عورت کی کمائی اور خاندانی تنازعات

جیسے جیسے دنیا بھر میں لڑکیوں کے درمیان تعلیم بڑھی ہے اور ان کے لیے روز گار کے مواقع بڑھے ہیں تو لڑکیوں نے بھی پیشہ وارانہ زندگی سے پیسہ کمانے کے میدان میں اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔اب لڑکیاں اور خواتین برسر روزگار ہوکر اپنے اہلِ خاندان کے ساتھ معاشی زندگی میں اور گھر اور خاندان کی معاشی خوشحالی میں شریک ہورہی ہیں۔یہ لڑکیوں کے تعلیم یافتہ اور برسرِ روزگار ہونے کا ایک مثبت اور تعمیری پہلو ہے۔

ایک اور مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ معاشرے میں خواتین اور تعلیم یافتہ لڑکیاں سماج کی ایسی بہت سی ضروریات کی تکمیل میں اپنا کردار ادا کررہی ہیں جس میں ان کی کمی محسوس ہوتی تھی اور جن میدانوں میں ان کا آگے بڑھنا ضروری تھا۔ مثلاً میڈیکل کی خدمات، تعلیم و تدریس اور سماجی خدمات کے بہت سے کام۔ان کاموں میں آگے بڑھنے سے عورت کی خود کفالت کا تصور بھی عام ہوا ہے اور سماج میں اس کا تعمیری رول بھی بڑھا ہے لیکن بعض سماجی، معاشرتی اور اقتصادی پہلوؤں سے اس صورت حال نے عورت کی پرسکون زندگی کو شدید طور پر متاثر بھی کیا ہے اور مذکورہ تمام مثبت پہلوؤں کے باوجود اسے نئے مسائل سے دوچار کیا ہے۔یہ مسائل دنیا بھر کے سبھی معاشروں میں تقریباً یکساں ہیں لیکن ہندوستانی معاشرے میں ان کی نوعیت نسبتاً زیادہ شدید اور عورت یا لڑکی کے لیے زیادہ تکلیف دہ ہے۔
اگرہندوستانی معاشرے کے تناظر میں دیکھیں، جہاں جہیز جیسی بیماری ہر لڑکی کے ساتھ جڑی ہے تو سماج میں لالچ اور حرص کی ایک عجیب سے کیفیت نظر آتی ہے۔ یہاں جو لڑکی جس قدر تعلیم یافتہ ہے اس کے ساتھ والدین کی جانب سے اسی قدر زیادہ جہیز کی امیدیں جڑ جاتی ہیں اور معاشرہ اس بات کو قطعاً خاطر میں نہیں لاتا کہ اس لڑکی کے والدین نے اس کی تعلیم پر کس قدر مالی وسائل صرف کیے ہیں اور کس محنت اور جاں فشانی سے اسے تعلیم یافتہ بناکر اس قابل بنایا ہے کہ وہ اہل خاندان کی معاشی خوشحالی میں بھی معاون ہوسکے۔
ایک کماؤ اور برسرِ روزگار لڑکی جب اپنی ازدواجی زندگی شروع کرتی ہے تو اس کا تعلیم یافتہ اور ملازمت پیشہ ہونا بعض اوقات اس کے لیے شدید قسم کے مسائل اور ذہنی اذیت کا باعث بن جاتا ہے۔خاص طور پر اس صورت میں جہاں شوہر بے روزگار ہو یا اپنی خصلت اور مزاج کے اعتبار سے نکما اور کام چور ہو۔ ایسی صورت میں تو اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ایک عام سا تصور ہمارے معاشرے میں یہ پایا جاتا ہے کہ آنے والی بہو اگر کمانے والی ہے تو وہ تمام سسرالی رشتہ داروں کی ضروریات، مطالبات اور نخروں کو بھی برداشت کرے گی اور ان کی تکمیل بھی کرے گی۔ ایسا بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض لوگ ایسی لڑکی سے شادی صرف اس وجہ سے کرتے ہیں کہ وہ کمانے والی ہے۔اس میں لالچ کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں ہوتا اور جب ان کے لالچ کا گھڑا نہیں بھرتا تو نت نئے قسم کے مسائل اس کے سامنے سر اٹھانے لگتے ہیں۔ ایسے لالچی لوگوں کو اس بات کی قطعاً پرواہ نہیں ہوتی کہ قانونی، سماجی یا مذہبی و دینی اعتبار سے لڑکی کے حقوق اور ذمہ داریاں کیا ہیں اور اس کے اختیارات کیا ہیں۔ اکثر اوقات اس کیفیت میں مذہب اور خطوں کی تفریق کے بنا تمام لوگ شامل نظر آتے ہیں۔
اخلاقی، قانونی اور دینی اعتبار سے عورت کو مکمل مالی حقوق حاصل ہیں۔وہ کما سکتی ہے، پراپرٹی بناسکتی ہے اور اپنی کمائی کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا پورا حق رکھتی ہے۔اسلام میں تو اس حق کی بڑی اہمیت ہے۔ فقہ کی کتابوں میں یہ بات لکھی ہوئی ہے کہ بیوی اپنے شوہر کو زکوٰۃ کی رقم دے سکتی ہے جبکہ شوہر اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا کیونکہ وہ قانونی طور پر اس کا کفیل ہے۔موجودہ دور کی ورکنگ وومن جو گھر اور معاش کا دوہرا بوجھ اٹھاتی ہے اکثر اس بات کو لے کر شدید دباؤ کا شکار رہتی ہے اور گھر اور خاندان میں بھی روز روز کے جھگڑے اس کی تنخواہ اور کمائی اور اس کے خرچ کو لے کر ہوتے رہتے ہیں۔اور اکثر گھرانوں کا یہ بڑا مسئلہ بن جاتا ہے جو خاندان کے سکون کے ساتھ ساتھ کمانے والی لڑکی کی زندگی کا سکون بھی غارت کردیتا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ عورت کی کمائی پر اس کے مائیکے اور سسرال والے دونوں کی نظریں ہوتی ہیں۔ کچھ لوگوں کو مالی مدد کی امیدیں ہوتی ہیں اور کچھ لوگ اسے اپنا حق سمجھتے ہیں۔لوگوں کا تصور یہ ہے کہ شادی کے بعد عورت کی کمائی ،اس کی آمدنی اس کے شوہر اور سسرال والوں کی ہوتی ہے۔اس کمائی میں بڑے اور چھوٹے سب اپنے تئیں حصہ داری قائم کرلیتے ہیں۔جب کہ اسلامی قانون کے مطابق عورت اپنی کمائی پر پورا استحقاق رکھتی ہے۔
ازدواجی زندگی میں داخل ہونے کے بعد عورت کو حمل، ولادت، ریاضت اور طبعی حالات سے گزرنا پڑتا ہے جو اس کے لیے ذہنی اور جسمانی طور سے تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ان حالات میں عورت جاب بھی کرے تو اس پر دہرا بوجھ ہوتا ہی ہے اور صحیح وقت میں مناسب غذا و آرام نہ ملنے کی وجہ سے اس کی صحت متاثر ہوتی ہے۔ان حالات میں اسے نفسیاتی طور پر بھی آرام و سکون اور محبت و اپنائیت کی بڑی ضرورت ہوتی ہے۔مگر اسے یہ چیزیں گھر اور خاندان کا ماحول نہ صرف فراہم نہیں کرتا بلکہ الٹا اس کے ذہنی و جسمانی سکون کو غارت کرنے کا ذریعہ بنتا ہے وہ اس طرح کہ متوسط طبقے کی خواتین کے شوہر اکثر اس کی تنخواہ ’چھین‘ لیتے ہیں، انکار کی صورت میں گالی گلوچ اورلڑائی جھگڑے ہوتے ہیں۔بعض نشے کی لت میں گرفتار شوہر تو شراب پی کر راتوں کو مارپیٹ بھی کرتے ہیں۔یہاں تک کہ اپنی ہی کمائی ہوئی رقم میں سے انہیں روزانہ شوہر یا ساس و خسر سے آمد و رفت (transport) کے لیے کرایہ تک مانگنا پڑتا ہے۔ خواتین کے لیے یہ ایک ذہنی اذیت ہے جس سے وہ روزانہ گزرتی ہیں۔جب وہ بسوں میں سوار ہو کر دفتر کے لیے جاتی ہیں تو کتنے ہی بیہودہ فقروں کو سننا پڑتا ہے اورکتنے ہی مردوں کے ساتھ body touch ہوتا ہے ۔وہ یہ سب کراہت کے ساتھ برداشت کرتی ہیں لیکن اکثر گھر کے افراد کو ان باتوں کا احساس تک نہیں ہوتا۔اس کے بعد گھر آنے پر سارے کام منتظر ہوتے ہیں، جہاں کوئی اس کا ہاتھ بٹانے والا اور مددگار بھی نہیں ہوتا۔ ڈاکٹر فوزیہ سعید نے اپنی کتاب Working with Sharks میں ایسی گیارہ خواتین کی سچی کہانیوں کو پیش کیا ہے جنھیں کام کی جگہ پر تنگ کیا جاتا رہا ہے۔ اس کتاب کو پڑھنے سے ملازمت کرنے والی خواتین کے مسائل کو سمجھا جا سکتا ہے ۔کچھ ورکنگ ویمن سے ان کی تنخواہ پر بات ہوئی۔پروفیسر شہناز رعنا کا کہنا ہے:
’’جب سے میری نوکری لگی ہے تب سے اپنے سارے اخراجات میں خود اٹھاتی ہوں،نہ میں نے شوہر سے کبھی مانگا اور نہ ہی انھوں نے کبھی دیا۔‘‘
ڈاکٹر مسرت عمران گائناکالوجسٹ فرماتی ہیں :
’’ شوہر کھلے طور پر کبھی تقاضا نہیں کرتے لیکن ہر ماہ کے اخراجات پوچھ لیتے ہیں۔ایک طرح سے خیال رکھنا ہوتا ہے کہ حساب دینا ہے ۔‘‘
یہ تو اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ان پیشوں سے وابستہ خواتین کی کیفیت ہے جنھیں سماج میں عزت و شرافت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ان کی روشنی میں آپ عام قسم کی خواتین کے مسائل کا صرف اندازہ لگاسکتے ہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کتنی ہی خواتین اپنے شوہروں سے صرف اس وجہ سے الگ ہوجاتی ہیں کہ ان پر ان کی کمائی کو لے کر ناقابلِ برداشت قسم کا بوجھ تھا جسے وہ برداشت کرنے کی سکت نہیں رکھتیں۔
عورت کے معاشی تنازعات کا حل
عورت کے کسبِ معاش اختیار کرنے کی وجہ سے کچھ مسائل و تنازعات یقیناً کھڑے ہوتے ہیں جنھیں صرف اخلاقی اور اسلامی اصولوں کی روشنی میں ہی حل کیا جا سکتا ہے۔اسلام نے عورت کو معاشی مصروفیت اختیار کرنے کی اجازت دی ہے لیکن والد یا شوہر یا بھائی اسے جبراً کام کرنے کے لیے مجبور نہیں کر سکتے۔ وہ اپنی کمائی جیسے چاہے، جہاں چاہے اپنی ضرورت سے استعمال کرے۔ اس کے لیے کوئی اس سے استفسار کا قانونی حق نہیں رکھتا حتی کہ شوہر بھی نہیں۔جبکہ اصولاً، اخلاقاً اور قانوناً عورت شوہر کی آمدنی پر پورا حق رکھتی ہے اور اس کے نان نفقہ کی ادائیگی شوہر کا ذمہ ہے۔اس میں صرف ایک اخلاقی پہلو ہے اور وہ یہ کہ عورت غیر اخلاقی اور ناجائز جگہوں پر مال خرچ کرے تو اس کی نگرانی اور اس پر ٹوکنا شوہر کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ جہاں تک ضرورتاً اپنے شوہر یا والد کی مالی مدد اور معاشی جدوجہد میں ان کا تعاون کرنے کی بات ہے تو اسے دوہرا اجر ہے۔جب کہ معاشی ذمہ داری سے آزاد عورت اپنے شوہر کے مال کی مالکن ہوتی ہے۔مالکن کی حیثیت سے وہ اس میں تصرف کا پورا حق رکھتی ہے۔
دورِ نبوی ﷺ میں عورتوں کے معاشی مشاغل کی بات کی جائے تو کچھ روشن مثالیں ملتی ہیں۔حضرت خدیجہ ؓ بین الاقوامی سطح کی پہلی مسلم تاجرہ تھیں۔ حضرت فاطمہؓ کھیتی کرتیں اور رسول اللہ ﷺ اس اناج کو کھاتے تھے۔حضرت سودہؓ چمڑے کا کاروبار کرتی تھیں۔ حضرت خولہؓ اور صفیہؓ عطر تیار کرتی تھیں۔اسلامی تاریخ میں کئی ایسی خواتین بھی ملتی ہیں جو طب کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ غرض کہ ہر خاتون اپنی صلاحیت کے اعتبار سے سماج کو مضبوطی عطا کرتے ہوئے اس کی خدمت میں اپنا رول ادا کررہی تھی لیکن ان تمام مثالوں میں اور بعد کے ادوار میں ہمیں کہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ بیوی کی کمائی کے سلسلے میں گھریلو تنازعات پیدا ہوئے ہوں۔اس کی بنیادی وجہ یہی نظر آتی ہے کہ اس دور میں لوگ عورت کے معاشی و مالی حقوق کو جانتے اور سمجھتے تھے اور ساتھ ہی ان کا احترام کرتے ہوئے عورت کے اختیارات میں مداخلت کرنے کی بجائے تعاون کا رویہ اپنائے ہوئے تھے۔
عورت کی کمائی کو لے کر ہونے والے گھریلو اور خاندانی تنازعات کا حل عورت کے مالی حقوق اور اختیارات کے احترام میں پوشیدہ ہے۔ اہلِ خاندان کے لیے لازم ہے کہ وہ لالچ اور حرص کو چھوڑ کر کمانے والی عورت کے ساتھ تعاون اور گھریلو کاموں میں مدد کا رویہ اختیار کریں۔
عورت جو کچھ کماتی ہے، ظاہر ہے وہ اسے اپنے شوہر، بچوں، سسرال والوں اور دیگر قریبی رشتہ داروں پر ہی خرچ کرے گی۔ ایسے میں حرص، لالچ اور جبر کا رویہ قرآن کے اس اصول کے خلاف ہے جس میں اپنا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا گیا ہے۔ (البقرۃ:188)
اصولی باتوں کے علاوہ کچھ اخلاقی قدریں بھی ہیں جن کے اختیار کرنے سے بہت سے خاندانی مسائل خاص طور پر مذکورہ مسئلے حل کیے جاسکتے ہیں۔ان میں ایک بات یہ ہے کہ خوش حالی اور مال خرچ کرنے کی بہترین شکل یہ ہے کہ اسے قریبی رشتہ داروں پر خرچ کیا جائے مگر یہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم مال کی محبت سے نکل کر اللہ کی رضا کے طالب ہوں۔ ایک طرف زبردستی مال ہڑپ کرنے کا رویہ ہے، دوسری طرف خوش دلی سے رشتہ داروں پر خرچ کرنے کی بات ہے۔ اول الذکر فساد کا سبب ہے اور دوسرا دلوں کو جیتنے اور گھر کو پرامن و پرسکون بنانے والا اور دلوں کو جیتنے والا ہے۔
عورت کا کمانا اور اہلِ قرابت پر خرچ کرنا احسان کی روش ہے جبکہ اس کی کمائی پر لالچ کی نظر اخلاقی خرابی ہے، خواہ وہ کسی بھی جانب سے ہو۔احسان پسندیدہ ہے اور لالچ ناپسندیدہ۔اچھی چیز کو اپنانا اور برائی سے دوری پرسکون زندگی کی ضمانت ہے۔ایساہوا تو اس کی زندگی کے مختلف شعبے امن کا گہوارہ بن سکتے ہیں ۔اس ضمن میں عورت اسلام کے اصولی قوانین کو سمجھ کر اپنی زندگی میں نافذ کرے۔اسلامی اصولوں اور ہدایات پر عمل کیا جائے تو مشکلیں باقی نہیں رہیں گی۔ان حدود کی پابندی سے ماحول میں مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔اس دور میں بھی کئی ایسی خواتین ہیں جنھوں نے کسب معاش کے ساتھ ساتھ اسلامی طرزِ فکر و عمل کو اختیار کیا۔وہ خوداعتمادی اور یقین کے ساتھ ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے میں اپنا رول ادا کر رہی ہیں۔
جس گھر میں عورت جاب کرتی ہو اس گھر کے لوگوں کا اخلاقی فرض ہے کہ اسے گھریلو کاموں سے حتی الامکان فارغ کر دیں ۔معاشی جدوجہد اس کی ذمہ داری بالکل بھی نہیں ہے نیز وہ اپنی تعلیمی صلاحیتوں یا گھریلو مسائل کو دیکھتے ہوئے ملازمت کرتی ہے تو یہ گھر کے افراد پر اس کا احسان ہے اور احسان کا بدلہ احسان ہی ہے۔شوہر صاحبِ حیثیت ہو تو بیوی گھر کے کاموں کے لیے خادمہ کے مطالبے کا حق بھی رکھتی ہے، بلکہ اپنی تنخواہ سے خود بھی رکھ سکتی ہے۔یہ الگ بات ہے کہ وہ گھریلو کاموں کو اپنا اخلاقی فریضہ سمجھتے ہوئے انجام دے۔
ملازمت پیشہ عورت کو بھی چاہئے کہ فراخدلی اپنائے ،گھر والوں کو وقتاً فوقتاً کچھ تحفے وغیرہ دیا کرے۔ واضح رہے کہ تحفے کی مختلف شکلیں ہیں اور مادہ پرستی کے اس دور میں روپے کی ضرورت کا صحیح استعمال ضروری ہے ۔اسلام نے عورت کے وقار کو بلندی عطا کی، اسے تحفظ بخشا سکون و اطمینان کے ساتھ معاشی تگ و دو کی اجازت دی اور اپنی بقاء کو قائم رکھنے کے راستے دکھائے ہیں۔

اخلاقی، قانونی اور دینی اعتبار سے عورت کو مکمل مالی حقوق حاصل ہیں۔وہ کما سکتی ہے، پراپرٹی بناسکتی ہے اور اپنی کمائی کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرنے کا پورا حق رکھتی ہے۔

اسلامی تاریخ میں کئی ایسی خواتین بھی ملتی ہیں جو طب کے پیشے سے وابستہ تھیں۔ غرض کہ ہر خاتون اپنی صلاحیت کے اعتبار سے سماج کو مضبوطی عطا کرتے ہوئے اس کی خدمت میں اپنا رول ادا کررہی تھی لیکن ان تمام مثالوں میں اور بعد کے ادوار میں ہمیں کہیں یہ بات نظر نہیں آتی کہ بیوی کی کمائی کے سلسلے میں گھریلو تنازعات پیدا ہوئے ہوں۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۱