خواتین اور تجارت
کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ، ہر کام میں ایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار خواتین کے لیے روزگار کے ذرائع بہت ہوتے ہیں بے روزگاری اور کم آمدنی سے پریشان ہونے کے بجائے اپنی سوچ ، وقت اور صلاحیت کو روزگار کے ذرائع پیدا کرنے اور ان سے آمدنی حاصل کرنے پر لگایا جائے ، تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔
ایک وقت ایسا تھا ، کہ گھر کے ایک فرد کی آمدنی سے دس افراد کے اخراجات پورے کیے جاتے تھے اور اب مہنگائی اس قدر بڑھ گئی ہے کہ گھر کے تمام افراد بھی بر سر روزگار ہو جائیں ، تو آمدنی کم محسوس ہوتی ہے۔ بات صرف مہنگائی یا غربت کے بڑھنے کی نہیں ہے ، بات ہے ضروریات زندگی کو پورا کرنے کی ۔ زندگی کی بنیادی ضرورتیں ہیں ’’ روٹی ، کپڑا اور مکان ‘‘ مہنگائی کے اس دور میں اوسط آمدنی کے لوگوں کے لیے اپنا مکان بنانا جوئے شیر لانے سے کم نہیں ، رہی بات دو وقت کی روٹی اور کپڑوں کا انتظام کرنا ، تو خط افلاس سے نیچے زندگی گزارنے والوں کے لیے یہ بھی مشکل ہے ۔ ان حالات میں انسان کا صحت مند رہنا بھی مشکل ہی ہے ۔ پھر بھی اپنے بچوں کے لیے اچھی ملازمت اور اچھے مستقبل کے لیےلوگ اپنے بچوں کو اعلا تعلیم دلا رہے ہیں ۔ مختلف فیکلٹی سے لاکھوں گریجویٹ تیار ہو رہے ہیں اور ملازمت کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں ۔ ایسے میں کم تعلیم یافتہ اور گھر گرہستی والی خواتین کے لیے کسی ملازمت کا حاصل کرنا مشکل ہی نہیں نا ممکن ہے ۔ مگر جو کہا جاتا ہے ،’’ جہاں چاہ ہے ، وہاں راہ ہوتی ہے۔‘‘ یعنی انسان اگر کچھ کرنا چاہے ، تو خود ہی اس کے لیے راستے کھل جاتے ہیں ۔ آج کا ہمارا موضوع بے روزگاری کو دور کرنے کے تعلق سے ہے اور خاص طور سے خواتین کے لیے کہ کس طرح گھر بیٹھے کاروبار شروع کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ موضوع خواتین کی رہنمائی کے لیے ہے، خواہ وہ اعلا تعلیم یافتہ ہوں یاکم تعلیم یافتہ بہت سے ایسے کام ہیں، جنہیں وہ اپنے گھر سے کر سکتی ہیں اور اس سے روزگار حاصل کر سکتی ہیں ۔

ٹیوشن کلاس :

پڑھی لکھی خواتین گھر میں بچوں کو ٹیوشن دے سکتی ہیں ، دن میں دو سے تین گروپ میں بچوں کو پڑھایا جا سکتا ہے ۔ اس طرح گھر ہی سے آمدنی کا ذریعہ شروع کیاجا سکتا ہے ۔اسکول کے بچوں کو ٹیوشن دینے کے علاوہ گھر میں مہندی کلاس ، بیوٹیشن کلاس اور کوکنگ کلاس بھی شروع کی جا ساسکتی ہے ۔

کنڈر گارڈن:

نرسری اسکول میں داخلے سے قبل ایک سال تک بچوں کی ذہنی تربیت کی جاتی ہے کتاب ، سلیٹ ، بستہ ، پانی کی بوتل اور دیگر ساتھیوںسے متعارف کیا جاتا ہے ، تاکہ بچے کا جب کسی اسکول میں داخلہ کروایا جائے ، تو اسے اجنبیت محسوس نہ ہو اور وہ ان تمام اشیا سے مانوس ہو جائے ۔ اس کے لیے کوئی بھی خاتون اگر اس کے پاس مناسب جگہ ہے ، یا گھر بڑا ہے ، تو اپنے گھر سے شروع کر سکتی ہے۔

لفافے اور کیری بیگ:

کاغذ کے لفافے اور کیری بھی گھر میں بنائے جا سکتے ہیں ۔ آج کل آلودگی کو کم کرنے یا دور کرنے کے لیے پلاسٹک کی کیری بیگ پر پابندی لگ گئی ہے ، اس کی جگہ کاغذ کے لفافے اور کیری بیگ مارکٹ میں چل رہی ہیں ۔ ردی کی دوکان سے پرانے میگزین کلو کےحساب سے مل جاتے ہیں انہیں گھر لا کر آٹے کی لئی کی مدد سے چھوٹے بڑے لفافے بنائے جائیں ۔ یہ لفافے کریانے کی دوکان، بیکری ، جنرل اسٹور ، میڈیکل اسٹور میں فروخت کیے جا سکتے ہیں ۔ چھوٹے بڑے کاغذ کے کیری بیگ بنا کر کرانے کی دوکان ،جنرل اسٹور میڈیکل اسٹور اوربازار میں اس کی بہت کھپت ہے ۔ اسی طرح موٹے کاغذ کی تھیلیاں بھی بنائی جاتی ہیں ۔ آج کل ان تھیلیوں کا چلن عام ہے اور انہیں بنانا بہت آسان ہے ۔

مہندی :

مہندی کےکون بنانا اور ڈیزائن بنانے کی تربیت حاصل کرنے میں زیادہ وقت نہیں لگتا ہے ، سال بھر اس کی ضرورت ہوتی ہے ، عید ، سالگرہ ، شادی ،منگنی یا ایسے ہی خوشی کے موقع پر لوگ مہندی لگواتے ہیں ۔ عید اورشادی بیاہ کے موقع پر مہندی لگانے والی خواتین کی بہت اچھی آمدنی ہو جاتی ہے ۔ مہندی ڈیزائن کا کام شروع کرنے کے لیے بہت کم سرمایے کہ ضرورت ہوتی ہے ۔

فال بڈنگ:

خواتین جب بھی ساری یا ڈوپٹہ خریدتی ہیں ، تو اس کی بیڈنگ کرواتی ہیں اور اس میں فال لگواتی ہیں ۔ اب ساری اسٹوروالے یہ کام گھریلو خواتین کو دیتے ہیں ، جس سے ان خواتین کی آمدنی شروع ہو جاتی ہے ۔گھر میں اگر ایک بڈنگ اور ایمرائڈری کی مشین ہو ، تو ساری کی دوکانوں سے ساری کی فال بیڈنگ کا کام مل جاتا سکتا ہے ، دن بھر میں دس بیس ساری کی فال بڈنگ سے اچھی خاصی آمدنی ہو سکتی ہے۔

سلائی:

گھر میں اگر سلائی مشین ہو ، تو علاقے کے درزی کی دوکانوں سے کٹنگ کیے ہوئے کپڑے صرف سلائی مارنے کے لیے مل جاتے ہیں ، ان کی سلائی کر کے اچھی اجرت مل سکتی ہے اور عید ، دیوالی اور شادی کے سیزن میں یہ کام بہت زیادہ مل جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ریڈی میڈ گارمنٹ کی دوکانوں سے نائٹی اور ساری پیٹی کوٹ بھی مشین کی سلائی کے لیے ملتے ہیں ۔ ریڈی میڈ گارمنٹ کے کارخانوں سے بھی سلائی کے لیے کپڑے ملتے ہیں ، جس کی اجرت یومیہ دی جاتی ہے ۔ اس طرح کے کام ہر علاقے میں ملتے ہیں ، اس کے لیے کہیں دور جانے کی ضرورت نہیں ۔

ٹفن سروس:

خواتین اچھا کھانا بنانا جانتی ہیں ، ایسی خواتین اپنے علاقے میں ٹفن سروس شروع کر کے آمدنی کا ذریعہ پیدا کر سکتی ہیں ۔ عام طور سے گھر سے دور کام کرنے والے افراد ہوٹل کے کھانے کے بجائے گھر کے بنے ہوئے کھانے کو اہمیت دیتے ہیں اور اگر وہ اپنے گھر سے ٹفن نہیں لا سکتے ، تو اس صورت میں گھریلو کھانے کے ٹفن سروس کی تلاش میں رہتے ہیں۔ اس طرح مختلف علاقوں میں بہت سی خواتین کھانے کے ٹفن بنوا کر بھیجتی ہیں ۔ یہ بہت ہی کم بجٹ سے شروع کیا جانے والا منافع بخش کاروبار ہے ۔

روٹی:

آج بھی مختلف ہوٹلوں میں گھر کی بنائی ہوئی روٹیاں ہوتی ہیں ۔ ہوٹل کے لیے روٹی بنا کر فروخت کرنا بھی منافع بخش کام ہے ۔

ادرک لہسن کا پیسٹ:

ادرک لہسن کا پیسٹ بنا کر فروخت کیا جا سکتا ہے ، بازار میں اس کی کھپت بہت ہے ، اکثر بازار میں چھلے ہوئے لہسن بھی مل رہے ہیں ، جو بے چھلے لہسن سے دوگنے دام میں ملتے ہیں ، لہسن چھل کر انہیں پیک کر کے بازار میں فروخت کیا جا سکتا ہے ۔ یہ بھی آمدنی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ جب پیاز کے دام کم ہوں ، تو خرید کر اسے کاٹ کر بریاں کر کے پیک کیا جائے ، تو یہ بریاں پیاز میں بھی اچھا منافع ہوتا ہے ۔ اسکول ، بنک یا دیگر دفاتر میں کام کرنے والی خواتین کو اس طرح کی اشیا مل جانے سے کھانا بنانے میں سہولت ہو جاتی ہے ۔

اچار چٹنی :

ہر علاقے کے مخصوص پکوان اور میٹھے پکوان ہوتے ہیں ، جو عام طور سے ہوٹل یا بازار میں نہیں ملتے ایسی اشیا گھر میں بنا کر بازار میں فروخت کی جائیں ، تو ان کی کھپت زیادہ ہوگی ۔ جیسے مراٹھواڑے کا لہسن ٹھیچا، کھوپرا چٹنی ، اچار وغیرہ ۔ اس کے علاوہ مختلف قسم کے اچار ، پاپڑ بنا کر فروخت کیے جا سکتے ہیں ۔ ان سب اشیا کے کاروبار کے لیے بہت کم سرمایہ لگتا ہے ۔

چاکلیٹ :

چاکلیٹ بھی گھر میں آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں اور چاکلیٹ بہت تیزی سے بک جاتے ہیں ۔ بہت کم سرمائے سے گھر میں فرسان بنایا جا سکتا ہے ،بازار میں اس کی کھپت بھی بہت زیادہ ہے ۔

موم بتی :

جن علاقوں میں بجلی کا بحران ہوتا ہے ، وہاں موم بتی کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے ، مگر فینسی کینڈل ہر جگہ اور ہر موسم میں فروخت ہوتے ہیں ۔ پہلے جو لوگ خاص مواقع پر یا کسی خوشی کے موقع پر تیل کے دیے سے چراغاں کرتے تھے وہ اب موم کے دیے روشن کرتے ہیں ، اس طرح موم کے دیے کی کھپت بڑھ گئی ہے اور بہت کم سرمائے سے یہ کام بھی شروع کیا جا سکتا ہے ۔دیوالی اور کرسمس کے موقع پر اس کی کھپت بہت زیادہ ہوتی ہے ۔

مٹی کے برتن کی پینٹنگ:

چھوٹے بڑے گلدان اور پینے کے پانی کے مٹکے گھڑے اور صراحی پر خوشنما اور جاذب نظر پینٹنگ کرنے سے ان کی قیمت بڑھ جاتی ہے اور ایسے برتن یا گلدان ہاتھوں ہاتھ فروخت ہو جاتے ہیں ۔ مٹی کے برتن والوں سے اس کا آرڈر لے کر انہیں پینٹنگ کر کے دی جا سکتی ہے ۔

سویاں بنانا:

اورنگ آباد ، مہاراشٹر کی خواتین گھروں میں سویاں بنا کر فروخت کرتی ہیں ۔ سویاں بنانے کی مشین بہت ہی کم دام میں مل جاتی ہے ، جس سے یہ کاروبار شروع کیا جا سکتا ہے ۔

جویلری :

جویلری بنانا ، آج کل لباس کے مطابق میچنگ جویلری کا چلن عام ہے اور جویلری بنانے کا سامان ہول سیل میں بہت کم دام میں ملتا ہے ، اسے گھر میں بنا کر مارکٹ میں فروخت کیا جا سکتا ہے ، اس کاروبار میں اچھا منافع ہوتا ہے ۔ آج کل کپڑے ، کاغذ اور کریپ کے زیورات بھی بنائے جا رہے ہیں ، جن کا چلن عام ہوتا جا رہا ہے ۔

پھول:

کریپ اور کاغذ کے پھولوں کے گل دستے ، وال پیس ، شو پیس بھی گھر میں آسانی سے بنائے جا سکتے ہیں ، مارکٹ میں ان کی کھپت بھی بہت ہے ۔

سوفٹ ٹوائز:

بچوں کے کھلونے ، جو کپڑے اور اسپنج سے بنائے جاتے ہیں ۔ یہ بھی بہت ہی کم سرمائے سے گھر سے شروع کیا جانے والا کاروبار ہے اور خواتین آسانی سے کر سکتی ہیں ۔

کی چین:

مختلف اشیا سے کی چین بنائے جا سکتے ہیں ۔

بےبی سیٹنگ:

ملازمت کرنے والی خواتین اپنے چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے پریشان رہتی ہیں ، ایسے میں بے بی سیٹنگ سے انہیں سہولت مل جاتی ہے ، چھوٹے بچوں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لینے والی گھریلو خواتین کو اس کی مناسب اجرت ملتی ہے اور ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی دیکھ بھال اور تحفظ کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے ۔ کوئی کام چھوٹا نہیں ہوتا ، ہر کام میںایک دوسرے کی مدد کا جذبہ ہونا چاہیے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بر سر روزگار خواتین کے لیے روزگار کے ذرائع بہت ہوتے ہیں ، مگر گھر کے کام اور بچوں کی ذمہ داری ان کے پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں ایسے میں گھریلو خواتین کی ٹفن سروس اور بے بی سٹنگ سے انہیں سہولت مل جاتی ہے اور ایسی ہی ملازمت پیشہ خواتین کی مصروفیت سے دیگر گھریلو خواتین کو روزگار مل جاتا ہے ۔

گودڑی اور لحاف:

کوکن کی خواتین با قاعدہ گروپ بنا کر گودڑیاں سیتی ہیں ، جس کی بہت اچھی اجرت ملتی ہے ، یعنی ایک گودڑی کی ہاتھ سلائی کی اجرت ہزار پندرہ سو روپے ہوتی ہے ، لحاف بھی گھر میں بنائے جاتے ہیں ۔ گودڑی اور لحاف بنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے ۔ کوکن کی مختلف ڈیزائن کے گودڑی کے استر بھی بناتی ہیں ، جس کی اجرت اچھی خاصی مل جاتی ہے اور اس کام کے لیے کسی مشین کی ضرورت بھی نہیں ہوتی ، تمام کام ہاتھ کی سوئی سے ہوتا ہے ۔

گفٹ پیکنگ:

خوشی کے موقع پر خاص طور سے دیوالی کے موقع پر بڑی بڑی کمپنیاں، سیاسی لیڈر اور بہت سےلوگ اپنے اسٹاف اور دیگر لوگوں کو گفٹ پیکٹ دیتے ہیں ، ایسے موقع پر اس کی پیکنگ کا کام اچھی اجرت پر مل جاتا ہے ، ایسے ہی شادی بیا ہ کے موقع پر دلہا دلہن اور ان کے رشتہ داروں کو دیے جانے والے کپڑے اور دلہا دلہن کے استعمال کے سامان بھی خوشنما انداز میں پیک کرنے کا آرڈر اچھی اجرت پہ مل جاتا ہے ۔ کوئی کام مشکل نہیں ، بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوالٹی اچھی ہو اور اسے مارکیٹ میں پیش کرنے کا انداز جاذب نظر ہو ، مال ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے ۔ یوں تو روزگار کے ذرائع تلاش کریں تو بہت ہیں ، یہ سب کم سرمایہ سے شروع کیے جانے والے کام ہیں ۔ ۲۰۰۰؍ سے ۳۰۰۰۰؍ روپے کے قلیل سرمایے اور اپنی محنت اور ذہانت سے کیے جانے والے یہ کام ضرور با صلاحیت خواتین کو کامیابی سے ہم کنار کر سکتے ہیں ۔ ابتدا میں کاغذ کے لفافے اور کیری بیگ کا ذکر کیا گیا ہے ، اس کام کو شروع کرنے کے لیے ہزار یا پانچ سو روپے بھی کافی ہیں ۔ گھر سے ٹیوشن کلاس شروع کرنے کے لیے کسی رقم کی ضرورت ہی نہیں ہوگی ۔ موم بتی یا فینسی کینڈل کا کاروبار بھی ہزار دو ہزار روپے سے شروع کیا جا سکتا ہے ۔ ایسے گھریلو کاروبار شروع کرنے کےلیے خواتین کو حکومت کی جانب سے بلاسود کا قرض بھی ملتا ہے ، جسے آسان قسطوں میں ادا کیا جا سکتا ہے ۔ ایسی بہت سی اسکیمیں ہیں ، جن کے تحت کاروبار شروع کرنے کے لیے سرکار کی جانب سے غیر سودی قرض ملتا ہے، اس پر سبسٹڈی ملتی ہے ۔ بے روزگاری اور کم آمدنی سے پریشان ہونے کے بجائے اپنی سوچ ، وقت اور صلاحیت کو روزگار کے ذرائع پیدا کرنے اور ان سے آمدنی حاصل کرنے پر لگایا جائے ، تو مثبت نتائج سامنے آ سکتے ہیں ۔حکومت کی جانب سے ملنے والے کاروباری قرض کا استعمال کر کے اپنی آمدنی کا ذریعہ پیدا کیا جا سکتا ہے ، بے روزگاری اور مہنگائی کا رونا رونے سے مسائل حل نہیں ہو سکتے ۔ کامیابی کے لیے حرکت میںآنا ہوگا ، اسی لیے کہتے ہیں
’’ حرکت میں برکت ‘‘۔
کوئی کام مشکل نہیں ، بس اس بات کا خیال رکھا جائے کہ کوالٹی اچھی ہو اور اسے مارکیٹ میں پیش کرنے کا انداز جاذب نظر ہو ، مال ہاتھوں ہاتھ بک جاتا ہے ۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱