خوف کی نفسیات بچپن چھین لیتی ہے!
خوف انسان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔بچپن ہی میں استاد کی مار کا خوف یا والدین کی مار کا خوف یا اکثر گھروں میں کوئی ایک ہیولہ بچے کے ذہن میں ثبت ہوجاتا ہے کہ فلاں بڈھا آجائے گا جلدی کھالو، عبداللہ آکر پکڑ لے گا فورا سوجاؤ۔بچے کے ذہن کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو جکڑ لیتا ہے۔ جس وقت بچے کو ڈانٹا یا خوف دلانے کے لیے اشارہ کیا جاتا ہےعین اسی وقت اس کا دماغ اچانک پڑنے والی افتاد پر سہم کر رہ جاتا ہے اور ردعمل کے لیے کوئی سگنلز اسے نہیں دیتا اور بچہ خالی الذہن ہوکر تاکتا رہتا ہے۔ وہ نئے زاویہ سے کسی مسئلہ کے حل پر سوچنے کے بجائے سہم جاتا ہے۔عموما گھروں میں بچوں سے کام کروانے کے لیے ماؤں کا یہ کہنا بہت ہی آسان ہے جیسے یہ کام نہ کرو پاپا ماریں گے یا یہاں نہ جاؤ، وہاں سے گزرو مہمان کیا کہیں گے، دنیا نام رکھے گی، ہماری عزت خاک ہوگی، فیل ہوجاؤ گے۔بظاہر اس طرح کام کی تحریک دلانے والے الفاظ ہمارے اپنے تئیں تربیت کا حصہ ہیں لیکن کبھی ہم نے غور کیا کہ بغیر وجوہات کے صرف ممنوعات کو آرڈر کی بنیاد پر روکنے کی کوشش انہیں برجستہ ردعمل اور ذاتی فیصلے میں جھجک کا شکار بنادیتی ہے۔اس قسم کے خوف کی وجہ سے شخصیت کی اٹھان میں کمزوری رہ جاتی ہے۔ بچے کو کسی بات سے روکنے کے لیے آپ کے پاس وجہ ہو،ٹھوس وجہ ہو۔اللہ تعالی اپنے بندے کو خوف دلاتے ہوئے ہر ایک ممنوع بات کی وجہ واضح کرتا ہے اور اس بات سے اس کے وجوہات کی بنیاد پر اس سے دوررہتا ہے ۔ مثلا شراب کی حرمت میں آپ سمجھ سکتے ہیں منع کرنے کی بنیادیں بالکل واضح ہیں۔ اس کے اثرات سماجی معاملات سے لے کر بے حسی کا چھاجانا،ذمہ داریوں سے فرار،غیر حقیقی زندگی گزارنا اور اپنے جسمانی اعضاء پر بھی ظلم ہے۔اسی لئے اللہ نے انسان کے حق میں اسے مکمل مضر جان کر منع فرمادیا۔ اسی طرح سود سے روک دیا۔ قرض کون لیتا ہے؟ جو انتہائی مجبور ہو۔ اس کے ساتھ ہمدردی کے بجائے تنگ دستی میں زیادہ پیسے طلب کرنا ایک خود غرضانہ فعل ہے سو اللہ نے روک دیا۔ آپ کو سود میں کوئی خیرنظر نہیں آئے گی۔ایک مجبور بندے پر سفاکانہ جبر کے سوا۔اسی طرح ہر چھوٹے بڑے حکم، طاہر مطاہر پانی کا حکم ہویا فقہ کا کوئی مسئلہ ہو اس کے ساتھ ٹھوس وجوہات ہوتی ہیں۔ ہر قسم کے احکامات انسان طبعیت پر راس آتے ہی ہیں اور ممنوعات کے پیچھے مضبوط وجوہات ہوتی ہیں۔اسی بات سے یہ نکتہ بھی اخذ ہوتا ہے کہ بچپن سے بچے کو روکنےکی وجوہات بتائیے۔ جیسے آپ سرد موسم میں آئس کریم سےروکتے ہوئے کہتے ہیں بیٹا سردی ہوجائے گی یا سوئیٹر پہن لو، ٹھنڈ لگ جائے گی، آگ کو نہ چھوؤ ہاتھ جل جائے گا۔بچے مان لیتے ہیں کیونکہ وجہ آپ نے انہیں بتائی ہے۔ بالکل اسی طرح وجوہات کی بنیاد پر ہم بچوں کو روکیں۔ بچہ نماز کی تاکید پر عمل اس وقت کرے گا جب بچپن سے ہم نے رب العالمین کی نعمتوں کا احساس دلایا ہوتو شوق اجاگر ہوگا۔ آپ کا جواب یہ بھی ہوسکتا ہے اللہ بھی خوف دلاتا ہے۔وہیں غور کریں۔اللہ کا خوف پیدا کرنے میں اور کسی بڑے کے خوف میں وہی فرق ہے جوآفس جاتے وقت باس کا خوف اور جاب حلال کرنےکے لئے پالا گیا رب کا خوف ہے ۔باس کا خوف بہانے اور کبھی جھوٹ بولنے اور آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کیفیت پیدا کرکے گا اور بہانے تراشنے یا دھول جھونکنے میں کامیابی ملی تب تو اس کا احساس آپ کو دھوکہ دینے میں طاق کردے گا۔ جبکہ اسی جاب میں خدا کا خوف انسان میں پیدا ہوجائے تو تنہائی میں بھی جرم کرنے سے انسان باز رہے گایہاں تک کہ غفلت ہورہی ہو تو اسی رب کا خوف آپ کو احتساب پر اکساتا ہے۔ بس یہی تھیوری بچے کے خوف پر اپلائی کیجیے گا۔ ایجوکیشنل سائیکولوجی کے لیکچر میں مسٹر محمودصدیقی سر نے دوران لیکچر خوف کے bad effects برے اثرات پر تبصرہ کرتے ہوئے خوف کے نتائج سے آگاہ کرتے ہوئے ایک ریسرچ کا ذکر کیا تھا حوالہ تو یاد نہیں لیکن اس مثال کو یہاں پیش کرنا مناسب لگتا ہے ۔ کہ بندے کا خوف اس جسم میں کس طرح سوچ اور اعصاب کو جکڑ کر جسم میں کیمیکل ری ایکشن پیدا کرتا ہے اس ایکسپیرمنٹ کے لئے ایک قیدی پر تجربہ کیا گیا۔ ایک قیدی کو سزائے موت سنائی گئی۔اس ملک میں سزائے موت کا طریقہ کچھ اس طرح تھا کہ قیدی کے ہاتھ پیر باندھ دئیے جاتے۔اس کو لٹادیا جاتا اور ایک لیور دبا کر خنجر نما ایک دستہ اسکے گلے کے عین اوپر رکھ کر گرادیا جاتا ۔فریکشن آف سیکنڈ میں گردن سے سر الگ ہوجاتا۔اس قیدی کو صرف لٹا کر طریقہ کار بتایا گیا کہ اس طرح آپ کو سزادی جارہی ہے۔بعد ازاں اس کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی گئی ۔بلند آوازمیں صرف کامینٹری دی گئی۔آپ کی سزا میں تین منٹ باقی ہیں۔گنتی مکمل ہوتے ہی یہ لیور دبے گا آواز آئے گی اور اسی آواز کے ساتھ خنجر آپکا گلا کاٹ چکا ہوگا۔جوں ہی گردن سے گرم خون کا احساس ہو آپ مرچکے ہوں گے۔ اس طرح تین مرتبہ دہرایا گیا۔ آخری مرتبہ ’’آپ کی گردن کٹ چکی ہے‘‘ کہتے ہوئے اس کی گردن پر گرم پانی گرایا گیا۔جب کہ یہ صرف بیان کیا جارہا تھا، عملا کچھ ایسا نہیں ہوا لیکن قیدی کو چیک کیا گیا،وہ مرچکا تھا۔ ’’ہم اپنے بچوں کو روز آنہ خوف دلادلا کر آہستہ آہستہ ان کی صلاحتوں کا قتل کررہے ہیں۔‘‘محمود سر نے رکتے ہوئے کہا۔ایک خوف اوردوسری بدلے کی آگ یہ دو چیزیں بچوں کی شخصیت کے لئے سلو پوائزن ہیں۔زیرک والدین اور اساتذہ جان لیں تو کبھی بھی خوف نہ دلائیں۔احساس اجاگر کرنا بچے کی شخصیت کو پر اعتماد بناتاہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

جون ۲۰۲۱