وطن

نظم

بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

لہو کی سرخیوں سے یہ چمن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

مِرے اجداد نے اپنے لہو سے اس کو سینچا ہے
یہ ہندو اور مسلم کی محبت کا بغیچہ ہے
حسیں مہتاب کے رخ پر گہن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

اجاڑا اپنا گلشن کیوں بتا اے باغباں! آخر
بتا ڈھونڈوں کہاں تجھ کو مِرے ہندوستاں آخر
تِرا زخموں سے یہ چھلنی بدن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

ہے چاروں سمت خوں ہی خوں لرزتا ہے بدن میرا
اٹھایا کیسا یہ طوفاں بکھرتا ہے چمن میرا
کرے کوئی مظالم کا جتن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

سسکتے ہیں کہیں بھائی، کہیں پر روتی ہیں بہنیں
کہیں بچّے بلک اٹھّے، تڑپ اٹھّیں کہیں مائیں
ذرا ٹھہرو اے فنکارو! یہ فن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

بتاؤ کب تلک یونہی وطن کو تم نچوڑوگے
ہماری ایکتا کو ظالمو! کب تک یوں توڑوگے
*ثمر* ان ظالموں کا یہ چلن اچھا نہیں لگتا
بجھا دو آگ نفرت کی وطن اچھا نہیں لگتا

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱