عورتوں کا تحفظ

دنیا جس تیزی سے ٹیکنالوجی اور ترقی کی سمت بڑھ رہی ہے، اس سے دوگنی تیزی سے نئے نئے مسائل اور چیلنجز سے الجھ بھی رہی ہے۔ یہ چیلنجز سماجی، معاشی، ثقافتی، ملکی وملی طرز کے ہیں۔ لیکن ایک سنگین مسئلے نے عالمی مسئلہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایسا مسئلہ جس کا حل تمام ممالک تلاش کررہے ہیں۔ لیکن سوائے ناکامی کے کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ یہ مسئلہ ہے’ عورت کا تحفظ‘ ۔ کسی بھی سماج میں عورت نصف اور اہم کردار رکھتی ہے۔ عورت کے بغیر زندگی کی ترقی و تعمیر مکمل نہیں ہوسکتی، یہ بات سب جانتے اور مانتے بھی ہیں۔ اسی لیے عورتوں کے تحفظ کے مسئلےکو سنجیدگی سے سلجھانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔
اگر ہم عورتوں کے تحفظ پر بات نہ کرتے ہوئے سیدھا عورت کے تحفظ کو متاثر کرنے یا ختم کرنے والے عوامل پر بات کریں تو زیادہ بہتر طریقے سے ’عورتوں کے تحفظ ‘ کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔
بچپن میں شادی، تعلیم سے دوری، آلودہ ماحول میں پرورش، میاں بیوی کے جھگڑے، فیملی مسائل، طلاق، حق مہر سے محرومی، فدیہ، گھریلو تشدد، خواتین کی بطور مزدور نوکرانی خرید و فروخت، تیزابی حملے، بیماریاں، زبردستی کی شادی، عصمت دری، آبرو ریزی، زنا بالجبر، جسم فروشی، جنسی استحصال، ذہنی تشدد، سائبر ہراسمنٹ اور جنسی ہراسمنٹ وغیرہ خواتین کے وہ بنیادی مسائل ہیں، جن سے اکثر خواتین جوجھ رہی ہیں۔
عورتوں کو تحفظ دینے کے لیے حکومتی ادارے اور دیگر حلقےسرگرم عمل ہیں، لیکن یہ مسئلہ روز بروز بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ حکومت نے عوام میں بیداری کے لیے ہیلپ لائن نمبر مختلف حفاظتی محکمے، جیسےWomen Protection cell،Women Complaint cell قائم کیے ہیں۔
اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو عورتوں کے لیے سب سے غیر محفوظ اور خطرناک ملک USA ہے۔ سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ بھارت اس فہرست میں تیسرے نمبر پر ہے۔ دیگر ممالک پر بات نہ کرتے ہوئے ہم اپنے گریبان (بھارت) میں جھانکتے ہیں۔ Thomson Reuters نامی دنیا کے سب سے بڑا نیوز نیٹ ورک نے گزشتہ دنوں ایک سروے کیا ،جو عوام کے رائے و خیالات پر مبنی (Public survey ) تھا۔ اس میں انھوں نے سوال کیا کہ کیا بھارت میں خواتین محفوظ ہیں؟ تو سروے کے آخری نتائج میں یہ بات واضح ہوئی کہ بھارت عورتوں کے لیے غیر محفوظ ہے۔ کیوں کہ یہاں ہر 20منٹ میں ایک لڑکی کی عصمت دری ہوتی ہے۔ ساتھ ہی انھوں نے اس ملک کو خواتین کے لیے دنیا کی خطرناک جگہوں میں سے ایک قرار دیا گیا ہے۔
یہاں عورتوں کے خلاف عصمت دری کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔ اس لیے ہم صرف موضوعِ گفتگو عصمت دری کو رکھتے ہیں۔ ہم آئے دن ٹی وی، نیوز چینل، اخبارات میں عصمت دری کے واقعات سنتے ہیں۔ پچھلے دس سالوں میں عصمت دری کی بڑھتی شرح کو درج ذیل اعداد و شمار کی مدد سے سمجھ سکتے ہیں:

سال اعداد
2010 22,172
2011 24,206
2012 24,903
2013 33,707
2014 36,735
2015 34,651
2016 38,947
2017 32,559
2018 33,356
2019 32,559

NCRB کی رپارٹ کے مطابق بھارت میں ہرروز10 دلت عورتوں کے ساتھ عصمت دری ہوتی ہے اور تقریباً 87 عورتیں روزانہ اس غلیظ حادثے کا شکار بن جاتی ہیں۔ میں آپ کو عورتوں کے تحفظ سے متعلق کچھ سرخیاں بتاتی ہوں:
1-46% rise in complaints of crimes against women, in (2021 )
(2021 میں خواتین کے خلاف جرائم کی شکایات میں 46 فی صد اضافہ ہوا۔)
2-The women in India are increasingly becoming Unsafe
(ہندوستان میں خواتین تیزی سے غیر محفوظ ہورہی ہیں۔)
3- A, 6 years girl raped, Tortured and killed
(ایک 6 سالہ بچی کے ساتھ زیادتی، تشدد اور پھر قتل۔)
4- One rape every 16 minutes in India (NCRB)
(بھارت میں ہر 6منٹ میں ایک لڑکی کی عصمت دری ہوتی ہے۔)
5- According to Indian National Bar Association 70% of Women are afraid to file report against crime
( انڈین نیشنل بار ایسوسی ایشن کے مطابق 70 فیصد خواتین جرائم کے خلاف رپورٹ درج کرنے سے ڈرتی ہیں۔)
اگر ہم ریاستوں کی بات کریں توعورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم (عصمت دری) میں اتر پردیش کا پہلا نمبر ہے، پھر دہلی، راجستھان، جھارکھنڈ، آسام، مدھیہ پردیش، اڈیسہ، ہریانہ، کیرالہ اور مہاراشٹر ہے۔NCRB کے مطابق کیرالہ میں تمام ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ جرم کی شرح ہے، لیکن اس کے باوجود یہ انڈیا کی سب سے محفوظ ریاست ہے، کیوں کہ یہاں خواندگی کی شرح 100فی صد ہے۔
ہمارے ملک میں اتنے سخت قانون ہونے کے باوجود خواتین کے خلاف جرائم تیزی سے بڑھ رہے ہیں، بالخصوص عصمت دری کے واقعات۔ مظلوم بچیاں انصاف کی مدد کی صدا لگاتے ہوئے مرجاتی ہیں، چاہے وہ نربھیا ،آصفہ، پریانکہ ریڈی، منیشہ یا پولیس اہلکار رابعہ سیفی۔ مظلوم بچیاں بدل رہی ہیں، مجرموں کے منحوس چہرے بدل رہے ہیں، لیکن حادثات سب کے ساتھ یکساں ہیں۔ اسی لیے اپنے گھر، محلے، گاؤں اور شہر کی عورتوں کی، عزت کے ساتھ حفاظت کیجیے۔ ان کی ایک باغیچے کے خوبصورت پھول کی طرح نگہبانی کیجیے اور انھیں اس سیاہ دنیا کے حادثات سے بچائیے، کیوں کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔ لڑکیوں کو خود مختار ضرور بنائیے، لیکن یاد رکھیے وہ ہمیشہ صنف نازک ہی رہے گی اور مرد ان کے قوام و نگراں بن کر رہیں گے۔

مظلوم بچیاں بدل رہی ہیں، مجرموں کے منحوس چہرے بدل رہے ہیں، لیکن حادثات سب سے ساتھ یکساں ہیں۔ اسی لیے اپنے گھر، محلے، گاؤں اور شہر کی عورتوں کی، عزت کے ساتھ حفاظت کیجیے۔ ان کی ایک باغیچے کے خوبصورت پھول کی طرح نگہبانی کیجیے اور انھیں اس سیاہ دنیا کے حادثات سے بچائیے، کیوں کہ یہ آپ کی ذمہ داری ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

۲۰۲۱ اکتوبر