سرد شعلے

ہر صبح تڑکے ہی جوان مگر ضعیف ماں اطراف کے گھروں میں برتن دھوکر اپنے مالک کے بچوں کا تازہ کھانا بناکر لوٹتی ہے ساتھ اس کے باسی کھانا ہوتا ہے اس بیچاری کو گھروں کا باسی کھانا گرم کرتے وقت اتنی خوشی ہوتی ہے جیسے ہفت اقلیم کی سلطنت اس نے حاصل کرلی ہو اس کے چہرے کی آسودگی دیدنی ہوتی ہے‌۔
اور اس کی انکھوں کی چمک کا سحر مجھ کو ایسا جکڑ لیتا کہ کھانے کے خراب ہونے کی بو تک کا احساس نہ رہتا اور میں کھا لیتا، بیٹا ہوں نا یہ کھانا پہلے مجھ کو ملتا ہے پھر بچ رہا تو میری بہن کو ۔
نعمتوں کا نہ ملنا تکلیف دہ بالکل نہیں لیکن نعمتیں ہاتھ میں ہو کر بھی دسترس سے باہر ہونے کا عذاب،آہ کہ نہ پوچھ۔
اسی طرح ہر روز جب بھی شام کا ملگجا اندھیرا چھا جاتا ہے میری بھوک ہوٹل کے بننے والے کھانوں کی خوشبو سے سر اٹھاتی ہے کھانے دیکھ کر اشتہا بڑھتی ہے۔اور میں اپنے منہ میں آئے پانی کے گھونٹ پی پی کر ہوٹل میں آنے والوں کو اشتہا انگیز کھانے کھلاتا رہتا ہوں۔کئی مرتبہ میری نگاہ ہاتھ میں پکڑ کر لے جاتی ہوئی پلیٹ پر ایک آزمائش بن کر اٹک جاتی ہے اور میں جبلت کو ضرورت اور مجبوری کی زنجیر سے باندھتے ہوئے سنسناتے دماغ کے ساتھ اپنے فرائض انجام دیتا ہوں۔
جبلت چاہے اپنائیت محبت کی بھوک کی ہو یا کھانے کی۔بھوک جب سر پر سوار ہوتی ہے تو بندہ اس کے سحر میں جکڑ کر اندرونی محرومی کے احساس سے ادھ موا ہوجاتاہے اور دیکھنے والوں کو غائب دماغ نظر آتا ہے۔
کیونکہ میں خود سے چھوٹی غائب دماغ بہن کو بھی تو جانتا ہوں جو ویران آنکھوں میں ماں اور باپ سے، میرے مقابلے میں کم محبت ملنے پر محبت کے حصول کے لئے ایسے ہی حسرت سے دیکھتے دیکھتے اس کی آنکھوں کی چمک ماند پڑ چکی ہے۔
اب تو غائب دماغی سے ہوٹل میں آئے لوگوں کی جھڑکیاں سننا میرا معمول بن چکا ہے۔جبلت کی خاص بات یہ ہے کہ جب سر اٹھائے اسی وقت اس آگ کو نہ بجھایا جائے تو جبلت کے دہکتے شعلے بجھی ہوئی آگ کی طرح بس راکھ کا سرد ڈھیر بن چکے ہوتے ہیں۔ ایسے ہی سب سے آخر میں ہوٹل کا مالک بچا ہوا کھانا مجھ کو بھی دیتا ہے اور میں بے دلی سے لے جاکر اپنی ماں اور بہن اور معذور باپ کے پیٹ کی آگ بجھانے کے لئے لاکر ڈھیر کردیتا ہوں۔
میری بھوک تو کب کی راکھ بن چکی ہوتی ہے۔بھوک کو روز راکھ بناتے بناتے میری زندگی بھی سرد تھپیڑوں سے ٹھٹھر ہی تو چکی ہے۔
پہروں سوچتا ہوں کہ اس دنیا میں انسان کے علاوہ ایک ایسی مخلوق بھی کاش بستی،جس کو سب کی خدمت کے ساتھ اپنی ذات خواہش جبلت ضرورت، تمنا ،امید کا احساس ہی نہ ہوتا تو کیا ہی اچھا ہوتا کیونکہ ان سب کے ساتھ جیتے ہوئے، روز مرنے اور روز جینے کا درد کون جان سکتا ہے میرے سوا۔

Comments From Facebook

0 Comments

Submit a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

مئی ۲۰۲۱