جے این یو کے وائس چانسلر ممیڈالا جگدیش کمار نے،بعض گروپوں اعتراض کے باوجود کے بھی نئے نصاب کو یونیورسٹی میں شامل کرنے کی منظوری دے دی۔ انہوں نے کہا کہ کچھ گروہ نئے نصاب کے بارے میں’غیر ضروری تنازعہ‘ پیدا کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ یہ قدم قومی سلامتی کے مفاد میں ہے۔ اس کورس کو مرکزی وزیرِ تعلیم دھرمیندر پردھان کی بھی حمایت حاصل ہے۔ دھرمیندر پردھان نے چند روز قبل نئی تعلیمی پالیسی 2020کے مسئلے پر مرکزی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز سے خطاب کرتے ہوئے اس کورس کی تعریف کی تھی۔
نئے نصاب کا عنوان ہے: ’’کاؤنٹر ٹیررزم ، اسی میٹرک کان فلکسٹ اینڈ اسٹریٹجیز فار کوآپریشن وید میجر پاورس ‘‘۔ یہ انجینئرنگ کے طلبہ کے لیے تیار کیا گیا ہے،جو اپنے تکنیکی کورسز مکمل کرنے کے بعد بین الاقوامی تعلقات کا مطالعہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس کورس کا مقصد طلبہ یہ سکھانا ہے کہ مذہب سے متأثر دہشت گردی سے کیسے نمٹا جائے اور بڑی عالمی طاقتوں کے تعاون سے ’جہادی دہشت گردی‘ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جا سکتی ہے۔
اگر سلیبس کو تفصیل سے پڑھا جائے تومعلوم ہوتا ہےکہ یہ کسی ایسے شخص نے تیار کیا ہے، جو اس موضوع سے اچھی طرح واقف نہیں ہے اور نصاب صرف اسلام اور مسلمانوں کو بدنام کرنے کے ایجنڈے کے طور پر تیار کیا گیا ہے ۔ یہ نہ صرف غلط معلومات پر مشتمل ہے بلکہ اس میں بہت سی غلطیاں بھی ہیں۔
کورس کے تخلیق کاروں اور منظور کرنے والوں کا ایجنڈا بہت واضح ہے۔ کیوں کہ کورس کے مصنف نے مذہب سے متاثر تشدد اور دہشت گردی کو صرف اسلام سے جوڑا ہے اور یہ تأثر دیا ہے کہ یہ صرف اسلام ہی ہے جو اپنے ماننے والوں کو تشدد اور دہشت گردی سکھاتا ہے۔ تاہم مصنف نے کچھ احتیاط برتی ہے، تاکہ کسی کو مصنف کی ایمانداری پر شک نہ ہو۔ مصنف کے مطابق ’ مسلمانوں کو قرآن کی غلط تشریح یہ بتائی جاتی ہے کہ جہاد کے نام پر قتل جائز ہے اور خودکش حملوں اور قتل کی تسبیح اور بڑائی کی جاتی ہے۔‘
ذیلی عنوان ’بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی اور اس کے اثرات‘ میں مصنف نے کہا ہے کہ ’بنیاد پرست، اسلام پسند مذہبی علماء کے استحصال کے نتیجے میں دنیا بھر میں جہادی دہشت گردی کا الیکٹرانک پھیلاؤ ہوا ہے۔‘
کورس نے مزید کہا: ’جہادی دہشت گردی کے آن لائن الیکٹرانک پھیلاؤ کے نتیجے میں سیکولر غیر اسلامی معاشروں میں تشدد کے معاملات میں تیزی آئی ہےاور اب وہ بڑھتے ہوئے تشدد کے مکمل گرفت میں ہیں۔‘
یہ کورس فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے نقطۂ نظر سے بہت خطرناک ہے۔ کیوں کہ اس کے ذریعے ہندوستان میں اسلاموفوبیا کو تقویت ملے گی۔ ہندوستان ، جہاں مسلمان پہلے ہی اپنے آپ کو انتہائی استحصالی پوزیشن میں پاتے ہیں اورہندو کمیونٹی کے بنیاد پرست عناصر کے حملوں اور لنچنگ کا شکار ہوتے ہیں۔ ہندو سماج کے انتہا پسند عناصر کی وجہ سے اب ملک میں یہ صورتحال بن گئی ہے کہ مسلمان، ہندو انتہا پسندوں سے اپنی جان و مال کو خطرہ محسوس کرتے ہیں اور ہندو مسلمانوں کی مخلوط آبادی والے علاقوں میں مسلمانوں نے خوف محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔
ان حالات کے نتیجے میں ملک بھر کے ہر چھوٹے بڑے قصبوں اور شہروں میں مسلم بستیوں میں اضافہ ہوا ہے۔ ملک میں ان بڑھتے ہوئے حالات نے تعلیم سے لے کر سیاست اور معیشت تک مسلمانوں کی زندگی کے ہر پہلو کو محدود کر دیا ہے۔ اپنی جان و مال کو خطرے میں محسوس کرتے ہوئے دیہاتوں میں بھی ’’ گھیٹو بستی ‘‘ آباد کرنے کا رواج شروع ہو گیا ہے۔ ہندو اکثریتی دیہات کے مسلمان آہستہ آہستہ مسلم اکثریتی دیہاتوں میں منتقل ہو رہے ہیں ، جہاں وہ اپنے اردگرد مسلمانوں کو رکھ کر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔ آج ہندوستان میں مسلمانوں کی حیثیت 18 ویں صدی میں یورپ کے یہودیوں جیسی ہے، جنہیں پہلے سرکاری طور پر مسیحیوں اور دیگر لوگوں کے ساتھ مساوی حقوق پر رہنے کی اجازت نہیں تھی۔ اگرچہ ہندوستان میں مسلمانوں پر کوئی سرکاری پابندی نہیں ہے، لیکن زمینی صورتِ حال ایسی ہے کہ مسلمان الگ تھلگ رہنے پر مجبور ہیں۔
کورس کے مصنف اروند کمار ہیں ، سینٹر فار کینیڈین ، یونائٹڈ اسٹیٹ اینڈ لیٹن امریکن اسٹڈیز ، اسکول آف انٹرنیشنل اسٹڈیز میں پروفیسر اور چیئرپرسن ہیں۔ جب ہم نے ان سے فون پر رابطہ کیا تو وہ انڈیا ٹومارو کے ساتھ انٹرویو کے لیے راضی ہو گئے۔ تاہم انہوں نے آخری وقت میں ہماری ملاقات کو یہ کہتے ہوئے منسوخ کر دیا کہ بیشتر میڈیا پہلے ہی اس مسئلے کو کور کر چکا ہے۔
لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس نے صرف اسلام کو کیوں نشانہ بنایا؟ دوسرے میڈیا چینلز کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’اسلام میں مذہب سے متأثرہ تشدد‘‘ کے عنوان کو صرف اس لیے منتخب کیا کہ وہ اسے ایک عالمی طور پر تسلیم شدہ حقیقت سمجھتے ہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا نصاب اس کے بنیادی مطالعہ اور اسلام کے بارے میں تفہیم پر مبنی نہیں ہے اور اسے مسلم معاشرے کے اندر اور باہر مسلم گروہوں کی طرف سے سیاسی تشدد کا کوئی علم نہیں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ مغربی مصنفین اور میڈیا کے ذریعہ دنیا بھر میں پھیلائے گئے پروپیگنڈےسے متاثر ہوا ہے ، تاکہ اس پروپیگنڈے کے تحت اسلام اور مسلم کمیونٹی کو بتدریج بدنام کیا جا سکے۔
جے این یو کا طالب علم وسیم کا کہنا بھی غلط نہیں ہے ، ہم نے دیکھا کہ کس طرح حکومت کا محکمہ صحت اور میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا نے مارچ 2020 میں کورونا وائرس وبائی بیماری کے پھیلاؤ کے ساتھ تبلیغی جماعت اور مسلمانوں کے ناموں کو جوڑ دیا گیا تھا، جس کی کوئی حقیقت نہیں تھی، بلکہ وہ ڈرامہ جھوٹے پروپیگنڈے پر مبنی تھا۔ دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر الاسلام خان کی مداخلت کے بعد محکمہ صحت نے مذہبی بنیادوں پر کورونا کےمثبت اعداد و شمار جاری کرنا بند کر دیا تھا۔ لیکن اس کے بعد بھی میڈیا نے ہندوستان میں پھیلنے والی کورونا وبا کو مسلمانوں کے ساتھ جوڑنا جاری رکھا۔
سپریم کورٹ نے چند روز قبل اس معاملے پر ایک تبصرہ کرتے ہوئے میڈیا کو، خبروں کو فرقہ وارانہ بنانے پر سخت سرزنش کی تھی۔ کورونا وبا کی خبریں فرقہ وارانہ بنیادوں پر نشر ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے نتیجے میں ، قومی دارالحکومت سمیت ملک بھر کے مسلمان ہندو سماج کے بنیاد پرست اور انتہا پسند عناصر کے حملوں کا نشانہ بنے ہیں۔ بہت سے مسلمان تاجروں کا بائیکاٹ کیا گیا اور ان پر مہلک وائرس کے پھیلاؤ کا الزام عائد کیا گیا۔ بنیاد پرست ہجوم کے حملوں میں بہت سے مسلمان اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے۔ ان تمام حالات کو دیکھتے ہوئے ، یہ آسانی سے تصور کیا جا سکتا ہے کہ جب انجینئرنگ کے طلبہ کی ایک بڑی تعداد کو ایک غیر متوازن رویہ کے ساتھ بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کی تعلیم دی جائے گی تو پھر آنے والے وقت میں کیا ہوگا۔
جے این یو کے نصاب میں دوسرے مذاہب کی طرف سے مذہبی طور پر حوصلہ افزائی کی بات نہیں کی گئی ہے۔
مذہبی بنیاد پرستی اور انتہا پسندی صرف مسلمانوں میں نہیں پائی جاتی، یہ ہندوؤں، عیسائیوں، بدھوں اور سکھوں میں بھی بہت عام ہے۔ پنجاب میں خالصتان تحریک مذہب سے متاثر تھی اور اسی طرح ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں میں عیسائیوں کے ذریعہ تشدد کی ایک طویل تاریخ ہے۔ ہندوستان میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف ہندو گؤ رکشکوں کی جانب سے ہجومی تشدد بھی مذہب سے متاثر ہیں ، حالانکہ یہ سب ہندو مذہبی نصوص کی غلط تشریح پر مبنی ہے۔ عام طور پر مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ یہ ہندو مذہب کی تعلیمات کی خلاف ہے، لیکن دہشت گردی کے معاملے پر جے این یو کے نصاب نے ہندوستان میں اقلیتوں کے خلاف تشدد اور دہشت گردی کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیا ہے۔
میانمار اور سری لنکا میں، جہاں مسلمان بدھ بھکشوؤں اور بنیاد پرست گروہوں کا نشانہ ہیں ، پروفیسر اروند کمار اس دہشت گردی پر مکمل طور پر خاموش ہیں۔ میانمار کی فوج کی طرف سے میانمار میں بدھ بھکشوؤں اور مسلمانوں کی نسل کشی مذہب سے متاثر ہے اور پڑوسی ملک سری لنکا میں بھی مسلمانوں کے خلاف بدھ مت سے متاثر تشدد اور دہشت گردی ہے۔ کیا سری لنکا میں لبریشن ٹائیگرز آف تامل ایلم (ایل ٹی ٹی ای) کی دہشت گرد اور علیحدگی پسند تحریک ان کے مذہب سے متاثر نہیں تھی؟ اور ایل ٹی ٹی ای کے دہشت گرد کس مذہب سے تعلق رکھتے تھے؟ دس لاکھ سے زائد مسلمان بودھ دہشت گردوں سے اپنی جان بچانے کے لیے میانمار سے بھاگ گئے اور ان میں سے تقریباً سات لاکھ لوگوںنے بنگلہ دیش میں پناہ لی ہے۔
پروفیسر کمار شاید یہ نہیں سوچتے کہ میانمار میں جو کچھ ہوا وہ بھی بنیاد پرست مذہب سے متاثر دہشت گردی پر مبنی ہے۔ شاید یہ ان کے تعلیمی فریم ورک میں فٹ نہیں آتاہے،کیونکہ دہشت گردی کی کوئی مطلق تعریف نہیں ہے۔ ایک کے لیے دہشت گرد دوسرے کے لیے ہیرو ہو سکتا ہے۔ اس کی بہترین مثال خود بھارت ہے۔ ہندوستان جہاں برطانوی عیسائی حکمرانوں نے سبھاش چندر بوس اور چندر شیکھر آزاد اور بہت سے دوسرے لوگوں کو دہشت گرد کہا ، وہ ہمارے لیے سب سے بڑے آزادی پسند تھے، کیونکہ انہوں نے ہندوستان کو غیر ملکی قبضے سے آزاد کرانے کی جنگ لڑی۔ آزادی کی تحریک کے دوران’رام راجیہ‘ جیسے مذہبی نعرے استعمال کیے گئے، تاکہ عام لوگوں کے ذہنوں میں آزادی کی اہمیت کو قائم کیا جا سکے جو اس وقت جمہوریت کے بارے میں نہیں جانتے تھے۔ ہندوستان کی آزادی کی جدوجہد کو مذہبی طور پر محرک تحریک نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ کچھ مذہبی اصطلاحات آزادی کی جدوجہد کی حمایت میں عوام کو متحرک کرنے کے لیے استعمال کی گئیں تھیں۔
جے این یو انتظامیہ سے واحد توقع یہ ہے کہ عالمی دہشت گردی کے تمام پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے انسداد دہشت گردی کے نصاب کو نئے سرے سے ڈیزائن کیا جائے۔ عالمی دہشت گردی، جس نے افغانستان، لیبیا، عراق اور شام سمیت دنیا کے کئی ممالک کو غیر مستحکم کر دیا ہے، جس کی وجہ سے لاکھوں اموات ہوئیں۔ ان بین الاقوامی ایجنسیوں کے بارے میں بھی ایک ایماندارانہ بحث ہونی چاہیے، جنہوں نے امریکہ اور دیگر عیسائی طاقتوں کے تسلط کے خلاف مزاحمت کرنے والے مسلم ممالک کی مسلم زمینوں کو تباہ کرنے کے لیے القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس ( آئی ایس ای ایس ایل ) کو تشکیل دیا۔
القاعدہ اور آئی ایس آئی ایس سے سب سے زیادہ متاثر خود مسلم کمیونٹی ہوئی ہے ، غیر مسلم معاشرہ نہیں، جیسا کہ کورس کے مصنف نے دعویٰ کیا ہے۔ تعلیمی سالمیت کا تقاضا ہے کہ نصاب میں ترمیم کی جائے، تاکہ دوسرے مذاہب کی مذہبی تحریروں کی غلط تشریح کی بنیاد پر بنیاد پرست مذہبی دہشت گردی کو شامل کیا جائے۔
0 Comments