جمہوریت فاشزم کے نرغےمیں
سال 2014 میں مرکزی سرکار بدلتے ہی ہندوستان خطرناک سیاسی تبدیلیوں کا شکار ہوا ہے ، ان تبدیلیوں کے بعد سے جو تغیرات سیاسی اور سماجی سطح پر رونما ہو رہے ہیں اور جس برق رفتاری سے فرقہ پرست سیاست زور پکڑ رہی ہے یہ صورتحال کسی عذاب سے کم نہیں ،ایسا لگتا ہے اور اب اس ملک سے جمہوریت کا خاتمہ ہونے جا رہا ہے اور ابھی جمہوریت فاشسزم کے نرغے میں بری طرح سسک رہی ہے ۔
نریندرمودی نے اقتدار سنبھالتے ہی ہندوتوا کی زہریلی بھیڑ کو متحرک کردیا۔ ملک میں جابجا گائے اور لوجہاد کے نام پر ماب لنچنگ شروع ہوگئی ۔ دی کوئینٹ کے ریکارڈ کے مطابق ۲۰۱۵ سے اب تک ۱۱۳ لوگ ماب لنچنگ میں مارے جا چکے ہیں ۔۔ ‏‎دادری میں گائے کے گوشت کے نام پر اخلاق کے قتل اور پونہ میں محسن شیخ کے بہیمانہ قتل سے شروع ہونے والا یہ نفرتی سلسلہ مسلمانوں کے خلاف ہنوز جاری ہے ‏‎ لیکن اب تک ان جرائم کے روک تھام تو درکنار انصاف کی کوئی شکل بن نہیں سکی ہے۔۔ دوسری طرف ہندو مسلم زہر پھیلانے میں جو کردار بھارت کے میڈیا ہاؤز نے ادا کیا وہ شرمناک ترین ہے۔دھڑلے سے جھوٹی خبروں کی اشاعت سے لے کر مسلم مخالف زہریلی اینکرنگ کے ذریعے دن رات میڈیا نے ہندوؤں کو مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایسا متنفر کر دیا کہ کئی جگہوں پر لوگوں نے مسلم تاجروں کے بائیکاٹ کا اعلان بھی کیا۔۔ ان میڈیا ہاؤز کی نفرت انگیز اینکرنگ مجرمانہ عمل ہے لیکن اس پر بھی کوئی کارروائی نہیں پھرجب مودی حکومت کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف شہریت ترمیمی قانون لایا گیا اور جب مسلمانوں نے اس سے اختلاف کیا تو پارلیمنٹ کی رکنیت رکھنے والے یوگی آدتیہ ناتھ، انوراگ ٹھاکر اور امیت شاہ جیسے پارلیمانی لوگوں نے ہندو بھیڑ کو مسلمانوں کے احتجاج کے خلاف بھڑکایا دنگائی زبان استعمال کی اور گولی مارنے تک کی بات کی لیکن ایسے فسادی پارلیمنٹرین کیخلاف بھی برائے نام بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی ،بالآخر دہلی میں مسلم مخالف فساد بھڑک اٹھا محلے مساجد اور درگاہیں نشانہ بنائی گئیں جس کی تفصیلات آچکی ہیں لیکن اس فساد کے بعد بھی ایک اور ستم مسلمانوں پر ڈھایا گیا کہ انہی کو اس کا مجرم بتا کر جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔ ‏‎ شاہین باغ احتجاج اور سی۔اے۔اے مخالف احتجاجی تحریکات کی وجہ سے، شرجیل امام، خالد سیفی آصف، عمر خالد، گل فشاں سے لیکر میران حیدر تک متحرک مسلم نوجوانوں کوجیلوں میں بند کیاگیاہے تقریباًان سبھی کو UAPA یا NSA جیسے سنگین ایکٹ کے تحت قید کیاگیاہے UAPA میں بہتر فیصد اضافہ ہوا ہے، ان مقدمات کے مقابلے میں جو ۲۰۱۵ میں درج ہوے اور جو ۲۰۱۹ میں درج کیے گئے، یہ ایک لمحہ فکریہ ہے ہندوستان میں جمہوریت اور شہری حقوق کے سلسلے میں۔ ‏‎ ملک سے بغاوت اور غداری کا الزام لگا کر بھاجپا مخالف انسانوں کو قید کرنے کا جو سلسلہ مسلمانوں سے شروع ہوا تھا اس نے اب اپنی بھوک کو بڑھا دیا ہے، کسان آندولن میں شریک لوگوں کو بھی گرفتار کیا جا رہا ہے، وہ ہر اُس شخص کو نشانہ بنا رہےہیں جو کسی بھی طرح مودی سرکار کے خلاف بیداری عام کرسکتا ہے، جو آر ایس ایس کے ایجنڈے کو نقصان پہنچا سکتاہے،ملک کی پارلیمنٹ سے لیکر پولیس مشنری تک ایک مخصوص نسل پرستی والے نظریے کے مطابق کام کر رہی ہیں وہ ملک کی بھلائی اور خیرخواہی کو کنارے لگا چکے ہیں اور میڈیا مسلسل آگ بھڑکا رہا ہے،وہیں ہر دوسرے دن حکومت کے فیصلے حکومتی اداروں کے موقف اور سرکاری پالیسیاں پوری طرح غیر جمہوری بلکہ سچائی اور انصاف کے خلاف ہو چکی ہیں ملک کے سیکولر اور جمہوری ڈھانچے کو رفتہ رفتہ ختم کردیا گیا ہے آگے حالات مزید سنگین ہوسکتے ہیں۔ اس صورتحال کے بعد سب سے زیادہ تشویش کا مقام ہماری غفلت، خواب خرگوش، غیر مقصدیت، بزدلی اور انتشار ہے مسلم تنظیمیں نام نہاد سماجی ادارے اس فرقہ پرستی،زہرافشانی اور نفرت انگیزی کے خلاف منصوبہ بندی سے کام لینے کی بجائےہاتھ پر ہاتھ دھرے تماشہ دیکھ رہے ہیں،جبکہ ملک کے بدلتے مجموعی حالات میں اپنی معاشرتی تصویر کو بدلنےاور اپنی شناخت برقرار رکھنے کے لیے سب سے پہلے اپنے فروعی مسائل اور آپسی انتشار کو ختم کرنے کی ضرورت ہےمعیاری تعلیم کے لیے جدوجہد کے ساتھ ساتھ انفرادی واجتماعی طور پر ملک کے سماجی تہذیبی سیاسی مزاج کو پہچاننا ضروری ہے۔۔۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱