’’گناہ سے توبہ کرنے والا ایساہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہیں تھا۔‘‘
سنن ابن ماجہ(۴۲۵۰)
خدا کو سب سے زیادہ خوشی جس چیز سے ہوتی ہے وہ بندے کی توبہ ہے۔توبہ کے معنی ہیں پلٹنا،رجوع کرنا۔بندے کو ہروقت اللہ تعالیٰ کے حضور پلٹنا چاہیے کیوں کہ خدا تعالیٰ بہت زیادہ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ ہے وہ اپنے بندوں کو معاف کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔اس کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا چاہیے۔ہمیشہ امید و یقین ہو کہ میرے گناہ خواہ کتنے ہی زیادہ ہوں خدا کی رحمت اس سے کہیں زیادہ وسیع ہے۔اللہ تعالیٰ نے نرمی کا شیوہ اپنے اوپر لازم کرلیا ہے۔وہ نرم خو ہے،وہ بندےکے پلٹنے کوبہت پسند کرتا ہے لیکن بندے کو چاہیے کہ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو،خدا کے حضور سجدہ ریز ہواور گڑگڑا کر استغفار و دعائیں کرے۔اس گناہ کودوبارہ نہ کرنے کا عزم کرے۔رات دن یہ دھیان رکھے کہ اللہ سے کیے عہد کی خلاف ورزی نہ ہو نے پائے۔
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’خدا دن میں ہاتھ پھیلا تا ہے کہ اگر میرے بندے نے رات میں گناہ کیا ہوتو وہ دن میں میری طرف پلٹ آئے گا اور خدارات میں ہاتھ پھیلاتاہے کہ اگر میرے بندے نے دن میں کوئی گناہ کیا ہو تووہ رات میں اپنے رب کی طرف پلٹ آئے گا۔‘‘
مسلم (کتاب التوبۃ۲۷۵۹)
صرف بڑے گناہ کے بعد ہی توبہ اور اللہ کا خوف نہ ہو بلکہ ہر چھوٹے چھوٹے گناہ پراللہ کے سامنے شرمندہ ہونا چاہیے۔
محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’سارے کے سارے انسان خطاکار ہیں اور بہترین خطاکار وہ ہے جو بہت زیادہ توبہ کرنے والا ہو۔‘‘ (ترمذی)
ہر انسان سے غلطی ہو تی رہتی ہے،ہرپل اس سے گناہ سرزد ہوجاتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ معافیاں مانگنے والے، معاف کر نے والے اور توبہ کر نے والے بندوں کو پسند کرتا ہے۔کوئی یہ نہ کہے کہ ہم سے غلطی نہیں ہوتی بلکہ اپنے اندر عاجزی و انکساری اور معاف کر نے کا جذبہ پیدا کریں۔خدا نے اپنے محبوب بندوں کی یہ تعریف نہیں فرمائی ہے کہ ان سے گناہ نہیں ہوتے، بلکہ فرمایا ان سے گناہ ہوتے ہیں لیکن وہ اپنے گناہوں پر فوراً نادم ہوتےہیں اور خود کو پاک کرنے کے لیے بے قرار ہو جاتے ہیں۔
سورۃ الزمر (53-54)میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’اے میرے وہ بندےجواپنی جانوں پر زیادتی کربیٹھےہو خدا کی رحمت سے ہرگز مایوس نہ ہو،یقیناً خدا تمہارے سارے کے سارے گناہ معاف فرما دے گا وہ بہت ہی معاف فرمانے والا اوربڑامہربان ہے اور تم اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کی فرمانبرداری بجالاؤ اس سے پہلے کہ تم پر کوئی عذاب آپڑے اور پھر تم کہیں سے مدد نہ پا سکو۔‘‘
خدا کے قہر و غضب سے بےفکر بھی نہ ہوؤ، نہ ہی زمین میں اکڑ دِکھاؤ۔ اگر تم بے فکری کے ساتھ زمین پرگناہ کرتے چلے گئے توخداسزادینے میں بہت تیز بھی ہے۔یہ جان لوکہ اس کی سزا سے تمہیں اس کے سوا کوئی نہیں بچا سکتا ہے۔
ابھی ہمارے پاس وقت ہے خدا کا تقویٰ پیدا کریں، نمازوں کی پابندی کریں،تہجد میں اٹھ کرخداکے حضور عاجزی سے کھڑے ہو،روئیں توبہ کریں، خدا توبہ کرنے والے کو سانس اکھڑ نےسے پہلے تک معاف کرنے والا ہے۔دیر نہ کریں ہمارے پاس وقت بہت کم ہے، موت سر پر کھڑی ہے ۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک موقع پر کچھ جنگی قیدی گرفتار ہو کر آئے۔ان میں ایک عورت بھی تھی جس کا دودھ پیتا بچہ چھوٹ گیا تھا۔ وہ ممتا کی ماری ایسی بے قرار تھی کہ چھوٹے بچے کو پاتے ہی اپنی چھاتی سے لگا کر دودھ پلانے لگی۔اس عورت کا یہ حال دیکھ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا: ’’کیا تم توقع کر سکتے ہو کہ یہ ماں اپنے بچے کو خود اپنے ہاتھوں آگ میں جھونک دے گی؟۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود پھینکنا تو درکنار وہ اگر گرتا ہوتویہ جان کی بازی لگا کر اس کوبچائےگی۔‘‘
اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’خدا اپنے بندوں پر اس سے بھی کہیں زیادہ رحیم اور مہربان ہے جتنی یہ ماں اپنے بچے پر مہربان ہے۔‘‘توبہ کرتے رہیں۔ صبح سے شام تک نہ جانے انسان سے کتنے گناہ ہوتے رہتے ہیں انسان کو خود اس کا شعور نہیں ہوپاتا۔انسان ہر وقت توبہ کا محتاج ہے اور قدم قدم پر اس سے کوتاہیاں ہوتی رہتی ہے خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دن میں ستر ستراور سوسو بار تو بہ و استغفار کرتے تھے۔
0 Comments