خواتین پر مظالم سے نجات کی جانب اقدام
یونین بجٹ ، (۲۰۱۸-۲۱) برائے تشدد مخالف خدمات کا تجزیہ قومی خاندانی سروے برائے صحت 4 ( National Family ( Health Survey کے مطابق ۳۰ فیصد خواتین اور ۱۵ سال سے زائد عمر کی لڑکیاں صنفی تفریق پر مبنی کسی نہ کسی جسمانی زیادتی کا شکار رہی ہیں ۔ متعدد تشدد کے معاملات کی نوعیت ازدواجی ہے ۔ان معاملات میں سے ایک شادی شدہ عورت اپنی ازدواجی زندگی میں تشدد کی دیگر اقسام بشمول تیزاب حملے اور جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنی ہے ۔ حالیہ Covid 19 کے بحران کے نتیجہ میں نافذ لاک ڈاؤن کے سبب متعدد خواتین گھروں میں محصور ہو کر شوہر اور افراد خانہ کی پرتشدد حرکات کو جھیلنے پر مجبور رہیں ۔لاک ڈاؤن کے دوران خواتین کے تئیں پر تشدد واقعات میں تشویشناک اضافہ درج کیا گیا ۔ آکسفام انڈیا (OXFAM INDIA) کی حالیہ رپورٹ ، خواتین مخالف تشدد کے مسائل سے نمٹنے کے لئے متعین کردہ یونین بجٹ ( ۲۰۱۸-۲۱) کا جائزہ لیتی ہے ۔رپورٹ کے مطابق درپیش مسئلہ کے سدباب کے لئے بجٹ (۲۰۲۰-۲۱) میں مختص رقم ۹۰۰۰کروڑ تھی جس میں موجودہ بجٹ (۲۰۲۱-۲۲) میں ۱۰ فیصد کی تخفیف کر دی گئی ہے ۔ مذکورہ بجٹ Sambal Scheme کے تحت تھا ۔سمبل اسکیم ‘خواتین کے تئیں مظالم کو براہ راست مخاطب کرتی ہے ۔ ساتھ ہی امور داخلہ کی وزارت سے منسلک خواتین کی تحفظاتی اسکیموں کے لئے وقف بجٹ میں %۸۸ کا انحطاط درج ہوا ۔ رپورٹ کے پیش کردہ حقائق کے مطابق مذکورہ تمام بجٹ مسئلے کو حل کرنے میں ناکافی ثابت ہوئے ہیں ۔ تحقیق کی روشنی میں یہ بات ثابت ہو گئی کہ کل 8.44 کروڑ خواتین صنفی تفریق پر مبنی تشدد سے گزری ہیں ۔ موجودہ حقائق کے تناظر میں دیکھا جائے تو اگر 60 فیصد خواتین بھی اپنے اوپر ہونے والے مظالم سے نپٹنے کے لئے violence services کی طرف رجوع کرتی ہیں تو مختص بجٹ کم از کم 11,000 کروڑ ضرور ہونا چاہیے تھا اور 90 فیصد اخراجات کی فراہمی مرکزی حکومت کی جانب سے ہونی چاہئے تھی ۔ ناکافی بجٹ بھی دوسرا بڑا مسئلہ ہے ۔ آکسفام انڈیا سروے کی رپورٹ درج ذیل حقائق کا انکشاف کرتی ہے ۔ ۱۔ ۳۳ فیصد خواتین پر گھریلو تشدد کے واقعات سامنے آئے ۔ یہ خواتین اپنی شادی شدہ زندگی میں جسمانی، جنسی تشدد کی اذیت سے گزر چکی ہیں ۔ 6 فیصد خواتین گزشتہ بارہ مہینوں میں متعدد بار ان مظالم کو جھیلتی رہی ہیں ۔52% خواتین اور% 42مرد ، شوہر کو اپنی بیوی کے ساتھ مار پیٹ کے معاملات میں حق بجانب تصور کرتے ہیں۔ ۲۔ 30% ادراج کے ساتھ جسمانی تشدد ازواج کے مابین زیادتیوں میں سب سے زیادہ رائج قسم پائی گئی۔ ۳۔محض 14 فیصد جنسی یا جسمانی طور پر مظلوم خواتین نے سال ( 2016-15 )میں مدد فراہم کرنے والے اداروں کی جانب رجوع کیا ۔ ۴۔سال( 20-2019 ) میں وزارت خزانہ/ مالیات کی جانب سے نربھیا فنڈ کے تحت 4357.62 کروڑ روپیوں کی فراہمی کی گئی (MWCD Annual Report 6)حالانکہ اس کا %73 داخلی امور کی وزارت (یو ایس) کو مختص کیا گیا۔ دیگر وزارتوں مثلاً صحت، تعلیم، وغیرہ نے متعلقہ منصوبوں کا اعلان تک نہیں کیا۔ ۵۔حکومت کے ذریعہ 181- Women Helpline , One Step Centre Swadhar Greh (دارالامان), Fastrack Special Courts (تیز رفتار خصوصی عدالت) جیسی اسکیموں کا نفاذ تو ہوا لیکن مجموعی طور پر ان اسکیموں کو یونین بجٹ (2020-21) میں صرف 2009 کروڑ کی حصہ داری ہی ملی۔ ۶۔یونین بجٹ میں ان اسکیموں کے حصے میں اضافہ صرف0.02% (سال 2018-19) سے 0.07% (سال 2020-21) ہی ہوا۔ ۷ ۔متعلقہ مسئلے کے حل کے لیے موجودہ مختص بجٹ مطلوب بجٹ (کروڑ 10000) کا فقط 25 فیصد ہی ہے۔ متوقع ہے کہ رپورٹ اعدادوشمار، واضح حقائق حکومت کی بجٹ پالسی کو آئندہ سال میں مثبت طور پر متاثر کریں گے۔ بجٹ میں متقاضی ترمیم خواتین مخالف تشدد کے واقعات میں خاطر خواہ کمی اور راحت کا سبب بنے گی۔
متعدد تشدد کے معاملات کی نوعیت ازدواجی ہے ۔ان معاملات میں ایک شادی شدہ عورت اپنی ازدواجی زندگی میں تشدد کی دیگر اقسام بشمول تیزاب حملے اور جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنی ہے۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱