموں کے ساتھ درج کروالیتی ہے، جنھیں ابدی کامیابی کا تاج پہنایا جائے گا۔
“ ایمان دل میں ہو تو اس سے بڑھ کر ہمت دلانے والی بات اور کیا ہوسکتی ہے کہ خداوند عالم آپکی مدد اور رہنمائی کا ذمہ لے رہا ہے۔ اسکے بعد تو صرف ایک کم اعتقاد و بزدل ہی میدان میں آگے بڑھنے سے ہچکچا سکتا ہے۔
(حوالہ: تفہیم القرآن ، ج۳، ص٤٤٨ ، حاشیہ ٤٣)
سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ
پیمانہ اور احتساب تبھی ممکن ہو پاتا ہے جب ہمارے پاس علم و عمل، یعنی سیکھنے اور اپنانے کا جذبہ ہو۔ علم حاصل کریں گے تبھی پیمانہ متعین کر پائیں گے اور عمل کرسکیں گے۔ صرف علم معرفت کی منزلیں طے نہیں کرواتا۔ بلکہ یہ تو عمل ہوتا ہے جو آپ کو آگے کی جانب حرکت دیتا ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر