نبی ؐ سے دیکھنے کی مطلق اجازت ثابت ہے اور آپ نے لڑکی کی اجازت کی شرط نہیں لگائی ہے۔ اور اس لیے کہ اکثر لڑکی خود کو دیکھنے کی اجازت دینے میں شرم محسوس کرے گی اور اس لیے کہ اس میں دھوکہ ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ دیکھنے کے بعد لڑکے کو لڑکی پسند نہ آئے تو وہ نکاح کرنے سے انکار کردے، اس سے لڑکی کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ اذیّت محسوس کرے گی۔
سوال :
میری بیٹی الحمد للہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایم ڈی کررہی ہے۔ دینی ذہن بھی ہے۔ طالبات کی ایک تنظیم سے وابستہ ہے اور اس کے ذمے داروں میں سے ہے۔ ایک جگہ میں نے اس کا رشتہ لگایا۔ لڑکے والے ملاقات کرنے آئے تو لڑکے نے میری بیٹی کو دیکھنے کا تقاضا کیا۔ میں نے ان کی ایک مختصر ملاقات کروادی۔ میرا یہ عمل خلافِ شرع تو نہیں ؟
جواب :
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کو اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ جس لڑکی سے نکاح کرنے کو سوچ رہا ہے یا اس کے گھر والے جس لڑکی سے اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اسے وہ نکاح سے قبل دیکھ لے۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
میری بیٹی الحمد للہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ ایم بی بی ایس کرنے کے بعد ایم ڈی کررہی ہے۔ دینی ذہن بھی ہے۔ طالبات کی ایک تنظیم سے وابستہ ہے اور اس کے ذمے داروں میں سے ہے۔ ایک جگہ میں نے اس کا رشتہ لگایا۔ لڑکے والے ملاقات کرنے آئے تو لڑکے نے میری بیٹی کو دیکھنے کا تقاضا کیا۔ میں نے ان کی ایک مختصر ملاقات کروادی۔ میرا یہ عمل خلافِ شرع تو نہیں ؟
جواب :
بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکے کو اجازت بلکہ ترغیب دی گئی ہے کہ وہ جس لڑکی سے نکاح کرنے کو سوچ رہا ہے یا اس کے گھر والے جس لڑکی سے اس کا نکاح کرنا چاہتے ہیں اسے وہ نکاح سے قبل دیکھ لے۔
حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :
إِذَا أَلْقَى اللَّهُ فِي قَلْبِ امْرِئٍ خِطْبَةَ امْرَأَةٍ، فَلَا بَأْسَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَيْهَا
(ابن ماجہ:1864)
(ابن ماجہ:1864)
(جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے دل میں کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ارادہ ڈال دے تو کوئی حرج نہیں ہے کہ اسے دیکھ لے۔ )
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
إِذَا خَطَبَ أَحَدُكُمُ الْمَرْأَةَ فَإِنِ اسْتَطَاعَ أَنْ يَنْظُرَ إِلَى مَا يَدْعُوهُ إِلَى نِكَاحِهَا فَلْيَفْعَلْ( ابوداؤد: 2082)
(جب تم میں سے کسی شخص کا ارادہ کسی عورت کو پیغامِ نکاح دینے کا ہو تو اگر وہ عورت میں کوئی ایسی چیز دیکھ سکتا ہو جو اسے اس کے نکاح کی طرف مائل کردے تو وہ ایسا کرسکتا ہے۔ )
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے : میں ایک موقع پر نبی ﷺ کی مجلس میں تھا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ اس نے ایک انصاری عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ آپ نے دریافت کیا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے۔ اس نے جواب دیا : نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا :
حضرت ابو ہریرہؓ کا بیان ہے : میں ایک موقع پر نبی ﷺ کی مجلس میں تھا۔ ایک شخص آیا اور اس نے آپ کو بتایا کہ اس نے ایک انصاری عورت کو نکاح کا پیغام بھیجا ہے۔ آپ نے دریافت کیا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے۔ اس نے جواب دیا : نہیں۔ تب آپؐ نے فرمایا :
فَاذْهَبْ، فَانْظُرْ إِلَيْهَا، فَإِنَّ فِي أَعْيُنِ الْأَنْصَارِ شَيْئًا (مسلم: 1440)
(جاکر دیکھ لو، اس لیے کہ انصار کی آنکھوں میں کچھ ہوتا ہے۔)
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے تذکرہ کیا کہ میں فلاں لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت فرمایا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟ میرے انکار پر آپؐ نے فرمایا:
حضرت مغیرہ بن شعبہؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کے سامنے تذکرہ کیا کہ میں فلاں لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ آپ نے دریافت فرمایا : کیا تم نے اسے دیکھ لیا ہے؟ میرے انکار پر آپؐ نے فرمایا:
انظُرْ إليها، فإنه أحرى أن يُؤدَمَ بينكما
(ترمذی: 1887 نسائی : 3235 ابن ماجہ: 1866)
(ترمذی: 1887 نسائی : 3235 ابن ماجہ: 1866)
( اسے دیکھ لو، اس سے امید ہے کہ نکاح کے بعد تمھارے تعلقات زیادہ خوش گوار رہیں گے۔ )
ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ نکاح کے بارے میں کوئی شخص مشورہ کرے تو اسے درست مشورہ دینا چاہیے۔ لڑکی یا اس کے خاندان کے بارے میں جو اچھی باتیں معلوم ہوں انہیں بتانا چاہیے اور اگر کوئی نامناسب بات معلوم ہو تو اسے بھی بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ان احادیث سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں :
1۔ نکاح کے بارے میں کوئی شخص مشورہ کرے تو اسے درست مشورہ دینا چاہیے۔ لڑکی یا اس کے خاندان کے بارے میں جو اچھی باتیں معلوم ہوں انہیں بتانا چاہیے اور اگر کوئی نامناسب بات معلوم ہو تو اسے بھی بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
2۔ جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو اسے دیکھا جاسکتا ہے۔
3۔ لڑکی کو دیکھنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دیکھنے والے کے اندر اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو اور اس کی طرف وہ کشش محسوس کرے۔ مقصد چھان پھٹک نہ ہو کہ دیکھنے کے بعد رشتے سے انکار کردیا جائے۔
4۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے علم میں لاکر اسے دیکھا جاسکتا ہے؟ یا اسے بتائے بغیر دیکھنا چاہیے ؟ احادیث سے دونوں صورتوں کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت مغیرہؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں : ’’ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اجازت پاکر میں جس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا تھا، اس کے گھر پہنچ گیا اور اس کے والدین سے کہا : اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کی لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ وہ خاموش رہے، ایسا لگا کہ انہیں یہ بات ناگوار گزری ہے۔ وہ لڑکی پردے میں تھی۔ میری بات سن کر وہ باہر نکل آئی اور کہا : اگر واقعی اللہ کے رسول ﷺ نے بھیجا ہے تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اسے دیکھ لیا، پھر میرا اس سے نکاح ہوگیا۔ وہ عورت بہت خوبیوں والی نکلی۔‘‘ (ترمذی: 1087 نسائی: 3235، ابن ماجہ: 1866)
جب کہ حضرت جابر ؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے اپنی منگیتروں کو چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
( ابوداؤد: 2082، ابن ماجہ: 1864)
امام نوویؒ نے شرح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث کے ذیل میں لکھا ہے :
’’ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو، اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارا (یعنی شوافع)، مالک، ابو حنیفہ اور تمام اہلِ کوفہ، احمد اور جمہور علماء کا مسلک ہے۔ پھر ہمارا اور مالک، احمد اور جمہور کا مسلک یہ بھی ہے کہ لڑکی کی مرضی سے اسے دیکھنا مشروط نہیں ہے، بلکہ اس کی غفلت میں اور اسے بتائے بغیر دیکھنا چاہیے۔ مالک سے ایک کم زور روایت یہ مروی ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر اسے نہیں دیکھنا چاہیے، لیکن یہ ضعیف رائے ہے۔اس لیے کہ نبی ؐ سے دیکھنے کی مطلق اجازت ثابت ہے اور آپ نے لڑکی کی اجازت کی شرط نہیں لگائی ہے۔ اور اس لیے کہ اکثر لڑکی خود کو دیکھنے کی اجازت دینے میں شرم محسوس کرے گی اور اس لیے کہ اس میں دھوکہ ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ دیکھنے کے بعد لڑکے کو لڑکی پسند نہ آئے تو وہ نکاح کرنے سے انکار کردے، اس سے لڑکی کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ اذیّت محسوس کرے گی۔‘‘(المنھاج شرح صحیح مسلم، نووی)
5۔ اگر لڑکی کو دیکھنا اس لیے ہو کہ دیکھنے کے بعد لڑکا یا اس کے گھر والے رشتہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں تو لڑکی کو بتائے بغیر اسے دیکھنا چاہیے۔ اس کے علم میں لاکر یا اس کے گھر جاکر اور اس سے ملاقات کرکے دیکھنا مناسب نہیں۔
6۔ اسی طرح رشتہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے دیکھنے کا کام منگنی سے پہلے کرنا چاہیے۔ یہ مناسب نہیں کہ لڑکی دیکھے بغیر پہلے منگنی کردی جائے، پھر لڑکا اور اس کے گھر والے اسے دیکھنے کے لیے اس کے گھر جائیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں :
’’ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ لڑکے کا لڑکی کو دیکھنا منگنی سے قبل ہو، تاکہ اگر وہ پسند نہ آئے تو لڑکی کو اذیت دیے بنا اس سے رشتے کا ارادہ ترک کردیا جائے۔ برخلاف اس کے اگر منگنی کے بعد لڑکی کو دیکھا جائے گا اور پسند نہ آنے کی صورت میں اس سے رشتہ نہیں کیا جائے گا تو لڑکی کو تکلیف ہوگی۔ ‘‘ (المنھاج)
7۔ ہمارے سماج میں لڑکی کو دیکھنے کا جو طریقہ رائج ہے، وہ بڑا غیر شائستہ اور غیر مہذّب ہے۔ لڑکے کے والدین اور قریبی رشتے دار لڑکے کو لےکر لڑکی کے گھر جاتے ہیں اور پُر تکلّف دعوت اُڑاتے ہیں، وہاں بہت باریکی سے لڑکی کا معاینہ کرتے ہیں، لڑکے اور لڑکی کو کچھ دیر الگ بیٹھ کر بات چیت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لڑکی پسند نہ آئی تو واپس آکر رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اس رویّہ کا نفسیاتی طور پر لڑکی پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بسا اوقات وہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔ لڑکی کوئی بھیڑ بکری تو ہے نہیں کہ جاکر دیکھ لیا، پھر فیصلہ کیا کہ اسے خریدیں یا نہ خریدیں۔ دیکھنا لازماً اس طرح ہونا چاہیے کہ لڑکی کو خبر نہ ہو۔ آج کے دور میں یہ بہ آسانی ممکن ہے۔ لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جاتی ہیں، دیگر ضروریات سے گھر سے باہر نکلتی ہیں، انہیں کہیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بہر حال دیکھنا اس طرح ہونا چاہیے کہ ان کی عزّتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے اور ان کا وقار مجروح نہ ہو۔
3۔ لڑکی کو دیکھنے کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ دیکھنے والے کے اندر اس سے نکاح کی رغبت پیدا ہو اور اس کی طرف وہ کشش محسوس کرے۔ مقصد چھان پھٹک نہ ہو کہ دیکھنے کے بعد رشتے سے انکار کردیا جائے۔
4۔ ایک اہم سوال یہ ہے کہ کیا لڑکی کے علم میں لاکر اسے دیکھا جاسکتا ہے؟ یا اسے بتائے بغیر دیکھنا چاہیے ؟ احادیث سے دونوں صورتوں کی اجازت معلوم ہوتی ہے۔ حضرت مغیرہؓ اپنا واقعہ بیان کرتے ہیں : ’’ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے اجازت پاکر میں جس لڑکی سے نکاح کرنا چاہتا تھا، اس کے گھر پہنچ گیا اور اس کے والدین سے کہا : اللہ کے رسول ﷺ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے اور آپ کی لڑکی کو دیکھنے کی اجازت دی ہے۔ وہ خاموش رہے، ایسا لگا کہ انہیں یہ بات ناگوار گزری ہے۔ وہ لڑکی پردے میں تھی۔ میری بات سن کر وہ باہر نکل آئی اور کہا : اگر واقعی اللہ کے رسول ﷺ نے بھیجا ہے تو آپ مجھے دیکھ سکتے ہیں۔ میں نے اسے دیکھ لیا، پھر میرا اس سے نکاح ہوگیا۔ وہ عورت بہت خوبیوں والی نکلی۔‘‘ (ترمذی: 1087 نسائی: 3235، ابن ماجہ: 1866)
جب کہ حضرت جابر ؓ اور حضرت محمد بن مسلمہؓ کے بارے میں مروی ہے کہ انھوں نے اپنی منگیتروں کو چھپ کر دیکھنے کی کوشش کی تھی۔
( ابوداؤد: 2082، ابن ماجہ: 1864)
امام نوویؒ نے شرح مسلم میں حضرت ابوہریرہ ؓ سے مروی حدیث کے ذیل میں لکھا ہے :
’’ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ جس لڑکی سے نکاح کا ارادہ ہو، اسے دیکھا جاسکتا ہے۔ یہ ہمارا (یعنی شوافع)، مالک، ابو حنیفہ اور تمام اہلِ کوفہ، احمد اور جمہور علماء کا مسلک ہے۔ پھر ہمارا اور مالک، احمد اور جمہور کا مسلک یہ بھی ہے کہ لڑکی کی مرضی سے اسے دیکھنا مشروط نہیں ہے، بلکہ اس کی غفلت میں اور اسے بتائے بغیر دیکھنا چاہیے۔ مالک سے ایک کم زور روایت یہ مروی ہے کہ لڑکی کی اجازت کے بغیر اسے نہیں دیکھنا چاہیے، لیکن یہ ضعیف رائے ہے۔اس لیے کہ نبی ؐ سے دیکھنے کی مطلق اجازت ثابت ہے اور آپ نے لڑکی کی اجازت کی شرط نہیں لگائی ہے۔ اور اس لیے کہ اکثر لڑکی خود کو دیکھنے کی اجازت دینے میں شرم محسوس کرے گی اور اس لیے کہ اس میں دھوکہ ہے، کیوں کہ ممکن ہے کہ دیکھنے کے بعد لڑکے کو لڑکی پسند نہ آئے تو وہ نکاح کرنے سے انکار کردے، اس سے لڑکی کا دل ٹوٹ جائے گا اور وہ اذیّت محسوس کرے گی۔‘‘(المنھاج شرح صحیح مسلم، نووی)
5۔ اگر لڑکی کو دیکھنا اس لیے ہو کہ دیکھنے کے بعد لڑکا یا اس کے گھر والے رشتہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرسکیں تو لڑکی کو بتائے بغیر اسے دیکھنا چاہیے۔ اس کے علم میں لاکر یا اس کے گھر جاکر اور اس سے ملاقات کرکے دیکھنا مناسب نہیں۔
6۔ اسی طرح رشتہ کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کرنے کے لیے دیکھنے کا کام منگنی سے پہلے کرنا چاہیے۔ یہ مناسب نہیں کہ لڑکی دیکھے بغیر پہلے منگنی کردی جائے، پھر لڑکا اور اس کے گھر والے اسے دیکھنے کے لیے اس کے گھر جائیں۔ امام نوویؒ فرماتے ہیں :
’’ہمارے اصحاب نے کہا ہے کہ بہتر یہ ہے کہ لڑکے کا لڑکی کو دیکھنا منگنی سے قبل ہو، تاکہ اگر وہ پسند نہ آئے تو لڑکی کو اذیت دیے بنا اس سے رشتے کا ارادہ ترک کردیا جائے۔ برخلاف اس کے اگر منگنی کے بعد لڑکی کو دیکھا جائے گا اور پسند نہ آنے کی صورت میں اس سے رشتہ نہیں کیا جائے گا تو لڑکی کو تکلیف ہوگی۔ ‘‘ (المنھاج)
7۔ ہمارے سماج میں لڑکی کو دیکھنے کا جو طریقہ رائج ہے، وہ بڑا غیر شائستہ اور غیر مہذّب ہے۔ لڑکے کے والدین اور قریبی رشتے دار لڑکے کو لےکر لڑکی کے گھر جاتے ہیں اور پُر تکلّف دعوت اُڑاتے ہیں، وہاں بہت باریکی سے لڑکی کا معاینہ کرتے ہیں، لڑکے اور لڑکی کو کچھ دیر الگ بیٹھ کر بات چیت کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔ لڑکی پسند نہ آئی تو واپس آکر رشتے سے انکار کردیا جاتا ہے۔ اس رویّہ کا نفسیاتی طور پر لڑکی پر بہت بُرا اثر پڑتا ہے اور بسا اوقات وہ ڈپریشن میں چلی جاتی ہے۔ لڑکی کوئی بھیڑ بکری تو ہے نہیں کہ جاکر دیکھ لیا، پھر فیصلہ کیا کہ اسے خریدیں یا نہ خریدیں۔ دیکھنا لازماً اس طرح ہونا چاہیے کہ لڑکی کو خبر نہ ہو۔ آج کے دور میں یہ بہ آسانی ممکن ہے۔ لڑکیاں تعلیم حاصل کرنے کے لیے کالجوں اور یونی ورسٹیوں میں جاتی ہیں، دیگر ضروریات سے گھر سے باہر نکلتی ہیں، انہیں کہیں بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ بہر حال دیکھنا اس طرح ہونا چاہیے کہ ان کی عزّتِ نفس کو ٹھیس نہ پہنچے اور ان کا وقار مجروح نہ ہو۔
ویڈیو :
Comments From Facebook
0 Comments