بچیوں کے تحفّظ کے لیے خلع ؟

اللہ کے رسول ؐ سے ان کا دوسرا نکاح ہوا تو بچے آپ کی کفالت میں رہے اور آپ نے ان کی بہت اچھی طرح تربیت کی۔ عہدِ نبوی میں اس طرح کے اور بھی واقعات پیش آئے تھے کہ بیوہ خواتین کا دوسرا نکاح ہوا تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے شوہر کے ساتھ رہیں۔

سوال :
کچھ عرصہ پہلے میرے شوہر کا انتقال ہوگیا تھا، جن سے میری تین بیٹیاں ہیں۔ سب نے کہا : دوسری شادی کرلو۔ میں تیار ہوگئی۔ میرے ساتھ بچیاں بھی میرے دوسرے شوہر کے گھر منتقل ہو گئیں۔ اس وقت بچیاں چھوٹی تھیں، اب بڑی ہو رہی ہیں۔ بڑی بچی دسویں جماعت میں ہے۔ وہ اکثر شکایت کرتی ہے کہ ابو کے سامنے وہ اچھا محسوس نہیں کرتی۔
براہ کرم میرے ان سوالات کے جوابات سے نوازیں : کیا بچی کا سوتیلے باپ سے پردہ ہے؟ کیا میں اپنی بچیوں کے تحفظ کے لیے شوہر سے خلع لے سکتی ہوں ؟ واضح کردوں کہ بچیوں کی کفالت کا دوسرا کوئی نظم نہیں ہے۔
جواب :
عورت بیوہ ہوجائے اور اس کے چھوٹے بچے ہوں تو اسے اختیار ہے کہ وہ ان کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت کے لیے خود کو وقف کردے اور دوسرا نکاح نہ کرے، یا اگر کوئی ایسا رشتہ مل جائے کہ دوسرا شوہر اس کے ساتھ بچوں کو بھی رکھنے پر تیار ہو تو وہ اس سے نکاح کرلے، یا بچوں کو ان کے ننہیال والے اپنے یہاں رکھنے پر آمادہ ہوجائیں اور عورت تنہا دوسرے شوہر کے یہاں چلی جائے۔ جو صورت بھی ممکن ہو اور عورت اور اس کے بچوں کے مفاد میں ہو، اسے اختیار کیا جاسکتا ہے۔ مناسب ہے کہ عورت کی آزاد مرضی کا احترام کیا جائے اور اس پر بےجا دباؤ نہ ڈالا جائے۔ اسے مشورہ تو دیا جائے، لیکن اسے خود فیصلہ کرنے کا موقع فراہم کیا جائے۔ پہلے آپشن کا تذکرہ ایک حدیث میں ہوا ہے ۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :
’’ أَنَا وَامْرَأَةٌ سَفْعَاءُ الْخَدَّيْنِ كَهَاتَيْنِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ – وَأَوْمَأَ يَزِيدُ بِالْوُسْطَى وَالسَّبَّابَةِ – امْرَأَةٌ آمَتْ مِنْ زَوْجِهَا ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالٍ، حَبَسَتْ نَفْسَهَا عَلَى يَتَامَاهَا حَتَّى بَانُوا أَوْ مَاتُوا ‘‘۔
( ابوداؤد : 5149، اس حدیث کی سند کو ضعیف کہا گیا ہے۔ )
(میں اور داغ دار رخساروں والی عورت روزِ قیامت اس طرح ہوں گے۔ (یہ کہتے ہوئے راوی یزید نے اپنی درمیانی انگلی اور انگشتِ شہادت سے اشارہ کیا۔) وہ عورت جو جاہ و حسن کی مالک تھی، لیکن بیوہ ہوجانے کے بعد (اس نے دوسرا نکاح نہیں کیا اور) اپنے چھوٹے بچوں کی پرورش میں لگی رہی، یہاں تک کہ بڑے ہونے کے بعد وہ جدا ہوجائیں یا ان کا انتقال ہوجائے۔)
اگر عورت دوسرا نکاح کرلے اور بچے بھی اس کے ساتھ رہیں تو دوسرے شوہر کے لیے اس کے بچوں کی کفالت باعثِ اجر ہوگی۔ ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ بیوہ ہوئیں تو ان کے بچے عمر اور زینب چھوٹے تھے۔ اللہ کے رسول ؐ سے ان کا دوسرا نکاح ہوا تو بچے آپ کی کفالت میں رہے اور آپ نے ان کی بہت اچھی طرح تربیت کی۔ عہدِ نبوی میں اس طرح کے اور بھی واقعات پیش آئے تھے کہ بیوہ خواتین کا دوسرا نکاح ہوا تو وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوسرے شوہر کے ساتھ رہیں۔
سوتیلا باپ بچّیوں کے لیے محرم ہے۔ قرآن مجید میں اس کی صراحت کی گئی ہے۔ محرّمات (وہ عورتیں جن سے نکاح حرام ہے) کے بیان کے ذیل میں ہے :
وَرَبَآئِبُكُمُ الّٰتِىۡ فِىۡ حُجُوۡرِكُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِكُمُ الّٰتِىۡ دَخَلۡتُمۡ بِهِنَّ (النساء 23:)
( اور تمہاری بیویوں کی لڑکیاں جنہوں نے تمہاری گودوں میں پرورش پائی ہے، اُن بیویوں کی لڑکیاں جن سے تمہارا تعلّقِ زن و شو ہوچکا ہو۔ )
جب بچیاں اپنے سوتیلے باپ کے لیے محرم ہیں تو ظاہر ہے کہ اس سے ان کا پردہ نہیں ہے۔
یہ تو شرعی حکم ہے۔ اس کے ساتھ سماجی حالات کو بھی ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔ دینی تعلیمات سے دوری، سماج کے فساد اور خواہشاتِ نفس کے غلبہ کی وجہ سے ایسے واقعات آئے دن سننے اور پڑھنے کو ملتے ہیں کہ مرد نے اپنی سوتیلی لڑکیوں پر غلط نظر ڈالی، یا ان کے ساتھ دست درازی کی۔ اس لیے عورت کو اس معاملے میں بہت حسّاس رہنا چاہیے اور تیز نظر رکھنی چاہیے۔ اگر بچیاں شکایت کرتی ہیں کہ وہ اپنے سوتیلے باپ کے سامنے اچھا محسوس نہیں کرتی تو عورت کو اس شکایت کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اس کا امکان ہے کہ سوتیلا باپ شریف، نیک اور دین دار ہو اور اس کے سامنے بچیوں کی بے اطمینانی بے بنیاد ہو۔ اگر تحقیقِ احوال کے بعد عورت اس نتیجے پر پہنچے تو اسے بچیوں کو سمجھانا چاہیے کہ یہ تمھارے باپ ہیں، ان کی طرف سے تمہیں اطمینان ہونا چاہیے۔
اگر بچیاں ایسی شکایات کریں کہ عورت کو اپنے شوہر کا رویّہ کچھ مشتبہ معلوم ہو تو اسے بچیوں کے تحفّظ کی تدابیر اختیار کرنی چاہیے ۔ وہ بچیوں کو ہر وقت اپنے ساتھ رکھے، کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑے اور نہ ایسے مواقع فراہم ہونے دے کہ کسی بچی کو اپنے سوتیلے باپ کے ساتھ تنہائی حاصل ہو۔ اگر بچیوں کو سوتیلے باپ کے گھر رہنے میں بے اطمینانی ہو اور ننہیال میں یا کسی دوسرے محرم رشتے دار مثلاً بچیوں کے چچا، ماموں یا خالو کے گھر ان کو رکھنے کا نظم آسانی سے ممکن ہو تو ایسا کرنا چاہیے۔
اگر بچیوں کی کفالت کا کوئی دوسرا نظم نہ ہو تو عورت کو شوہر سے خلع حاصل کرنے کی جلدی نہیں کرنی چاہیے، بلکہ شوہر کے ساتھ رہتے ہوئے ان کے تحفظ کی تدابیر سوچنی چاہیے۔ لیکن اگر ہر ممکن کوشش کے باوجود ایسا نہ ہوسکے اور شوہر سے علیٰحدگی حاصل کرنا ہی واحد حل ہو تو بدرجۂ مجبوری وہ خلع لے سکتی ہے۔

ویڈیو :

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر