عہدنبوی
کی برگزیدہ خاتون
قبیلۂ بنی سعد کی سعادت مند خاتون، جو بہت ہی نصیب والی تھیں، وہ کو ئی اور نہیں بلکہ حضرت حلیمہ بنت عبداللہ بن حارث سعدیہؓ ہیں۔وہ عرب کی مشہور دودھ پلانے والی خواتین میں سے تھیں۔ آپؐ کو انھیں نے دودھ پلایا ہے۔ حضرت حلیمہؓ نے رضاعت کی خبر اپنے مسحور کن بیان کے ساتھ اس طرح بیان فرمائی ہے:
’’میں قبیلہ سعد کی دس عورتوں کے ساتھ نکلی، وہ بھی بچوں کی طلب میں تھیں۔ وہ سال قحط والا بالکل خشک بے آب و گیاہ تھا اور میرا سفید خچر بالکل لاغر کمزور تھا۔ ہمارے ساتھ اونٹنی بڑی عمر والی تھی۔ اللہ کی قسم ایک قطرہ دودھ بھی نہیں دیتی تھی اور ہم اس بچہ کی وجہ سے بالکل سو نہ سکتے تھے جو بھوکا رہ رہا تھا۔ نہ میرا دودھ اتنا تھا جو اس کو اسیر کرسکتا تھا، نہ ہی ہماری بوڑھی اونٹنی میں کچھ تھا، لیکن ہمیں بارش اور کشادگی کی امید تھی۔ اسی حالت میں ہم مکہ پہنچ گئے۔ ایسی کوئی عورت نہ تھی جس کو آپؐ پیش نہ کیے گئے ہوں، مگر یہ سن کر کہ یہ تو یتیم ہے، ہر عورت پرورش سے انکار کردیتی۔ کیوں کہ باپ ہی سے مال ملنے کی امید ہوتی ہے اور وہ آپؐ کی پیدائش سے پہلے ہی فوت ہوچکے تھے۔ ان کے دادا اور والدہ سے عورتوں کو کچھ امید نہ تھی۔اس طرح سے سب یتیم کہہ کر انکار کردیتیں اور نا پسندیدگی کا اظہار کرتیں۔یہاں تک کہ میرے ساتھ ایک عورت رہ گئی تھی، مگر اس کو بھی پرورش کے لیے بچہ مل گیا۔ میں تنہا رہ گئی جب قافلے نے چلنے کا ارادہ کیا تو میں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! مجھے یہ بات بہت ناگوار ہے کہ میں اپنی سہیلیوں کے ساتھ خالی ہاتھ لوٹوں۔ اللہ کی قسم! میں اس بچے کے پاس جاؤں گی اور اسی کو لاؤں گی۔ لہٰذا میں گئی اور لے لیا۔ ‘‘
جب سے حضرت حلیمہؓ نے سرور کائنات کو گود لیا، برکتیںان پر اور ان کے شوہر پر موسلادھار بارش کی طرح برسنے لگیں اور جیسے ہی ان کو گود میں اٹھایا اور اپنے سینے مبارک سے لگایا تو حضرت حلیمہؓ کا مبارک سینہ دودھ سے بھر گیا، جتنا چاہا دودھ پلایا۔ آپؐ نے بھی خوب سیر ہوکر نوش فرمایا۔ پھر حلیمہؓ نے اپنے دوسرے بیٹے عبداللہ بن حارث کو اٹھایا انھیں بھی خوب سیری سے دودھ پلایا۔
حضرت حلیمہؓ اور ان کے شوہر پہلے بڑی شدت و بھوک و پیاس میں تھے، کھانا میسر نہ ہوتا تھا اور اونٹنی بالکل بوڑھی تھی۔واپسی میں ان کی سواری جب بنی سعد کے گاؤں میں پہنچی، جہاں قحط سالی کے آثار ہر طرف جھلک رہے تھے،دودھ بالکل نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن رسولِ خد کی برکت سے یکایک وہ تمام مصیبتیں یکسر ختم ہوگئیں۔ان کی بکری گاؤں کی خشک چراگاہ کی طرف جاتی اور دودھ سے بھرے تھنوں کے ساتھ لوٹتی اور دوسری بکریاں جس طرح نکلتی تھیں، اسی طرح لوٹ جاتیں۔ یہاں تک کہ لوگوں نے چرواہوں کو ملامت کرنا شروع کردیا کہ’’ افسوس تم پر۔ تم ہماری بکریاں وہاں کیوں نہیں چراتے جہاں ابوذویب کی بیٹی کی بکری چرتی ہے۔ ‘‘غرض یہ کہ ہر دن زیادہ سے زیادہ برکتیں نازل ہوتی رہیں، یہاں تک کہ دودھ پلانے کا زمانہ ختم ہوا۔
حضرت حلیمہؓ آپؐ کو لے کر مکہ مکرمہ تشریف لائیں۔ حضرت آمنہ اپنے بیٹے کو دیکھ کر بے انتہا خوش ہوگئیں۔ حضرت حلیمہؓ حضرت آمنہ سے بڑی لطافت و نرمی سے پیش آئیں اور دلی خواہش ظاہر کی کہ اپنے لخت جگر کو چھوڑ دیں ، تاکہ وہ دوبارہ گاؤں لے جاسکیں۔ بہت اصرار کے بعد حضرت آمنہ نے انھیں اجازت مرحمت فرمادی اور حضرت حلیمہ بخوشی اپنے اوپر رشک کرتے ہوئے بچہ کو واپس لے آئیں۔
اسی طرح وقت گزرتا رہا۔ آپؐ کی ولادت کے چوتھے یا پانچویں سال شقِ صدر کا واقعہ پیش آیا کہ جب حضرت جبرائیل ؑ آپؐکے پاس آئے۔ آپ دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ آپ کو اپنے ہاتھوں میں لیا اور لٹاکر سینۂ اطہر کو چاک کیا اور دل کو نکالا ، پھر اس سے ایک گوشت کا ٹکڑا نکالا اور فرمایا: یہ آپ کے جسم سے شیطان کا حصہ ہے، پھر اس کو ایک سونے کے طشت میں دھویا، اس میں زم زم کا پانی تھا، پھر اس کو درست کیا اور اپنی جگہ پر رکھ دیا۔بچے دوڑ کر آپؐکی رضاعی ماں کے پاس آئے اور خبردار کیا۔کہنے لگے محمدؐ تو قتل کردیے گئے۔ جب یہ سب اماں حلیمہ کے ساتھ واپس لوٹے، تو دیکھا تو آپؐ بالکل صحیح سلامت ہیں مگر رنگ بدلا ہوا ہے۔اس واقعہ کے بعد حضرت حلیمہؓ خوف زدہ ہوگئیں اور آپ کو آپ کی والدہ ماجدہ کے پاس لوٹاگئیں۔ حضرت حلیمہؓ اپنے گاؤں کی طرف لوٹیں تو حضرت حلیمہؓ کو آپ کی یاد ستاتی رہتی تھی۔
اللہ تعالیٰ نے جب آپؐ کو نبوت سے سرفراز کیا تو حضرت حلیمہ سعدیہ مشرف بہ اسلام ہوئیں۔ جب حضرت حلیمہؓ آپؐ سے ملاقات کے لیے آتیں تو آپؐ ان کے لیے اپنی چادر بچھاتے، احسان اور نیکی کا مظاہرہ کرتے اور ساتھ ساتھ اپنے بچپن کے زمانے کو یاد فرماتے کہ کیسی خوبصورت زندگی ان کی پرورش میں گزاری تھی۔ اس طرح مسکراتے جیسے نیک و لائق بیٹا اپنی شفیق ماں کے سامنے مسکراتا ہے، گویا کہ یہ بتلانا چاہتے کہ وہ ان شفقتوں اور محبتوں کو ہر گز نہیں بھولے۔
حضرت حلیمہؓ نے اسلام لانے کے بعد ہجرت بھی فرمائی اور مدینہ منورہ میں وفات پائی اور جنت البقیع میں مدفون ہوئیں۔رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔
حضرت حلیمہؓ اور ان کے شوہر پہلے بڑی شدت و بھوک و پیاس میں تھے، کھانا میسر نہ ہوتا تھا اور اونٹنی بالکل بوڑھی تھی۔واپسی میں ان کی سواری جب بنی سعد کے گاؤں میں پہنچی، جہاں قحط سالی کے آثار ہر طرف جھلک رہے تھے،دودھ بالکل نہ ہونے کے برابر تھا، لیکن رسولِ خد کی برکت سے یکایک وہ تمام مصیبتیں یکسر ختم ہوگئیں۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ ستمبر