ماضی کا بوجھ
ماضی کا بوجھ لے کر چلنے والے افراد منزل کی جانب بوجھل قدموں سے چلتے ہیں اور چلتے چلتے تھک جاتے ہیں ۔زندگی میں ہلکے پھلکے آگے بڑھنے کے لیے انسانی رویوں کو اور درد و تکلیف کے دنوں کے بوجھ کو فوراً نکال کر ہشاش بشاش آگے بڑھنا عقل مندی ہے ۔ کبھی ایسی خواتین کو دیکھا ہے جو بہترین اور پُر تعیش وقت گزارتے ہوئے بھی ہر نشست میں آپ کو شادی کے چند ماہ کے تکلیف دہ واقعات سناکر نم دیدہ ہوتی ہیں اور وہ یہ کہانی ستر سال کی عمر میں بھی بیان کررہی ہوتی ہیں۔ پس وہ ماضی کا بوجھ لے کر چلتی ہیں اور ہمیشہ تھکی رہتی ہیں یہاں تک کہ پیوند خاک ہوجاتی ہیں۔ یہ عادت آپ کو پتہ ہے کب لگتی ہے ۔؟ بچپن ہی میں جب آپ کے گھر کے افراد برے وقت کو دہرا دہرا کر اداس ہوتے ہیں ۔تب بچوں کو بھی نسٹالجیہ کا مرض لاحق ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے برے ماضی کو دہراکر خود ترسی کی کیفیت سے لطف انداز ہونے لگتے ہیں اور یہ مرض ان کی پوری زندگی کو متاثر کرتا ہے ۔ماضی حال کو برباد کرتا ہے مستقبل میں کمزور بنادیتا ہے ۔

کچھ خار کم کئے گزرے جدھرسے ہم

آپ کی ذات لوگوں کے درمیان صلح کرنے والی ہونی چاہیے جہاں سے گزریں وہاں وہاں صلح کرائیں ۔ انسانوں کے نفسیاتی مسائل آپ کے ذریعہ حل ہوں، لوگوں کے فیملی تنازعات آپ حل کرنے والے ہوں ۔جہاں جس حال میں ہوں لوگوں کے لیے آسانی فراہم کرتے ہوئے گزریں، انسانوں کے مسائل حل کرتے ہوئے گزرنا ایسا ہی ہے جیسے تکلیف دہ پتھر کو راستے سے ہٹاتے ہوئے گزرنا ۔ آپ کی ذات جس قدر مادی دنیا سے بے نیاز ہوتی ہے آپ اسی قدر اللہ کی مخلوق کی بے لوث خدمات کرنے والے ہوتے ہیں ۔ اور جس قدر انسانوں کے مددگار بنتے ہیں آپ کی نسلیں بھی آپ سے عملا وہی سبق سیکھتی ہیں ۔ نسلوں کو وراثت کے ساتھ انسانیت کا درس بھی دیتے ہوئے دنیا سے گزریں مادی دنیا کا وجود فانی ہے اور اللہ کےبندوں کی خدمت کو آخرت تک دوام ہے ۔

ترغیب

دیکھو بیٹا پڑھو گے لکھو گے نہیں تو تمہارا بھی یہی انجام ہوگا اسی طرح تم بھی لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کروگے ۔ دوسری ماں نے ترغیب دیتے ہوئے کہا! دیکھو بیٹا تم پڑھ لکھ لوتو اس ضرورت مند کی طرح اور کئی لوگوں کے مسائل حل کرسکو گے ۔ بظاہر یہ دونوں جملے ہیں جو بچے کو پڑھنے کی ترغیب دینے کے لیے کہے گئے ہیں ۔ لیکن یہ عام جملے نہیں آپ کے بچے کی زندگی کا نظریہ بن جائیں گے ۔ عموما ہم بچوں سے گھروں میں کہتے ہیں نہیں پڑھو گے تو ہوٹل پر کپ دھونے کے لیے رکھوادیں گے یا نہیں پڑھو گے تو رکشہ چلاؤ گے ۔ یہ جملے نہیں پیشے اور پیشے سے جڑے افراد سے نفرت کے بیج ہم بو رہے ہیں ۔رفتہ رفتہ وہ انسانوں کو ان کے پیشے اور مادی معیار سے تولنا شروع کردیتے ہیں ۔ ترغیب کے لیے آپ یوں بھی تو کہہ سکتے ہو جیسا کہ ایک ماں نے کہا بیٹا پڑھ لکھ کر تم ہر غریب کی مدد کے قابل بن سکتے ہو ۔
Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اپریل ۲۰۲۱