یکم مئی کو یوم مزدور کے طور پر منانے کا آغاز اس وقت ہوا جب مغربی دنیا میں مزدوروں کے حوالے سے شعور پیدا ہوا۔اس موقع پر دنیا بھر میں سیاسی جماعتوں اور مختلف اداروں و ٹریڈ یونیوں کے زیر اہتمام ریلیوں اور سیمیناروں کا اہتمام کیا جاتا ہے۔جس میں محنت کشوں کو درپیش مسائل، انڈسٹریل ریلیشن ایکٹ اور مزدور دشمن قوانین کے خلاف آواز بلند کی جاتی ہے ۔ یکم مئی کا دن مزدوروں کے عالمی دن کے طور پر مناتے ہوئے دنیا کو ۱۲۲ سال ہوگئے ہیں ۔لیکن آج بھی مزدوروں کے مسائل حل کرنے کے لئے کئے جانے والے اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو صورت حال انتہائی مایوس کن منظرنامہ پیش کرتی ہے ۔جس کا ازالہ کرنے کے لئے یہ دن منایا جاتا ہے ۔خدا کرے کہ زمینی سطح پر بھی اس کے کچھ فوائد محنت کش مزدوروں کے مقدر میں آئے اورانہیں بھی بحیثیتِ انسان،انسانی حقوق سے بہرہ مند ہونے کا موقع ملے۔
ِسِمرہ انصاری کالج اسٹوڈنٹ ہیں انہوں نے چھوٹے پیمانے پر کام کرنے والی کچھ خواتین سے گفتگو کی ہے اور جاننے کی کوشش کی ہے کہ آج کے مزدوروں کے مسائل کیا ہیں اور انہیں کن کن مشکلات کا سامنا ہے۔دیکھیں ان کی رپورٹ۔
پہلی خاتون
پچھلے ۳۰ سال سے قمیص اور بلاؤز میں ترپائی کا کام کرتی ہیں۔ان کی فیملی میں شوہر، ۴بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔یہ پچاس سالہ خاتون گھر کے کام کرتے ہوئے اپنے ترپن کے کام سے ہونے والی تکالیف بیان کر رہی تھیں۔انہوں نے ہمیں بتایا کہ اس کام سے روزآنہ لگ بھگ ۱۸ سے۲۰ روپے کما لیتی ہیں لیکن یہ ۲۰ روپے کمانے کے لیے انہیں پل بھر کا سکوں میسّر نہیں ہوتا۔ پچھلے کچھ عرصے سے بیٹی بھی ہاتھ بٹا دیتی تھی تو وہ بھی ۲۵ سے۳۰ روپے کما لیتی تھی لیکن اس کام سے بچی کی پڑھائی متاثر ہو رہی تھی اور صحت پر بھی برا اثر پڑ رہا تھا اس لئے وہ اب یہ کام نہیں کر رہی ہے۔ پوچھنے پر کہ آپ ان پیسوں کا کیا کرتی ہیں تو دبی آواز میں جواب دیا کہ ان پیسوں سے تو صرف ہماری دوائی آجاتی ہے۔ جو ہم کماتے ہیں وہ سب ڈاکٹر کے پاس چلا جاتا ہے کیونکہ ترپائی کا کام کرنے سے آنکھیں بھی متاثر ہوتی ہیں اور سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے۔ بیٹی نے بتایا کہ میں تو پچھلے دو مہینوں میں دو ہزار روپے بھی نہیں کما سکی اور تین ہزار سے زیادہ علاج پر خرچ ہو گئے۔ اس کام سے کوئی فائدہ نہیں بلکہ نقصان ہی نقصان ہے پھر بھی پچھلے ۳۰ سال سے یہ کام کر رہی ہیں۔
دوسری خاتون
دوسری خاتون سے ہم نے گفتگو کی انہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی کام کرنا شروع کیا ہے۔یہ گھر پر ہی شلواروں کی سلائی کا کام کرتی ہیں اور دن بھر میں تقریباً ۱۰۰ روپے کما لیتی ہیں۔ان سے دریافت کیا کہ کیا آپ کام کرنے کا شوق رکھتی ہیں یا کسی مجبوری کے تحت یہ کام کر رہی ہیں؟ کہنے لگیں: نہیں میں یہ کام نہیں کرنا چاہتی ہوں اور نہ ہی میرے شوہر چاہتے ہیں کہ میں یہ کام کروں لیکن مجبوری انسان سے سب کچھ کرا لیتی ہے۔لاک ڈاؤن کے بعد حالات ہی کچھ ایسے ہو گئے کہ کام کرنے کی ضرورت پیش آئی لاک ڈاؤن کے بعد سے شوہر کی کمائی اتنی نہیں ہو پاتی کہ گھر کا خرچ، بچّوں کی پڑھائی اور دوسرے اخراجات پورے ہو سکیں اس لئے میں نے سوچا کہ مجھے بھی کچھ کام کرنا چاہیے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں کہ کوئی اچھی نوکری مل جائے اور کسی فیکٹری میں جاکر بھی کام نہیں کر سکتی ہوں کیونکہ گھر کو بھی دیکھنا ہوتا ہے اس لئے گھر پر رہ کر ہی یہ کام کرتی ہوں۔پوچھا گیا کہ کیا اس کام سے آپ کو فائدہ ہو رہا ہے تو پتہ چلا کہ کوئی خاص فائدہ نہیں ہے کیونکہ ٹیلر صرف کٹنگ کر کے دیتے ہیں باقی سب سامان لانا اور کام ان کو خود کرنا ہوتا ہے۔ اگر کبھی غلطی ہو جائے تو پھر سارا کام دوبارہ کرنا پڑتا ہے۔
تیسری خاتون
تیسری کہانی بڑی ہی باہمت خاتون کی ہے۔ ان کی شادی کو ۳۰ سال ہو گئے اور یہ اتنے ہی عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ اپنے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگیں:
ان ۳۰سالوں میں زندگی نے نہ جانے کیسے کیسے حالات دکھائے مگر حالات کچھ بھی ہوں زندگی تو نہیں رکتی۔شوہر کچھ کام نہیں کرتے اگر کرتے بھی ہیں تو اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے۔ لیکن مجھے تو گھر کو سنبھالنا ہے اور بیٹی کے مستقبل کے بارے میں بھی سوچنا ہے اس لئے میں گھر سے باہر جاکر کام کرتی ہوں۔ ہم نے پوچھا کہ آپ کیا کام کرتی ہیں تو بتانے لگیں کہ میں ایک فیکٹری میں دواؤں کو پیک کرنے کا کام کرتی ہوں اور ۱۲ سال سے یہی کام کر رہی ہوں۔ اس سے پہلے بہت سے کام کیے جیسے اسکول میں صفائی کا کام کیا، موموز بنانے کا کام بھی کیا ہے اور بھی بہت سے کام کیے۔ یہ خاتون اپنی نوکری سے ماہانہ سات ہزار روپے کما لیتی ہیں۔اسی رقم سے گھر خرچ چلتا ہے۔ گھر خرچ کے ساتھ ساتھ شوہر کی دواؤں اور بیٹی کے جہیز کا انتظام بھی اسی رقم سے ہوتا ہے۔ شوہر کافی عرصے سے بیمار ہیں اس لئے ان کی دیکھ بھال کے لیے بھی گھر پر کوئی چاہیے اس لئے ان کی بیٹی نے پڑھائی چھوڑ دی اور اب وہ گھر پر ہی رہ کر والد کا خیال رکھتی ہے اور یہ خاتون کام کرنے کے لیے فیکٹری جاتی ہیں۔ انکے خاندان اور گھربار کا نظم اِن کے ہی کندھوں پر ہے۔
انہوں نے ایک اور چونکانے والی بات بتائی اور کہا :’’لاک ڈاؤن کے بعد جب فیکٹری جانا شروع کیا تو دیکھا کہ مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے یہ کہہ کر کہ تم لوگ کورونا پھیلا رہی ہو۔ مجھے اور کچھ اور خواتین کو نہیں نکالا لیکن ہمیں فیکٹری کے الگ حصہ میں کام دیا گیا اور کہا کہ تم لوگ دوسرے حصہ میں نہیں جاؤگے۔ ہم نے کچھ دن وہ کام کیا لیکن وہ کام بہت گندا تھا ہم پورے گیلے ہو جاتے تھے اس لئے ہم نے منیجر صاحب سے کہا کہ آپ ہمیں پیکنگ کا کام ہی دیدیجیے۔ منیجر نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا اور مجھے فیکٹری سے ہی نکال دیا گیا۔‘‘
ذریعۂ معاش بھی چھن جانے سے تو جیسے ان پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ مگر اتنے مشکل حالات میں بھی انہوں ہمت نہیں ہاری مسلسل نوکری کی تلاش میں رہیں اور انکو ۴ماہ قبل اسی فیکٹری میں کسی کی سفارش کی ذریعے پھر سے نوکری مل گئی۔
آخری کہانی ایک ۱۹ سالہ لڑکی کی ہے۔ یہ بہن کم عمری میں ہی والد کے سائےسے محروم ہو گئیں۔ ان کے والد کینسر کے مریض تھے۔ ایک عرصہ تکلیف برداشت کرنے کے بعد ۳سال پہلے وہ اس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے۔ اب گھر میں والدہ اور دو چھوٹی بہنیں ہیں۔ والد کے انتقال کے بعد نویں جماعت میں ان کو پڑھائی چھوڑنی پڑی مگر انہوں ارادہ کیا کہ چھوٹی بہنوں کی پڑھائی متاثر نہیں ہونے دوں گی۔ والدہ کی عدت کا عرصہ گزرنے کے بعد انہوں نے اسکول میں پڑھانا شروع کیا۔نرسری کلاس کو پڑھاتی تھیں جس کے انہیں ۸۰۰ روپے ماہانہ ملتے تھے۔ انکی تنخواہ میں سے چھوٹی بہنوں کی فیس بھی کاٹی جاتی تھی۔ہم نے سوال کیا کہ کیا آپ اپنی نوکری سے مطمئن تھیں؟ جواب میں کہا کہ نہیں کیونکہ کام بہت زیادہ ہوتا تھا اور تنخواہ کم تھی اور مزید ستم یہ کہ بچی ہوئی رقم میں سے بھی کبھی چھٹی کے نام پر تو کبھی کسی بہانے سے پیسے کاٹ لیے جاتے تھے۔ اسی طرح انہوں ڈھائی سال اسکول میں جاب کی اور اس دوران یہ ٹیوشن کے ذریعے پڑھائی کرتی رہیں اور NIOS سے دسویں جماعت کے امتحان دیے اور اب اس سال بارہویں کے امتحانات کی تیّاری کر رہی ہیں۔ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ ان کی مشکلات کو آسان کرے اور ان کے لیے نئی راہیں ہموار کرے۔
انہوں نے ایک اور چونکانے والی بات بتائی اور کہا :ـــ’’ لاک ڈاؤن کے بعد جب فیکٹری جانا شروع کیا تو دیکھا کہ مسلمانوں کو نکالا جا رہا ہے یہ کہہ کر کہ تم لوگ کورونا پھیلا رہی ہو۔ مجھے اور کچھ اور خواتین کو نہیں نکالا لیکن ہمیں فیکٹری کے الگ حصہ میں کام دیا گیا۔
0 Comments